ظفر صمدانی: ایک با کمال شخصیت  (آئی اے رحمان کی تحریر)


دوسری یا تیسری بار گھنٹی بجانے کے بعد امید بندھی کہ گھر میں رہنے والے کسی فرد سے ملاقات ہو ہی جائے گی اور ممکن ہے مکان میں داخلے کی اجازت بھی مل جائے، وہ یوں کہ ایک نوجوان گیٹ کی طرف آتا نظر آیا۔ وہ سفید قمیص شلوار پہنے ہوئے تھا جو کھاتے پیتے لاہوریوں کا شب خوابی کا لباس ہوتا تھا، گریبان کھلا ہوا، سر پر بال بڑے سلیقے سے بکھرائے ہوئے اور ہاتھ میں آدھی کھلی کتاب لیے۔ لیکن ایک ادا جو اس وقت ناگوار گزری وہ یہ کہ موصوف چیونٹی کی رفتار سے چل رہے تھے، یعنی بالکل احساس نہیں تھا کہ ایک شریف آدمی کتنی دیر سے دروازے پر دستک کے جواب کا منتظر کھڑا تھا۔

ظفر صمدانی سے یہ میری پہلی ملاقات تھی اور سال تھا 1953۔ پنج محل روڈ پر میں اُن کے والد کے مکان پر اپنے والد کے دوست اور مجھ پر کرم کرنے والے کرنل علی اختر صاحب سے ملنے گیا تھا، جو فوج کی ملازمت سے آزاد ہو کر راولپنڈی سے لاہور آ گئے تھے اور صمدانی صاحب کے مکان کے پچھلے حصے میں مقیم تھے۔ صمدانی صاحب سے سلام کی حد تک واقفیت پہلے سے تھی، اکثر ان سے مال روڈ پر آمنا سامنا ہو جاتا تھا، جب وہ شام کو لارنس باغ میں سیر کر کے گھر کی طرف لوٹتے تھے۔

ظفر صمدانی سے پہلی ملاقات کا تاثر ساری عمر اس لیے قائم رہا کہ انہوں نے زندگی اپنی رفتار سے گزارنے کا فیصلہ نہیں بدلا اور عام لوگوں کی عادت کے برعکس ایک گونہ بیخودی ان کے مزاج کا حصہ بنی رہی۔

شاید پہلی ملاقات میں ہی یا کسی اور دن میں نے پوچھا کہ آپ کیا کرتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ وہ مجھے بتاتے کہ گورنمنٹ کالج میں تعلیم حاصل کر رہا ہوں، بولے ’میں ایک ناول لکھ رہا ہوں‘۔ ایک نوجوان سے ناول کا شوق سن کر ذرا تعجب نہیں ہوا، کیونکہ وہ زمانہ ہی ایسا تھا۔ ترقی پسند ادب کی تحریک نے ایک پوری نسل میں ادب کی تخلیق کا شوق بھر دیا تھا اور ترقی پسند مصنفین میں بہت سے مشہور ادیب نوجوان اگر نہیں تو جوان کہلانے کے ضرور مستحق تھے۔ یہ بات بھی اس لیے یاد رہی کہ ظفر صمدانی نے کئی کام شروع کیے اور چھوڑ دئیے لیکن ناول لکھنے کا شوق عمر بھر قائم رہا۔ کئی سال بعد مجھے کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میں ظفر صمدانی سے نہیں کسی ایسے شخص سے مخاطب ہوں جو ان کے ناول میں جگہ پانے کی کوشش کر رہا ہے۔

ظفر صمدانی

خاصے عرصے کے بعد خدا کا کرنا یہ ہوا کہ ظفر صمدانی پاکستان ٹائمز کی رپورٹنگ ٹیم میں شامل ہو گئے، جہاں میں کئی سال پہلے سے ملازم تھا۔ یہ واردات بھی دلچسپ ہے۔ پاکستان ٹائمز اس وقت ایک ادھیڑ عمر کی ناکتخدہ خاتون کی طرح تھا جسے شادی کے نام سے بھی خوف آتا ہو۔ اخبار کی رپورٹنگ ٹیم معتدل مزاج اور میانہ روی پر فخر کرنے والے ماہرین پر مشتمل تھی۔ اخبار پر سرکار کے قبضے کے بعد عملے کے سب ہی اراکین قدامت پسندی کو ذریعہ بقا ماننے لگے تھے، اچانک چار نئے لکھنے والے اپنی رائے کے اظہار کے حق کے قائل اور اونچی آواز میں قہقہہ لگانے والے رپورٹنگ روم میں آ دھمکے۔ خالد حسن، توحید احمد، جاوید اختر اور ظفر صمدانی۔ خالد حسن تو کسی حد تک اخبار کا رنگ قبول کر کے اور کسی حد تک اخبار کے کالموں میں اپنا رنگ گھولنے میں کامیاب ہو کر ٹک گئے۔ لیکن باقی تینوں پرندے اِدھر اُدھر پرواز کر گئے۔ توحید فارن سروس میں چلے گئے، جاوید اختر انفارمیشن سروس میں، اور صمدانی کو پی ٹی وی نے اُچک لیا۔

شاید اسی زمانے میں ظفر صمدانی کو میں نے شاہ جی کہنا شروع کر دیا تھا۔ میری قبیلہ ہائے صمدانی و یزدانی میں رسائی پنجاب مسلم لیگ کے معتبر راہ نما سید خلیل الرحمن کے ذریعے ہوئی تھی اور سید ان کے نام کا اٹوٹ حصہ تھا، تو میں نے ظفر کو بھی شاہ کا خطاب دینا مناسب جانا۔ اُسی زمانے میں ظفر ایک بڑے ٹریفک حادثے کا شکار ہو گئے (گویا چھوٹے حادثے سے تسلی ممکن نہ تھی)۔ رات کے وقت دیکھا کہ میو ہسپتال کے وارڈ میں شاہ جی کمبل میں لپٹے ہوئے پڑے ہیں۔ دونوں ٹانگوں میں شدید چوٹ آئی تھی اور بھاری مقدار میں خواب آور دوا دی گئی ہے تا کہ تکلیف کا احساس نہ ہو۔ اس وقت تو چاچا چودھری کی رننگ کمنٹری سے اتنا ہی پتہ چلا کہ بس خیر ہو گئی، حادثہ بڑا سنگین تھا۔ اچھے ہو گئے لیکن خود ہی ہنس کر بتایا کہ باقی تو سب ٹھیک ہے، ایک ٹانگ دوسری سے چھوٹی ہو گئی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ شاہ جی نے ایک نرالی چال اختیار کرلی، اور ہمیں اندازہ ہوا کہ خواتین لارڈ بائرن کی چال پر کیوں فدا ہوئی تھیں۔

ٹی وی پر ظفر صمدانی نے اپنا ذہنی سفر تیزی سے طے کیا۔ وہ نیوزایڈیٹر تھے، مصلح الدین اُن کے نائب تھے۔ دونوں نے مل کر ٹی وی کی نیوز سروس کو پروان چڑھایا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے شاہ جی کا ایک بڑا کارنامہ سیاستدانوں کی اُن تقاریر کا اہتمام کرنا تھا جو ٹی وی نے 1970 کے الیکشن سے پہلے کرائی تھیں، لیکن وہ سلسلہ پورا ہونے سے پہلے ہی حکومت ٹی وی پر آزادانہ اظہار خیال سے بدک گئی۔ ظفر کسی بات پر ناراض ہو گئے اور ٹی وی کو برخواست کر دیا۔

پھر ایک دن انکشاف کیا، آج کل دستاویزی فلمیں بنا رہا ہوں۔ مگر اپنے اندازِ نرم خرامی کے ساتھ۔ دستاویزی فلم سازی اور سکرپٹ / کمنٹری لکھنے کے معاملات پر بات چیت خاصے عرصے چلی، اُن کی معلومات کے دوست و حریف سب ہی قائل تھے لیکن ظفر صمدانی کو اپنی جنس ہنر کو ارزاں قیمت پر فروخت کرنے کے مطلق خواہش نہیں تھی۔ ایک دن کسی دوست نے مشورہ دیا کہ ٹی وی میں واپس کیوں نہیں چلے جاتے۔ بولے ”MDکی جگہ آفر ہوئی تو سوچا جا سکتا ہے“۔ اُدھر رخ نہیں کیا، اخبار میں فلموں پر تبصرہ کرنا شروع کر دیا اور خاصی مقبولیت حاصل کی۔ اُن کے فلمسازوں سے مطالبات حقیقت پسندانہ ہوتے تھے۔ وہ ان سے ایسی فلم کی توقع ہی نہیں کرتے تھے جو وہ فلمساز بنا نہیں سکتے تھے، چنانچہ تقریباً سب ہی کامیاب فلم ساز شاہ جی کے مرید ہو گئے۔ایک اچھا دور ظفر صمدانی کی زندگی کا وہ تھا جب وہ فرینٹئر پوسٹ کے ایڈیٹر تھے۔ مشکلات تو بہت تھیں لیکن موصوف عزت سادات بچا لینے میں کامیاب رہے۔

ظفر صمدانی سے سیاست پر بہت کم بات ہوئی، نہ ہی انہوں نے مجھے اس قابل جانا کہ اپنے شعر سناتے، حالانکہ مجھے معلوم تھا کہ آمد ہوتی رہتی تھی۔ ایک دن میری ٹیبل ڈائری پر ایک شعر لکھ دیا۔ وہ شعر تو اس وقت ذہن میں نہیں آرہا لیکن مفہوم یہ تھا کہ لوگوں نے بڑی محنت سے ایک دیوار تیار کی اور پھر وہ لوگ اسی دیوار کے نیچے دب کر مر گئے۔ پی پی پی کے عروج و زوال پر یہ ایک نادر تبصرہ تھا جو شاہ جی چلتے چلتے صادر فرما گئے۔

ظفر صمدانی انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں روانی سے لکھتے تھے اور اپنی بات قاری کو سمجھانے کا سلیقہ اُن کو آتا تھا۔ ان کی تحریر آج بھی پڑھیے تو تازہ معلوم ہوتی ہے۔

شاہ جی گفتگو میں خوب چہکتے تھے اور کبھی کبھی چپکے سے ایک طنز بھرا جملہ لڑھکا دیتے تھے جس سے ان کی بالغ حسِ مزاح کا پتہ چلانا دشوار نہیں تھا۔ لیکن ستم دیکھئے کہ عمر کے آخری حصے میں ایسی بیماری نے جکڑا کہ بولنا مشکل اور تکلیف دہ ہو گیا۔ ظفر صمدانی سے زیادہ تکلیف سننے والے کو ہوتی تھی۔ ایسا کردار ظفر صمدانی نے اپنے کسی ناول کے لیے بھی نہیں سوچا ہو گا۔ جب میری اُن سے آخری بار فون پر بات ہوئی تو اُس طرف ہتھیار ڈالنے کے کوئی آثار نہیں تھے، اگرچہ میرا دل کہہ رہا تھا کہ ساز ہستی کے بے صدا ہو جانے کا وقت دور نہیں۔

ظفر صمدانی سے دوستی اچھی رہی، مزے کی رہی، اب زمانہ بدل گیا، پراگندہ طبع لوگ آنے بند ہو گئے، رہے نام اللہ کا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments