لاک ڈاؤن


گجرات کے فسادات نے ہند کے مسلمانوں میں ہندوؤں کے لئے نفرت اور کدورت کو جنم دیا تھا۔ کھلے عام اس کا مظاہرہ نہ بھی ہو تو دلوں میں میل تو آ ہی گیا تھا۔ پھر حال ہی میں ہونے والے مسلم کش واقعات نے بھی اس چنگاری کو ہوا دی تھی۔ گؤ ماتا کا نام لے کر عقوبت کے واقعات ہوں، محض مسلمان جان کر بربریت کا مظاہرہ ہو یا پھر کشمیر کے مسلمانوں پر حقہ پانی بند کر نے کی خبریں ہوں، ایک عام مسلمان جو اس استبداد کے خلاف کچھ نہ کر سکتا ہو، شدید گھٹن کا شکار تھا۔ ایسی بے بسی کبھی کبھی غیر منطقی رویوں کو جنم دیتی ہے۔

جھلسا دینے والی گرمی پڑ رہی تھی عارفہ گھر سے نکلتے ہوئے جوس کی ٹھنڈی بوتلیں ساتھ رکھ لیتی اور دھوپ میں کام کرنے والے مزدوروں میں تقسیم کرتی جاتی۔ لیکن پہلے ان کا نام پوچھ کر تسلی کر لیتی کہ وہ ہندو تو نہیں۔ یوں اپنی نیکی کو اس نے تعصب کا لبادہ اوڑھا دیا تھا۔ اس روز بھی وہ دلی کے پرانے محلے سے گزر رہی تھی کہ ایک بوڑھے مزدور کو دیوار سے ٹیک لگائے دیکھ کر گاڑی روکی۔ نام پوچھا تو اس نے رامو نام بتایا۔ عارفہ نے گاڑی آگے بڑھا دی۔

گھر پہنچ کر وہ کام کاج میں لگ گئی پر نہ جانے کیوں آج عارفہ کے دل کو عجیب بے کلی تھی بار بار دیوار سے ٹیک لگائے رامو کا چہرہ اس کی نظروں میں آ رہا تھا۔ کوئی انجانا سا احساس جرم اسے کچوکے لگا رہا تھا۔ دن سے رات ہو گئی اور رات سے اگلی صبح، مگر اسے چین نہ آیا۔ دل کو بہلانے کو گاڑی لے کر نکل گئی۔ بے دھیانی میں ڈرائیو کرتے ہوئے اسی جگہ پہنچ گئی جہاں کل رامو کو بیٹھے دیکھا تھا مگر وہ کہیں دکھائی نہیں دیا وہ اس پاس کی سڑکوں پر گاڑی گھماتی رہی مگر وہ بازار میں گرے ہوئے سکے کی مانند گم ہو گیا تھا۔ عارفہ بے نیل مرام لوٹ آئی۔

لاج پت نگر دہلی کا ہندو مسلم ملی جلی آبادی والا علاقہ تھا۔ عارفہ کا خاندان ایک اپارٹمنٹ میں رہتا تھا۔ باورچی خانے میں چولھے کے پیچھے کشادہ دریچہ تھا جس کی کگر پر عارفہ نے منی پلانٹ کا سرخ گملا رکھا ہوا تھا۔ عین مقابل دوسرے فلیٹ کے باورچی خانے کی کھڑکی تھی جس پر پردہ پڑا رہتا تھا لیکن آج پردے سے بے نیاز کھڑکی کھلی ہوئی تھی۔ گوری رنگت، اہو چشم اور لب لعلیں سے منقش چہرہ دیگچی سے اٹھتی بھاپ سے شبنمی ہو رہا تھا۔ شاید اس گھر میں نئے لوگ آئے تھے۔ اچانک اس نے سر اٹھایا اور اس کی نظر عارفہ پر پڑی۔

”گڈ مارننگ عارفہ جی“
عارفہ حیران ہوئی وہ اس کا نام کیسے جانتی ہے

”ہم اس گھر میں نئے شفٹ ہوئے ہیں پہلے ہم میور ویہار میں رہتے تھے۔ ہم تین ہیں۔ میں میرے پتی انیکے اور ہماری دو سال کی بیٹی ٹونا۔ وہی، فش والا ٹونا۔ اس نے وضاحت کی۔

”آج صبح میں پاس پڑوس میں گئی تھی آپ شاید گھر پر نہیں تھیں۔ پانچ سو گیارہ والی سپنا دیدی نے آپ کے بارے میں بتایا۔ ارے میں نے اپنا نام تو بتایا ہی نہیں۔ میرا نام پریانکا ہے۔“ آپ کو پتہ ہے عارفہ جی کل سے لاک ڈاؤن لگ رہا ہے ”

”لاک ڈاؤن؟“
”کورونا کے کیس بہت بڑھ گئے ہیں ناں لاک ڈاؤن تو ضروری ہے۔“

عارفہ سناٹے میں آ گئی۔ وہ پریانکا کی کسی بات کا جواب دیے بنا کھڑکی سے ہٹ گئی۔ اسے جلدی سے بازار سے ضروری سودا سلف لاکر اسٹور کرنا تھا جانے یہ لاک ڈاؤن کب تک چلے۔ یوں بھی وہ ہندو فیملیز سے زیادہ روابط نہیں رکھتی تھی۔ راستے میں آتے جاتے اس کی نگاہ غیر اختیاری طور پر سڑک سے زیادہ آس پاس تھی مگر رامو کہیں نظر نہ آیا۔

واپس آ کر اس نے اپنی جرنلسٹ دوست کو فون کر کے حالات حاضرہ کی خبر لی۔ اگلے کئی دن یا شاید کئی صدیاں لاک ڈاؤن یا نظر بندی کے عالم میں گزرے۔ دونوں بچے آن لائن کلاسز لے رہے تھے اور صاحب ان لائن آفس کا کام کرتے لیکن عارفہ کیا کرتی۔ بس ہر دو گھنٹے بعد چائے کا پیالہ صاحب کو دینے کے علاوہ اس کے پاس کرنے کو کچھ نہ تھا۔ خبریں دیکھنے سے اسے اختلاج قلب ہونے لگتا۔ موت کا وحشیانہ رقص اور انسان کی بے چارگی اس سے برداشت نہیں ہوتی تھی۔ ٹی وی کے ڈرامے بھی اب دل نہیں بہلا پاتے تھے۔ کہیں آنے جانے کا تو سوال ہی نہیں تھا فلیٹوں میں بھی لوگ ایک دوسرے سے کتراتے تھے جیسے ہر ذی نفس اپنی سانسوں میں موت کی ہوا لئے پھر رہا ہو۔ اب تو سودا سلف کے لئے بھی آن لائن سروس اختیار کرلی تھی۔ ایک دن تو صاحبزادے چلا اٹھے

”مجھے انسانوں سے ملنا ہے ریئل انسانوں سے۔ فون اور لیپ ٹاپ پر نظر آنے والی تصویروں سے نہیں۔“

گھر کے عین مین ساڑھے تین افراد کے علاوہ اگر کوئی انسان دکھتا تھا تو ہوم ڈیلیوری کرنے والا لڑکا۔ دروازے کی جھری سے دستانہ پوش ہاتھ رسد اور رقم کا تبادلہ کرتے اور بس۔ ایسے میں باورچی خانے کی کھڑکی کے اس پار پریانکا کا ہنستا مسکراتا چہرہ باد صبا کے جھونکے کی مانند تھا۔ دو میٹر کے سماجی فاصلے کو برقرار رکھتے ہوئے سوشل لائف جاری رکھی جا سکتی تھی۔ پریانکا کی نظر جب بھی عارفہ پر پڑتی وہ شیشہ سرکا کے بات کرنا شروع کر دیتی۔ کبھی کبھی اس کی گود میں چڑھی ہوئی ٹونا اپنی سنسکرت میں جانے کون سی داستانیں سناتی۔ ابھی تک اس کی زبان صاف نہیں تھی مگر ماں کی طرح باتیں کرنے کی شوقین تھی۔ عارفہ شروع میں سرد مہری کا رویہ رکھتی تھی مگر اب وہ اس کی باتیں دھیان سے سنتی تھی۔ آج وہ کہہ رہی تھی

”عارفہ جی آج میرے پتی کا برتھ ڈے ہے۔ بنگالیوں میں جنم دن پر گڑ کا میٹھا بناتے ہیں پر آج گڑ نہیں ہے تو شکر ہی ڈالنی پڑے گی۔“

”کیا تم بنگالی ہو“ عارفہ نے پہلی بار دلچسپی لیتے ہوئے کہا۔

”میرے پتی بنگالی ہیں کلکتے سے بیلونگ کرتے ہیں میں تو لکھنؤ کی ہوں پر زیادہ وقت یہیں گزرا ہے دلی میں۔“

عارفہ کو یاد آیا گاؤں سے آیا ہوا تازہ گڑ رکھا ہے اس نے پریانکا سے کہا دروازہ کھولو میں گڑ بھجواتی ہوں۔

پریانکا ویجیٹیرین تھی اور انیکے نان ویج کھانے کا شوقین تھا۔ پریانکا نے کہہ دیا تھا کہ وہ ماس کو ہاتھ نہیں لگائے گی اس لئے انیکے خود ہی پکاتا اور خود سنے ہوئے برتن دھوتا۔

انیکے کچھ پکا رہا تھا۔ بڑی توجہ کے ساتھ دیگچی میں مسالے ڈالے اور پھر لکڑی کی ڈوئی والا ہاتھ مدھانی کی طرح گھمایا عارفہ دلچسپی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ ماس پکتے وقت پریانکا تو رسوئی میں پاؤں نہ دھرتی تھی۔ اچانک انیکے نے سر اٹھایا اور عارفہ کو دیکھ کر پوچھنے لگا

”عارفہ جی باورچی اور خانساماں میں کیا فرق ہے۔ یہ پریانکا مجھے خانساماں کہتی ہے“
”وہی جو کک اور شیف میں ہے“ عارفہ نے ہنس کر کہا
”میں نے بچوں کے لئے بادام کی ٹھنڈائی بنائی ہے ٹونا کے لئے بھیجتی ہوں۔“

عارفہ نے برتنوں کی الماری سے عمر کے بچپن کا چھوٹا سا شیشے کا گلاس نکالا اور بادام دودھ کے شربت سے بھر کے ماسک پہنا اور دروازے کی طرف بڑھی۔ انیکے نے گلاس لیتے ہوئے کہا

”پریانکا کورونا سے بہت ڈرتی ہے۔ نیچے تک نہیں اترتی میں تو پھر کام سے باہر جاتا ہوں لیکن پریانکا اور ٹونا تو پورا بندی ہو کر رہ گئے ہیں پر میں کھوش ہوں کہ آپ کے ساتھ اس کا اچھا سبھاؤ ہے وہ کیا کہتے ہیں دو میٹر کی ساماجی دوری بنائے رکھتے ہوئے میل ملاپ چل رہا ہے۔ پتہ نہیں یہ لاک ڈاؤن کب اٹھے گا۔

عارفہ کیا بتاتی کہ اس لاک ڈاؤن نے تو اس کے دل کا تالا کھول دیا تھا۔ اس پر عیاں ہو گیا تھا کہ افراد کج رو ہوتے ہیں ساری قوم نہیں۔ نفرت بھی صرف ظلم کرنے والے سے ہونی چاہیے اس کے ہم مذہبوں سے نہیں۔ پریانکا اور اس کے درمیان محبت، لگاوٹ اور اپنائیت کا خوبصورت ناتا جڑ گیا تھا۔

ٹونا کی برتھ ڈے اور عید الفطر دونوں لاک ڈاؤن کے دوران آئے۔ عارفہ کی عادت تھی چیزیں خرید کر الماری میں رکھتی رہتی کسی بھانجے بھتیجی کا موقع آتا تو بازار دوڑنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ اسی خزینے سے ایک گلابی بھالو نکال کر اس نے ٹونا کی سالگرہ کا تحفہ بھیجا اور پریانکا نے گھر میں بیک کیا ہوا بڑا سا کیک کا ٹکڑا۔ عید آئی تو پریانکا بولی ”میور ویہار میں عاتکہ حسن سے دوستی تھی وہ عید کے روز سویوں والی کھیر بھیجتی تھی“

عارفہ نے بتایا اسے شیر خورمہ کہتے ہیں۔ اس نے بادام پستے کی ہوائیاں چھڑک کر شیرخورمہ پریانکا کو دیا۔ برتن واپس آئے تو سینی پوش کے نیچے خشخاشی رنگ کا بندھنی والا جوڑا رکھا تھا۔

عارفہ نے کہا ”بہت تکلف کیا اس کی کیا ضرورت تھی“

”ہمارے ہاں برتن خالی نہیں لوٹاتے۔ عارفہ جی بازار تھوڑی جانا پڑا پچھلے برس جے پور سے خریدا تھا الماری میں دکھائی دیا تو لگا آپ پر سجے گا۔ سلوا کر پہنیں تو ایک تصویر ضرور بھیجیے گا“

——_————————————————-

ویکسین آ گئی تھی۔ لاک ڈاؤن میں نرمی ہو گئی تھی۔ دکانیں کھل گئیں تھیں اور بہت سی سروسز بحال کردی گئی تھیں۔ عارفہ رامو والے واقعے کو ابھی تک نہیں بھولی تھی درحقیقت بظاہر اس معمولی واقعے نے اس کی روح کو اتھل پتھل کر دیا تھا عارفہ نے اس مسئلے پر کسی سے بات نہیں کی تھی اسے لگتا تھا انجان، غریب، ہندو مزدور کے لئے اس کی بے کلی کہیں وجہ تفنن نہ بن جائے۔ اخر اس نے اپنی جرنلسٹ دوست عظمیٰ سے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کا فیصلہ کیا۔ عظمی نیو فرینڈز کالونی میں رہتی تھی۔ وہ مذہبی رواداری پر کالم لکھا کرتی تھی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں سے بھی وابستہ تھی۔ وہ اس کے بلانے پر گھر چلی آئی۔

وہ عظمی کے لئے چائے بنا رہی تھی۔ کہ پریانکا کھڑکی پر دکھائی دی اور جب اسے پتہ چلا کہ وہ اپنی دوست کے لئے چائے بنا رہی ہے تو بولی ”میں نے ابھی کافی کیک بیک کیا ہے گھر میں بنے ہوئے نمکین اور کیک بھیجتی ہوں۔ ،“

عارفہ چائے اور لوازمات لے کر عظمیٰ کے پاس آ بیٹھی۔ ”یہ نمکین اور کیک لو۔ گھر کے بنے ہوئے ہیں“ ،
”تم نے بنائے ہیں“
”نہیں پڑوس کی پریانکا نے بھیجے ہیں“
یوں لگا عظمیٰ کے منہ میں نمک کی ڈلی آ گئی ہو وہ اگلتے ہوئے بولی
”تم ہندو کے ہاتھ کا کھاتی یو۔ ناپاک ہوتے ہیں وہ“

عارفہ کے لئے لبرل عظمیٰ کا یہ ردعمل حیران کن تھا۔ اس نے لاک ڈاؤن کے دوران قرآن کا مطالعہ کیا تھا۔ اس نے کہا

”سورت بقرہ، سورت مائدہ، سورت انعام اور سورت نحل قرآن میں چار جگہ محرمات کا ذکر ہے ان میں خمر، مردار، خون، خنزیر اور ایسی چیز جس پر اللہ کے سوا کسی کا نام لیا گیا ہو شامل ہیں غیر مسلموں کے بنائے ہوئے ایسے ماکولات جو حلال اشیاء سے بنے ہوں اور ان پر غیر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اسے کھانے میں کیا حرج ہے۔ اور تم تو اپنے کالموں میں ہندو مسلم عیسائی ہم آہنگی اور رواداری اور ان کے ساتھ کھانے پینے کو پروموٹ کرتی ہو بلکہ ایک کالم میں تو تم نے مہترانیوں کے ساتھ بھی اظہار یک جہتی کیا تھا۔“

”ایسے کالم لکھنا پروفیشن کی ڈیمانڈ ہے۔ ایک ذہین جرنلسٹ وہی لکھتا ہے جو بکتا ہے“
ذہین یا ابن الوقت ”عارفہ اس منافقت پر تلخی چھپا نہ سکی۔
”خیر چھوڑو یہ بتاؤ تم نے کیوں بلایا ہے“ ؟
”کچھ نہیں۔ بہت دن ہو گئے تھے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ کیے ہوئے“ عارفہ نے کہا
اب کہ اس کی بالغ النظری کی قلعی کھل گئی تھی کیا اس سے شرح آرزو کرتی۔

کہتے ہیں کہ قلب کی تطہیر ہو جائے تو معرفت کے باب وا ہوتے ہیں لیکن عرفان کے اپنے عذاب ہوتے ہیں پھانس چین نہیں لینے دیتی جب تک حساب چکتا نہ ہو جائے۔ گاڑی کی ڈکی میں تاوان بھرے وہ جلے پیر کی بلی کی طرح گام گام رامو کو ڈھونڈتی پھر رہی تھی پھر ایک دن وہ اسے نظر آ گیا وہیں، اسی جگہ اسی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے، ویسا ہی مضمحل اور نڈھال۔ من من بھر کے قدموں سے دیوار تک کا طویل فاصلہ طے کیا اور رامو کے سامنے زمین پر گھٹنے ٹیک دیے۔ اسے لگا دل میں ترازو ہوئی پھانس نکل گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments