بالی وڈ: فلموں میں سینسرشپ کی تجاویز پر انڈیا کے بڑے فلمساز برہم


Cinema goers watch a film in Noida, Uttar Pradesh in October, 2020.

انڈیا میں فلم سازوں نے کئی دہائیوں تک سینسر شپ کے خلاف جنگ لڑی ہے

انڈیا کے چوٹی کے فلم سازوں نے ان تجویز کردہ قوانین کے خلاف احتجاج کیا ہے جن کے بارے میں انھیں لگتا ہے کہ یہ حکومت کو سینسر شپ کے لامحدود اختیارات دینا ہے۔

اگر یہ تبدیلیاں منظور کر لی جاتی ہیں تو پھر حکومت کو یہ اختیار مل جائے گا کہ وہ سینسر بورڈ سے کلیئر کی جانے والی فلم کو ایک بار پھر سے دوبارہ دیکھ سکے گی۔

فلم سازوں کا کہنا ہے کہ یہ تجاویز ان کی اظہار رائے کی آزادی پر حملہ ہے۔

انڈیا میں کسی بھی فلم کی تب تک نمائش نہیں کی جا سکتی جب تک اسے ممبئی میں موجود سینسر بورڈ سےسرٹیفکیٹ نہ مل جائے۔ متعلقہ بورڈ کے دفاتر دیگر علاقوں میں بھی موجود ہیں۔

https://twitter.com/VishalBhardwaj/status/1408392765860241417?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1408392765860241417%7Ctwgr%5E%7Ctwcon%5Es1_&ref_url=https%3A%2F%2Findianexpress.com%2Farticle%2Fentertainment%2Fbollywood%2Ffarhan-akhtar-anurag-kashyap-zoya-akhtar-sign-petition-against-govts-proposed-changes-to-cinematograph-act-another-blow-to-film-fraternity-7380031%2F


انڈیا میں فلم بنانے والوں نے دہائیوں تک سینسر شپ کے خلاف جنگ لڑی ہے۔ ہر آنے والی حکومت، مذہبی کمیونٹی اور دائیں بازوں کے حامی گروپس کو کئی فلموں سے مسئلے رہے ہیں۔

فلموں پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے اور انھیں فیسٹیولز اور تھیئٹرز سے نکالا جاتا ہے۔ اکثر ڈائریکٹرز کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ضروری کٹوتیاں کریں اور نظر ثانی کریں۔

یہ بھی پڑھیئے

اداکارہ وانی کپور کی بکنی ٹرولز کے نشانے پر

انڈین سینسر بورڈ کا ’پدماوتی‘ کو گرین سگنل

ہم جنس پرست لڑکیوں کی کہانی سینسر سے کیسے بچی رہی

‘لپ سٹک انڈر مائی برقع’ کو انڈیا میں ریلیز کی اجازت مل گئی

اس کی وجوہات مبینہ طور پر توہین آمیز گانوں سے لے کر جنسیت یا جنسی طور پر ہیجان انگیز مناظر اور تاریخی یا افسانوی شخصیات کو متنازع انداز میں دکھانا ہے۔

فلم سازوں کو ڈر ہے کہ نریندر مودی کی سربراہی والی بی جے پی حکومت کے تجویز کردہ نئے قوانین اس عمل کو اب مزید مشکل بنا دیں گے۔

سینماٹوگراف (ترمیمی ) بل 2021 کے نام سے جانے جانے والے تجویز کردہ بل میں موجود نئے اصول وفاقی حکومت کو چند مخصوص قسم کے ’نظر ثانی‘ کے اختیارات دیں گے۔ جس کا مطلب ہو گا کہ حکومت کسی بھی فلم کو دی جانے والی اجازت کو اسے دیکھنے والوں کی شکایت پر روک سکتی ہے چاہے اس کے مواد میں سینسر بورڈ کو کوئی مسئلہ نہ ہو۔

اس تجویز کردہ بل میں ایسی شقیں بھی ہیں جن میں جیل اور جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس بل میں فلموں کی عمر کے لحاظ سے درجہ بندی کو بھی متعارف کروایا گیا ہے۔

رواں ہفتے کے آغاز پر ملک کے بڑے اداکاروں اور فلم سازوں نے حکومت کو ایک خط لکھا تھا جس میں ان شقوں کی مخالفت کی گئی تھی۔

حکومت کو ارسال کیے گئے اس خط پر 140 افراد نے دستخط کیے ہیں جن میں اداکارہ شبانہ اعظمی، فرحان اختر، نندتا داس اور فلم ساز انوراگ کشیپ شامل ہیں۔

https://twitter.com/ikamalhaasan/status/1409538774195867648?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1409538774195867648%7Ctwgr%5E%7Ctwcon%5Es1_&ref_url=https%3A%2F%2Findianexpress.com%2Farticle%2Fentertainment%2Fbollywood%2Ffarhan-akhtar-anurag-kashyap-zoya-akhtar-sign-petition-against-govts-proposed-changes-to-cinematograph-act-another-blow-to-film-fraternity-7380031%2F


ان کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلیاں سینسر شپ کی ایک نئی تہہ بن کر آئیں گی اور وہ موجود عمل سے آگے تک جائیں گی۔

دستخط کنندگان کا کہنا ہے کہ ’اس سے ریاست فلم سازوں کو بے اختیار کر دے گی۔ کیونکہ وہ دھمکیوں، نقصان پہنچنے اور ہجوم کی سینسر شپ اور توڑ پھوڑ کے خطرے میں ہوں گے۔‘

لیکن دوسری جانب شیام بینیگل کا، جو کہ انڈیا کے معروف ڈائریکٹر ہیں، کہنا ہے کہ یہ تجویز شدہ قوانین ’ٹھیک ہیں اور ان میں بڑے مسائل نہیں ہیں۔‘

انڈین اخبار ہندوستان ٹائمز کو دیے گئے انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ’اگر فلم کو سرٹیفکیٹ دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ہمیشہ کے لیے ہے ۔۔۔۔ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ایک وقت (ماضی) میں جائز تھیں لیکن وہ شاید آج کے لیے درست نہ ہوں۔ اس لیے فلموں کا پھر سے جائزہ لینا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔‘

وزیراعظم مودی کی حکومت دائیں بازو کے حامی کارکنوں اور اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے الزام کی زد میں ہے کہ وہ اظہارِ رائے کی آزادی اور اور اختلاف رائے کو روکنے کے لیے سینسر شپ کر رہی ہے۔

حتیٰ کہ ’او ٹی ٹی‘ پلیٹ فارمز جیسے کہ نیٹ فلیکس اور ایمازون کو بھی حکام کی جانب سے مشکلات سامنا ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جنھوں نے ان کمپنیوں کے ایگزیکٹیوز کے خلاف پولیس میں شکایات بھی درج کروائی ہیں۔ حکومت نے نئے قوانین بھی متعارف کروائے ہیں اور سوشل میڈیا اور ٹینکالوجی کمپنیوں کو کہا ہے کہ اگر قانون نافذ کرنے والے اور آئینی ادارے کہیں تو پھر وہ اپنے مواد کو ہٹا دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp