جامع اعتدال پسند خوشحال معاشرے کی تعمیر


دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کی جانب سے باضابطہ طور پر ایک جامع خوشحال معاشرے کی تعمیر میں تاریخی کامیابی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ یہ اعلان ملک میں برسراقتدار جماعت کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے قیام کی 100 ویں سالگرہ کے موقع پر کیا گیا۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو 19 ویں صدی کے اوائل میں ”اوپیم وار“ کے بعد چین اپنا وقار، قانونی حیثیت، خودمختاری اور یہاں تک کہ دنیا میں اپنی پہچان کھو چکا تھا۔ اس وقت چین افراتفری کا شکار تھا۔

ایسے میں سی پی سی نے چین کو اپنے قدموں پر دوبارہ کھڑا کرنے اور شکست خوردہ قوم کو یکجا کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ سن 1921 میں صرف پچاس ارکان کے ساتھ پارٹی کی بنیاد ڈالی گئی اور آج یہ تعداد 95 ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔ ایسے میں یہ سوالات ضرور ذہن میں آتے ہیں کہ سی پی سی نے ایسے کیا کرشمہ دکھایا کہ آج دنیا چین کی انتہائی تیزرفتار ترقی کی معترف ہے، عالمی و علاقائی امور سے لے کر معیشت، سائنس، ٹیکنالوجی، تعلیم، طب، اسپیس، زراعت، دفاع غرض کہ زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو، چین دنیا میں سرفہرست ہے۔

چین جو چند عشروں قبل نسبتاً ایک غریب ملک تھا آج اس کی مجموعی جی ڈی پی 100 ٹریلین یوآن (تقریباً 15 ٹریلین ڈالرز) سے تجاوز کر چکی ہے، چین اس اعتبار سے آج ایک ترقی پذیر ملک کی حیثیت سے دنیا کی دوسری بڑی معاشی قوت ہے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی کو یہ سہرا بھی جاتا ہے اس نے 2020 کے آخر تک ملک سے مطلق غربت کے خاتمے میں بھی فتح سمیٹی ہے جسے دنیا انسداد غربت کی عالمی تاریخ میں ایک معجزہ قرار دیتی ہے۔ اس کے بعد چین کی اگلی منزل ایک جدید سوشلسٹ ملک کی جامع تعمیر ہے۔

1921 میں جب سی پی سی کی بنیاد رکھی گئی تو اس وقت چین کو داخلی اور خارجی دونوں اعتبار سے بحرانوں کا سامنا تھا۔ چین کی معیشت بھی انتہائی کمزور تھی۔ ملک کی 80 فیصد آبادی بھوک سے دوچار تھی۔ اس وقت چینی شہریوں کی اوسط متوقع عمر 35 سال تھی جبکہ سال 2019 میں یہ اوسط 77 سال تک پہنچ چکی ہے۔ 1952 میں فی کس جی ڈی پی تقریباً 70 ڈالر تھی جو گزشتہ برس 2020 میں 10,000 ڈالرز سے تجاوز کر چکی ہے جس سے چینی سماج میں رونما ہونے والی زبردست تبدیلیوں کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اصلاحات اور کھلے پن کے 40 سالوں کے دوران ملک میں 850 ملین سے زائد افراد کو غربت سے نکالا گیا ہے، اس طرح چین کا عالمی سطح پر انسداد غربت کی کوششوں میں تناسب 70 فیصد سے زیادہ ہے۔ ملکی سطح پر غربت کے خاتمے کے پروگرام نے چین میں امیر اور غریب کے مابین فرق کو نمایاں طور پر کم کر دیا ہے۔

ایک جامع اعتدال پسند خوشحال معاشرے کی تعمیر کے راستے پر چین نے اپنے نظام اور منفرد پالیسی سازی سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ حکومت نے ترقی کو فروغ دینے کے لئے انفراسٹرکچر، صنعتی ترقی، تعلیم، صحت اور ماحولیاتی تحفظ جیسے شعبہ جات میں ترجیحی منصوبے اپنائے۔ مثال کے طور پر چین نے ملک کے تعلیمی نظام میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی جس سے اعلیٰ تعلیم کے اندراج کی شرح 2010 میں 26.5 فیصد سے بڑھ کر 2019 میں 51.6 فیصد ہو چکی ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ چین بھر میں نو سالہ لازمی تعلیم بھی بالکل مفت ہے۔ اسی طرح چین کا بنیادی میڈیکل انشورنس نظام اس وقت 1.3 بلین سے زیادہ افراد پر محیط ہے، بنیادی پنشن انشورنس تقریباً 01 بلین افراد کا احاطہ کرتی ہے۔

چین کی اس معجزاتی ترقی سے جہاں چینی شہریوں کے معیار زندگی میں نمایاں بہتری آئی ہے وہاں گزشتہ چار دہائیوں کے دوران ملٹی نیشنل کمپنیوں نے بھی چین کی بڑی منڈی میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری سے ثمرات حاصل کیے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول کے باعث نہ صرف چین کی معاشی ترقی کو فروغ ملا بلکہ ملک میں بے پناہ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوئے ہیں۔

حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایک صدی قبل سی پی سی کے قیام کا واحد مقصد ”قوم کو بچانا“ تھا۔ اس مقصد کی خاطر ایک ایسی تحریک وجود میں آئی جس نے چین کو ایسی مضبوط قوت میں ڈھال دیا ہے جو صدیوں سے چینی عوام کا خواب تھا۔ موجودہ پیچیدہ بین الاقوامی صورتحال میں دنیا کی امیدیں بھی چین سے وابستہ ہیں کہ وہ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی قیادت میں عالمی سطح پر مزید پرامن، دوستانہ اور ہمدردانہ رویے سے اپنے نرم تشخص کو آگے بڑھاتے ہوئے عالمگیر مسائل کے حل میں مزید قائدانہ کردار ادا کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments