لبرلزم اور سادہ لوح شہری


اگر آپ کسی مجھ جیسے سادہ لوح پاکستانی کے سامنے لبرلزم کا ذکر بھی کریں تو ذہن میں فوراً یہ شبیہ آتی ہے کہ یہ تو وہ لوگ ہیں جو مادر پدر آزاد ہیں، جنھیں ہر کارِ ممنوعہ سرانجام دینے کی آزادی چاہیے، جنھیں معاشرے میں لواطت عام کرنی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اس کی سادہ سی وجہ میرے نزدیک یہ ہے کہ جن اشخاص نے لبرل ازم کو پاکستان میں متعارف کروایا وہ خود اس کی اصل تعریف، صنف اور معانی سے کوسوں دور تھے۔ انھوں نے کبھی سیاسیات کی رو سے لبرلزم کو سمجھنا تو درکنار کسی سو صفحات پر مشتمل کتاب سے اسے پڑھا بھی نہ ہوگا۔ جو لوگ مملکت خدادا میں خود کو لبرل کہلواتے اور ظاہر کرتے ہیں وہ عموماً اشرافیہ سے ہوتے ہیں اور ان کا رہن سہن مغرب سے بھی زیادہ مغرب زدہ ہوتا ہے گویا ” شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہیں یہ لوگ”، جس کا سیدھا اثر عام شہری کے تحت الشعور پر پڑتا ہے اور وہ یہ ماننے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہی رہن سہن درحقیقت لبرل ازم ہے۔

یہی وجہ ہے کہ لبرلزم کو لے کر لوگ ابہام کا شکار رہتے ہیں اور گردانتے ہیں کہ مغرب زدہ، مغرب زادہ اور مادرپدر آزاد ہونا لبرلزم ہے جو حقیقت کے مکمل برعکس ہے۔

لبرل کا لفظ ماخوذ ہے لبرٹی سے جس کے سادہ سے معنی آزادی کے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں لوگ بڑی آسانی سے لبرلزم، سوشلزم، سیکولرزم اور دیگر نظریات کو گڈ مڈ کرکے خود بھی ابہام پالتے ہیں اور اردگرد کے لوگوں کو بھی اس میں مبتلا کردیتے ہیں۔ لبرلزم دراصل وکیل ہے شخصی آزادی کا لیکن سوال یہاں بجا ہے کہ آخر کونسی آزادی، کس کی آزادی؟ کیا بطورِ مجموعی سماج کو آزاد ہونا چاہیے؟ اس کا جواب نفی میں ہے ۔ لبرل فلسفہ یہ کہتا ہے کہ ایک ایسا سماج ترتیب دیا جائے جس کے اندر رہتے ہوئے ہر شخص کے پاس حتی الامکان آزادی اور اختیارات ہوں۔ ہر شخص اپنے فیصلے خود کرے اور ریاستی و غیر ریاستی عناصر اس میں بالکل مداخلت نہ کریں۔

اس لیے ہم لوگ جو تھوڑی بہت سیاسیات کی شدبد رکھتے ہیں کہتے ہیں کہ لبرلز شخصی آزادی یا انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں اور اس میں قطعاً کچھ غلط نہیں۔۔ ہاں اس میں یہ گنجائش بھی موجود ہے کہ آپ بطورِ اسلامی ریاست (اگر واقعتاً ہیں) اس میں کچھ رد و بدل کرسکتے ہیں اور اپنے تئیں اسے ڈھال بھی سکتے ہیں۔

کسی بھی معاشرے میں فرد بہت سے فیصلے لینا چاہتا ہے مثلاً حکومت کس جماعت کی ہوگی؟ میرا جیون ساتھی کون ہو گا؟ لباس کس قسم کا پہننا چاہیے؟ معاشی نظام کس فلسفہ کے تحت ہو؟ خارجہ پالیسی کس طرح تشکیل دی جائے وغیرہ. ایسے بیسیوں سوالات ہیں جن کے جوابات بطورِ سماج ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔ مگر لبرلزم یہ مانتا ہے کہ جس حد تک ممکن ہو سوالات کے جوابات افراد کے اختیار میں دے دیے جائیں۔۔۔ اس میں معاشرہ، سماج یا ریاست کی دخل اندازی ہر گز نہ ہو۔ گویا ریاستی ڈھانچہ ایسا ہو جو کم سے کم چیزوں کو اپنے اثر و رسوخ میں رکھے۔ آسان الفاظ میں یہی سب لبرلزم ہے، اب اگر کوئی فحش یا عریاں ہے وہ اپنی ذات تک ہے اس کے اس عمل پر لبرلزم نے کبھی زور نہیں دیا۔ بعض لبرل معاشروں میں بھی لواطت، فحاشی و عریانی کو بہت برا گردانا جاتا ہے۔ لبرلزم کا مقصد انفرادیت کو زیادہ سے زیادہ بڑھاوا دینے کا ہے اور اس مقصد تک پہنچنے کیلئے اس فلسفہ نے کچھ بنیادی اصول متعین کیے ہیں ۔ جیسے کہ حکومت جمہوری ہو، عوام اپنے نمائندے خود منتخب کرے اور انسان قوانین کے دائرہ کے اندر آزاد ہو۔

ہمارے محبوب بانی قائداعظم محمد علی جناح رح کا بھی نظریہ کافی حد تک لبرل تھا۔ آپ 11 اگست 1947ء والی تقریر میں قانون ساز اسمبلی کے سامنے وہی سب باتیں کرتے ہیں جو لبرل فلسفہ پر مکمل اترتی ہیں ۔ اس کے علاوہ فاطمہ جناح رح اپنی کتاب “مائی برادر” میں لکھتی ہیں:

میں نے جب قائدِ اعظم سے پاکستان کے آئین کے متعلق پوچھا تو انھوں نے جواب دیا

“پاکستان کا نیا آئین لبرل ہوگا, اور اس میں پاکستان کے عوام کی بنیادی آزادیوں کی ضمانت دی گئی ہوگی۔ یہ ایک ایسا آئین ہوگا جو ایک آزاد ملک کے آزاد عوام کے شایانِ شان ہوگا”

اگر آج کا ایک عام پاکستانی صرف لفظِ لبرلزم کی وجہ سے لبرل شخص کو فحش، مادرپدر آزاد اور کردار سے عاری تصور کرتا ہے تو اسے اپنے بانی کو بھی اسی پیمانے پر ناپنا ہوگا۔ یا پھر خود سے یہ سوال کرنا ہوگا کہ کیا واقعی لبرلزم وہ ہے جو ہم عرفِ عام میں سمجھتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments