سکیورٹی امور سے ناواقف پارلیمانی رہنما


فوجی اور انٹیلی جنس سربراہوں نے سیاسی قائدین کو سکیورٹی چیلنجز پر بریف کیا ہے۔ بریفنگ دراصل پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی جماعتوں کو نئے سکیورٹی مسائل کی تعلیم دینے کا مرحلہ ہوتا ہے۔ جس طرح سیاستدان دفاعی امور کو اپنی تقاریر سے زیر بحث لاتے ہیں ان سے ان کی کم علمی کا تاثر ابھرتا ہے۔ لاکھوں ووٹ لینے والی جماعتیں عوام میں گہری جڑیں رکھتی ہیں لیکن حساس معاملات سے بے خبری انہیں قومی سطح کے بحرانوں میں غیر فعال رکھتی ہے۔ وہ اپنا نپا تلا موقف دینے سے قاصر رہتی ہیں یوں عوام ان پر اعتماد کا جو مظاہرہ کرتے ہیں وہ اگلے انتخابات تک ختم ہو جاتا ہے۔

صدر مملکت ’وزیر اعظم اور دیگر اہم انتظامی عہدیداروں کے سٹاف میں عسکری حکام شامل ہوتے ہیں۔ ان کا کردار حفاظت اور معاونت سے متعلق ہوتا ہے لیکن اس دوران وہ سیکھتے ہیں کہ سیاسی تنازعات کو کس طرح نمٹایا جاتا ہے‘ سیاستدان کس طرح مکالمہ کرتے ہیں ’عوام سے رابطہ کو کس طرح اپنی طاقت بنایا جاتا ہے اور سیاسی صلاحیت کو گورننس میں کیسے تبدیل کیا جاتا ہے۔

بعد ازاں یہ فوجی معاونین اپنے ساتھیوں اور جونیئرز کو اس سیکھے ہوئے کی تعلیم دیتے رہتے ہیں۔ سیاست دان ایسا نہیں کرتے اس لئے ان کی صلاحیت بتدریج کم سے کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ آخر یہ ہوتا ہے کہ وہ غیر مقبول ہو جاتے ہیں، انہیں اقتدار ملتا ہے لیکن وہ اداروں کے مابین تعلق مستحکم نہیں بنا پاتے۔ سیاسی میدان کی کوئی ڈی یا سنٹر ہاف نہیں ہوتا ’اس پر باؤلنگ کے لئے کوئی مقررہ مقام ہوتا ہے نہ چھکا لگانے کے اصول۔

سیاست ایک فری سٹائل عمل ہے۔ کھیل اس لئے نہیں کہوں گا کہ کھیل میں بسا اوقات غیر سنجیدگی کا عنصر شامل ہو جاتا ہے۔ ہمارے سامنے جو سیاستدان بطور رہنما کھڑے ہوئے ان کی رسمی تعلیم سوائے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے برائے نام رہی۔ مسلم لیگ نون کی قیادت پر سوال اٹھانے سے کالم کا موضوع بدل جائے گا اس لئے اس سوال کو صرف تعلیم کے ذریعے بین الاقوامی شعور تک محدود رکھا جائے۔ عمران خان نے دنیا کے اعلیٰ اداروں سے تعلیم حاصل کی۔

کھیل میں نمایاں ہونے کی وجہ سے انہیں موقع ملا کہ 18 برس کی عمر میں ملکہ الزبتھ سے ملاقات کی۔ عمران جب تک کھلاڑی رہے ان کی تعلیم ان کی ذاتی گرومنگ کی حد تک مددگار رہی۔ وہ دنیا کے بہترین سیاستدانوں ’کھلاڑیوں‘ موسیقاروں ’فلمی ستاروں‘ دانشوروں اور کتابوں سے اس وقت قریب ہوئے جب شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کا منصوبہ شروع کیا ’ان کا تجربہ‘ مشاہدہ اور سیاسی ذوق اس وقت ایک ہوا جب وہ سیاست میں آئے۔

عمران خان کی سیاست کا مقبول نعرہ بلا امتیاز احتساب رہا ہے۔ عام لوگ اور عام شہریوں جتنی معلومات رکھنے والے تجزیہ کار اب بھی ایسا سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں عمران خان اس وجہ سے کامیاب رہے ہیں کہ لوگ کرپشن سے بیزار ہیں اور عمران خان کرپشن کے خاتمہ کا وعدہ کر کے اقتدار میں آئے ہیں۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اپوزیشن رہنما جب نیب نیازی گٹھ جوڑ کا نعرہ لگاتی ہے تو وہ عمران کی شخصیت سے جڑے اسی پہلو کو اپنے انداز میں نمایاں کر رہے ہوتے ہیں جو عوام میں عمران خان کی مقبولیت کا سبب بنا۔

یقیناً یہ ایک پہلو ہے لیکن پوری حقیقت نہیں۔ عمران خان وہ پہلے سیاستدان ہیں جنہوں نے عوامی سطح پر قومی سکیورٹی سے متعلق احساسات کا ادراک کیا ’جنرل پرویز مشرف کے دور میں عمران خان نے امریکہ کو اڈے دینے کی مخالفت کی‘ نیٹو کنٹینروں کے لئے پاکستان کی زمینی راہداری اور فضائی حدود کے استعمال کی مخالفت کی۔ ایم ایم اے ’مسلم لیگ (ن و ق اور پیپلز پارٹی ان معاملات پر مخالفت بھلے نہ کرتیں لیکن قائدانہ سوچ سامنے ضرور لاتیں۔

ان تجربہ کار جماعتوں اور ان کی کہنہ مشق قیادت سے ایسا نہ ہو سکا۔ عمران خان نے مستقبل کے مواقع کاشت کرنے کے لئے بیج بو دیے۔ وقت گزرتا رہا اور یہ بیج کونپل بنے، پودے بنے، پیڑ ہوئے اور پھر ان کی ڈال ڈال نئے خیالات کے پھلوں سے لد گئی۔ عمران خان نے فاٹا کی تاریخ میں سب سے بڑی ریلی نکالی ’ڈرون حملوں کو روکنے اور نیٹو سپلائی بند کرنے کی اس تحریک نے سکیورٹی سیکٹر میں ان کے رابطے بہتر بنائے ساتھ ہی انہیں سکیورٹی فیصلوں کو سمجھنے کا موقع ملا۔

جنرل پرویز مشرف جب صدر تھے تو انہوں نے پارلیمنٹ کی رکنیت کے لئے گریجوایشن کی شرط عاید کی۔ کم تعلیم یافتہ الیکٹ ایبلز نے اس فیصلے کا مذاق بنایا۔ ان کی حامی لکھنے والے بھی ناخواندہ رہنماؤں کی دانش مندی کے ڈھول پیٹنے لگے۔ اسی زمانے میں جناب ایس ایم ظفر نے ایک یورپی ادارے کی مدد سے اراکین پارلیمنٹ کو سکیورٹی امور کی تربیت دینے کا پروگرام شروع کیا۔ سکیورٹی کیا ہوتی ہے ’اس کی بحرانی شکلیں کیا ہیں‘ تخفیف اسلحہ ’ایٹمی ٹیکنالوجی‘ دہشت گردی، سکیورٹی سے متعلق غیر فوجی عالمی تنظیمیں اور ادارے ’دفاعی بجٹ سے متعلق تفصیلات اس تربیت کا حصہ تھے‘ معلوم نہیں یہ تربیت کتنے اراکین پارلیمنٹ نے حاصل کی ’اگر حاصل کی تو اس کا استعمال کب اور کیسے کیا‘ لیکن بعد میں بننے والی جمہوری حکومتوں نے جب ان معاملات سے کوتاہی برتی تو دہشت گردی کے خلاف جنگ اور سکیورٹی مسائل میں گھرے پاکستان پر ایسے لوگ آ بیٹھے جنہیں ان معاملات سے دلچسپی نہیں تھی۔

عمران خان نے ساتھی سیاستدانوں کی اہم امور میں عدم دلچسپی کا فائدہ اٹھایا اور ریاستی موقف کے ترجمان بن گئے۔ حالیہ بجٹ اجلاس میں ان کی تقریر پر جمعیت علمائے اسلام کے اراکین نے داد دی۔ کیا یہ سکیورٹی امور سے واقفیت کا ثمر نہیں۔ سنجیدگی کا اندازہ لگائیں کہ اجلاس کی انتہائی خفیہ کارروائی سب رہنما باہر آ کر الگ الگ سنا رہے ہیں، پیٹ کے ہلکے چاہتے ہیں اپنی عظمت کے ترانے عام کریں۔ چلیں ہم بھی ان کو سلیوٹ کرتے ہیں کہ انہوں نے اس اہم اجلاس کو متنازع بنانے کی کوشش کی۔
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments