افغان طالبان کو لگے طاقت کے انجکشن اور پاکستان کی مشکلات


بچپن میں جو کارٹون ہمیں بہت پسند تھے ان میں ایک کا ایک کیریکٹر پاپائے دی سیلر تھا جس کے منہ میں ہر وقت سگار ہوتا تھا اور وہ ہر قسط میں اپنی منگیتر کو خود سے چار پانچ گنا بڑے رقیب سند باد دی سیلر سے بچاتا پھرتا تھا یہ رقیب یوں تو ساری قسط کے دوران پاپائے دی سیلر کو بری طرح مارتا پیٹتا تھا لیکن پھر ہر قسط کے آخر میں کمزور پاپائے کو اس کی من پسند خوراک اور طاقت کا خزانہ جو ایک ڈبے میں بند پالک کا ساگ ہوا کرتا تھا اچانک ہاتھ لگتا تھا جس کے کھاتے ہی اس میں دیوتاؤں کی قوت آجاتی تھی اور وہ اپنے سے بڑے رقیب کو دھو کے رکھ لیتا تھا۔

پتہ نہیں کیوں جب سے رواں سال کے مئی کا مہینہ شروع ہوا ہے اور امریکہ سرکار اپنے اتحادیوں سمیت افغانستان سے نکلنے چل پڑا ہے یہ کارٹون یاد آ رہا ہے۔ ہمارے شہر پشاور میں ہر محفل میں اور بار بار یہ سوال زیربحث آ رہا ہے کہ امریکہ کے انخلا کے اعلان اور اس پر عمل درآمد شروع ہونے کے بعد اچانک طالبان نے حملے کیوں تیز کر دیے اور افغان فورسز بغیر کسی مزاحمت کے کیوں طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال رہی ہیں حالانکہ خود افغان حکومت اور فورسز نے کچھ عرصہ قبل یہ دعوی کیا تھا کہ امریکی انخلا کی صورت میں وہ افغانستان کی حفاظت کر سکتے ہیں اور اگر طالبان کے ساتھ امریکہ نے معاہدہ کر بھی لیا ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

یہ مباحث جاری ہیں کہ اچانک ہماری نظر افغانستان میں طالبان کو طاقت فراہم کرنے والی اس پالک ساگ کے ڈبے پر پڑ گئی۔ طالبان کو یہ انرجی ڈرنک یا پاپائے دی سیلر کا یہ ساگ کا ڈبہ وہ معاہدہ ہے جو امریکہ نے اپنے مفادات کو محفوظ بنانے کے لئے افغان طالبان کے ساتھ کیا اور اسی معاہدے کی رو سے وہ واپس جا رہا ہے اور اشارے مل رہے ہیں کہ اسے جانے کی اتنی جلدی ہے کہ وہ اپنی ہی مقرر کردہ ڈیڈلائن گیارہ ستمبر سے بہت پہلے چار جولائی جب امریکہ میں آزادی کا دن منایا جا رہا ہوگا تک افغانستان سے اپنے انخلا کا عمل مکمل کرچکا ہوگا، آسٹریلیا افغانستان میں اپنا سفارتخانہ تک بند کرچکا ہے امریکہ کے ساتھ افغانستان آنے والا جرمنی کا آخری فوجی بھی واپس جا چکا ہے اور باقی ممالک کے لوگ بھی واپس جا رہے ہیں۔

غیرمرئی قوت سے بھرپور ساگ کا یہ ڈبہ یعنی امریکہ کا طالبان کے ساتھ معاہدہ کیا کم تھا کہ افغان فورسز کی جانب سے ہتھیار ڈالنے نے جلتی پر تیل کا کام کیا افغانستان کے چار سو اکہتر میں سے اب تک ایک سو پینسٹھ کے قریب یا زائد اضلاع پر طالبان کے قبضے کے دعوے ہوچکے ہیں جن میں سب سے زیادہ خطرناک یا علامتی طور پر زیادہ پراثر قبضے کا وہ ویڈیو کلپ تھا جس میں چند طالبان پر مشتمل ایک گروہ افغان صوبہ لوگر میں موجودہ افغان صدر اشرف غنی کے آبا و اجداد کے گھر پر بھی افغان طالبان کا امارت اسلامی والا سفید جھنڈا لہراتے ہیں اور اسی کلپ میں اعلان کرتے ہیں کہ وہ بہت جلد ہی اشرف غنی کے نئے والے سرکاری گھر (یقیناً اشارہ قصر کابل کی طرف ہے ) پر بھی اسلامی امارت کا یہ سفید جھنڈا لہرا کر رہیں گے۔ افغانستان میں حالات خراب ہوتے ہی افغان صدر اشرف غنی امریکہ پہنچے ہیں جہاں پر انہوں نے امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کی ہے اور شاید انہیں حالات میں بہتری کی کوئی تسلی بھی دی جا چکی ہو؟

نائن الیون کے حملوں کے بعد دہشت گردی کے خاتمے کا عزم لے کر اپنے پچاس سے زائد اتحادی ممالک کے ساتھ افغانستان پر چڑھائی کرنے والے امریکہ کو کوئی پرواہ نہیں کہ وہ جا رہا ہے اور افغانستان اس کے آنے سے پہلے کے افغانستان سے بہت زیادہ غیر محفوظ ہو چکا ہے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خطے میں ایسے حالات اس کے مقاصد کی تکمیل کا حصہ ہوں۔ طالبان کے ساتھ معاہدہ کر کے اس نے اپنے مفادات کے تحفظ کی یقین دہانی تو لے لی ہے لیکن اس نے اپنے ہاتھوں سے تشکیل شدہ افغان حکومت اور یہاں پر سب کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے جو طالبان سے ایسے ہی پٹ رہے ہیں جیسے اس کارٹون میں پالک کا ساگ کھائے پاپائے دی سیلر سے اس کا دشمن سند باد دی سیلر پٹتا تھا۔

افغانستان کے ارد گرد بنتی کہانی میں امریکہ اور چین واضح نظر آرہے ہیں جن کی جنگ معیشت سے نکل کر تزویراتی میدان میں منتقل ہو گئی ہے اور دونوں طرف کے بیانات اس بات کا ثبوت ہیں کہ مستقبل قریب میں دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوں گے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے آچکے ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ ان کے علاوہ افغانستان کے اندر وارلارڈز کے گروپوں کی دوبارہ تشکیل بھی واضح ثبوت ہے کہ افغانستان میں مستقبل قریب میں استحکام کی کوئی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔

افغانستان میں بدلتی صورتحال سے ایک بار پھر سب سے زیادہ پاکستان کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے اور پاکستان کے اقتدار کے ایوانوں اور پارلیمان تک میں نئی افغان صورتحال اور اس سے پاکستان کو بچانے کے معاملات زیربحث ہیں۔ کل ہی پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ اور دیگر فوجی حکام نے پارلیمان میں حکومتی اور اپوزیشن اراکین کو نئی بنتی صورتحال میں ملک کو درپیش چیلنجز سے آگاہ کیا ہے اور وہ لوگ جنہوں نے یہ باتیں سنی ہیں وہ زیادہ سنجیدہ اور پریشان لگ رہے ہیں۔

پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے بعد آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے بارے میں بھی یہ خبر رپورٹ ہوئی ہے کہ جب پارلیمان کی راہداریوں میں ان سے امریکہ کو اڈے دینے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بھی کم و بیش وہی جواب دیا جو وزیراعظم دے چکے تھے۔

افغانستان کے ساتھ لگی پاکستانی سرحد یعنی ڈیورنڈ لائن پر خاردار تار لگانے کا جو عمل پانچ سال سے جاری تھا اس کے بارے میں اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ پاکستان نے یہ کام افغانستان سے امریکی انخلا کے وقت بننے والی صورتحال سے محفوظ رہنے کے لئے کیا تھا اور پارلیمان کو فوجی قیادت کی بریفنگ کے دوران اس بات کے اعادے نے صورتحال واضح کردی ہے کہ اگر افغانستان میں خانہ جنگی کے بعد پانچ سے سات لاکھ نئے مہاجرین پاکستان کا رخ کرتے ہیں تو انہیں شہروں میں آنے دینے کی بجائے سرحدی علاقوں میں ہی رکھا جائے گا۔

پاکستان سے افغان طالبان کو نکیل ڈالنے کی امیدیں رکھنے والوں کو پہلے تو یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ جب امریکہ کی موجودگی میں ایک فعال افغان حکومت اور اس کی فورسز طالبان کو قابو نہ کرسکے تو یہ کام وہ پاکستان کیسے کر سکتا ہے جس کے سامنے اس وقت پہلے سے زیادہ مضبوط اور امریکہ کے ساتھ معاہدے کے بعد قانونی شکل رکھنے والے طالبان کھڑے ہیں جس پر اگر پاکستان کی جانب سے دباو ڈالا جاتا ہے تو وہ اپنے ہاں موجود تحریک طالبان پاکستان کو بھی پاکستان کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں اور اگر پاکستان افغان حکومت کی مدد نہیں کرتا تو وہ افغانستان میں موجود بلوچ علیحدگی پسندوں سمیت ان تمام عناصر کو کام میں لا سکتے ہیں جو کسی بھی طرح پاکستان کے اندر صورتحال کو خراب کر سکتے ہیں او ر پارلیمان میں فوجی قیادت کی بریفنگ کے وقت کوئٹہ میں ہونے والے دھماکے کو بھی اسی تناظر میں لیا جاسکتا ہے۔ اس لئے یہ کہنا کہ پاکستان پہلے ہی کی طرح افغان طالبان پر اسی طرح اثر و رسوخ رکھتا ہے جیسا کبھی تھا تو یہ بالکل غیرمناسب ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments