تیزاب گردی اور پاکستان کا سافٹ امیج


تھرڈ ائر میڈیکل میں تمام میڈیکل سٹوڈنٹ کو میڈیسن کے وارڈ میں جانا ہوتا ہے پڑھنے کے لیے سرکاری ہسپتال میں پہلا دن تمام سٹوڈنٹ پر بھاری گزرتا ہے کیونکہ اس میں ملک کے محکمہ صحت کا حال آپ کے سامنے ہوتا ہے اور اس طرح جب میری باری آئی عجیب پریشانی کا عالم تھا نرس نے مجھے جس مریض کے سر پر کھڑا کیا وہ ایک نوجوان خاتون تھی جو انتہائی بے چینی کے عالم میں تھی اور جب میں نے ہسٹری لینا شروع کی تو پتہ چلا کہ اس نے خاوند کی دوسری شادی کا سن کر بلیچ پی کر خودکشی کی کوشش کی خدا بہتر جانتا ہے کہ خود پیا تھا یا پلایا گیا تھا کیونکہ وہ بے چاری ہاتھوں کے اشارے سے اس بات سے انکار کرتی تھی۔

یہ سن کر میری عجیب حالت تھی ہیڈ نرس نے مجھے دیکھا تو بولیں کہ بچے اگر آپ نے کبھی تیزاب کا پیشنٹ دیکھ لیا تو آپ تو اس کے ساتھ رونا شروع کر دیں گی شکر ہوا کہ میں نے صرف اس بارے میں سنیئرز سے سنا دیکھا نہیں ورنہ میں دوسروں کی تکلیف میں رونے میں کبھی ان کو مایوس نہ کرتی کیونکہ میرے لیے یہ انسان ہونے کی علامت ہے۔ پاکستان میں 90 کی دہائی میں تیزاب پھینکنے کے واقعات بہت زیادہ ہو گئے تھے اور جو بھی اس کے وقت کے اخباروں کا مطالعہ کرتا رہا ہو اس کے علم میں ہو گا کہ

اداکارہ عندلیب انتہائی خوبصورت اداکارہ تھیں اور ان کے اوپر تیزاب پھینک کر ان کی زندگی کو معذور اور کیریر کو ختم کر دیا گیا اسی وقت میں فاخرہ یونس کا کیس دل دہلا دینے والا تھا جس میں ان کے شوہر بلال کھر پر اس کا الزام تھا اگرچہ وہ اس سے بری ہو گئے لیکن تہمینہ کھر نے ان کی مدد کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور بھرپور مخالفت اور مشکلات کے باوجود ان کو علاج کے لیے اٹلی بجھوایا وہ دس سال 2002 سے 2012 تک 39 سرجری سے گزریں اور پاکستان کی پہلی آسکر انعام یافتہ فلم کی انسپائریشن بنیں۔

لیکن اسی فلم کے ریلیز ہونے سے ایک مہینہ پہلے قانون اور اپنی زندگی کی تلخیوں سے تنگ آ کر خودکشی کر لی۔ یہ ایک انتہائی تکلیف دہ لمحہ تھا ان سب انسانی حقوق کے کارکنوں کے لیے جنہوں نے اس کیس پر سخت محنت کی تھی لیکن جس طریقے سے انسانی حقوق کے کمیشن، انسانی حقوق کے کارکنوں اور این جی اوز نے جو کام کیا وہ قابل قدر ہے ان حملوں میں 50 فیصد کمی دیکھی گئی جو پاکستان کے لیے قابل فخر لمحہ ہے یہ ہے پاکستان کا سافٹ امیج جو شلوار قمیض پہن لینے سے صرف نہیں بن سکتا۔

پاکستان میں دو جنہوں نہ صرف تیزاب گردی کی شکار خواتین کی علاج میں معاونت کی بلکہ ان کی قانونی معاونت کی اور ان کو زندگی کے دھارے میں شامل ہونے کا موقع فراہم کیا اس میں سمائل آگین اور ایسڈ سروائر فاونڈیشن شامل ہیں ان کے مطابق 2007 سے 2018 تک 1485 کیس رپورٹ ہوئے جبکہ 2018 میں 80 کیس رپورٹ ہوئے لیکن ساتھ ہی اس بات کی طرف دھیان دلایا گیا کہ کیونکہ بہت سارے کیسوں میں تیزاب کو اکثر سسرال میں خواتین کو جلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور وہ انتہائی غریب گھروں سے تعلق رکھتی ہیں تو یہ تو ان کو اس وقت کمرہ میں بند رکھا جاتا ہے جب تک وہ اس تکلیف سے دم نہیں توڑ دیتی یا ان کے ماں باپ کو ڈرا کے معاملہ رفع دفع کیا جاتا ہے کیونکہ دیکھا گیا کہ ان کیسوں میں ملزمان کو سزا ملنے کا تناسب 2016 سے 2018 میں آدھا ہو گیا 64 فیصد سے 38 فیصد جو کہ ایک خطرناک اشارہ ہے۔

اس میں ملزمان یا تو اس جرم کا شکار ہونے والے پر ہی اس کا الزام یہ کہ کر ڈال دیتے ہیں کہ اس کی ذہنی حالت خراب ہے یا اس کا کوئی ثبوت نہیں اس کے حل کے لیے انسانی حقوق کی تنظیموں نے بہتر اور موثر قانون سازی کے لیے حکومت پر دباو ڈالا ہے اس بھیانک جرم کی سزا پانچ سال سے بڑھا کہ چودہ سال کر دی گئی ہے اور اس کو انسداد دہشتگردی کی عدالتوں کے حوالے کیا گیا ہے اس کے علاوہ 2018 میں قومی اسمبلی میں بل پیش کیا گیا تھا کہ اس جرم کا شکار ہونے والوں کو نہ صرف مالی امداد فراہم کی جائے گی بلکہ حکومت ان کے مفت علاج کے لیے ذمہ دار ہوگی۔

اس سب کے باوجود یہ بل اگر قانون بن جائے اور سزا عمرقید میں بدل جائے اور ساتھ ہی انصاف کے نظام کو تیز بنایا جائے تو اس کا شکار ہونے والے افراد کی زندگی کو آسان بنایا جاسکتا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں غربت، معاشرتی نا انصافی، اور جہالت نے خواتین کی زندگی عذاب کی ہوئی ہے اس میں کسی بھی خاندان کے لیے اس بھیانک جرم کا شکار ہونے والے فرد کا علاج کرانا اور ساتھ میں انصاف دلانا ممکن نہیں رہتا اگرچہ سمائل آگین نے اس کا شکار خواتین کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کیے ہیں لیکن وہ خواتین جو زیادہ جل جاتی ہیں یا جن کے سسرال والے ان کو کمرے میں بند رکھتے ہیں ان کے لیے زندگی میں واپسی ممکن نہیں رہتی اور آخری امید انصاف کا دروازہ ہوتا ہے جہاں سے مایوسی ان کو خودکشی کی طرف دھکیل دیتی ہے۔

اس لیے آخری امید حکومت ہے کہ وہ ان قوانین میں سختی لا کہ اور علاج کی بہتر سہولیات مہیا کر کے اس کا شکار ہونے والے افراد کی زندگی میں آسانی پیدا کرے گی۔ اس مضمون کو لکھتے ہوئے میں جس تکلف سے گزری ہوں اگر ڈی جی رینجرز سندھ اس تکلف کو اور اس اذیت کو جس سے اس کا شکار ہونے والے افراد گزارتے ہیں محسوس کرتے تو وہ اس جرم پر بننے والی فلم پر تنقید نہ کرتے۔ سافٹ امیج اپنے حقائق کو قالین کے نیچے چھپانے سے نہیں بلکہ غلط کو درست کرنے سے بنتا ہے اور حکومت ایسے وسائل رکھتی ہے کہ وہ ان افراد کے طبی علاج کے لیے بہترین سہولیات فراہم کر سکتی ہے اور انصاف کے نظام کو بہتر کر سکتی ہے تو یہ ایک انتہائی انسان دوست اقدام ہو گا اور وہ سب لوگ جو اس کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں اور بہتری کے لیے کام کر رہے ہیں وہ پاکستان کا امیج خراب نہیں سنوار رہے ہیں اور ہماری تنقید نہیں تعریف کے مستحق ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments