مفتی اور خلیل الرحمان قمر جیسوں کا کیا ہو گا


صاحب، بات کرنے سے پہلے قسم لے لیجیے جو کسی بھی ادبی، سیاسی، مذہبی اور سماجی گروہ سے ہمارا تعلق ہو اور ہم کسی ایک کے ایجنڈے پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے دوسروں کے بھڑکتے ہوئے جذبات پاؤں تلے روند رہے ہوں۔

مفتی نام سے خوش فہم ایک صاحب نے ہمیں بے وقوف عورت کے لقب سے نوازا ہے۔ ہم انہیں جانتے نہیں سو ہمیں حیرت بھی نہیں ہوئی بلکہ اپنی پیٹھ ٹھونکنے کو جی چاہا کہ ہم مرد ذات کے متشددانہ رویوں کے متعلق جو لکھتے ہیں وہ انہوں نے دو منٹ میں ثابت کر دیا۔ ایک انجان عورت پر فتویٰ جاری کرنے والا مرد ذاتی زندگی میں کیا کیا کرتا یا کر سکتا ہو گا، تصور کر لیجیے!

ایک اور بات جس نے حیران کیا کہ مفتی نامی ان صاحب کا تعلق ادیبوں اور دانشوروں سے بتایا جاتا ہے، اگر درست ہے تو پھر بھی زبان کا یہ برتاؤ اور یہ سوچ بنا کسی ہچکچاہٹ؟

بخدا اگر معاملہ محض مفتی کا ہوتا تو ہم قطعاً اپنے قلم کو یہ مضمون لکھنے کی تکلیف نہ دیتے کہ مفت یا مفتیوں سے ہمارا لینا دینا کس حساب میں؟

لیکن مناسب یوں سمجھا کہ یہ سوچ معاشرے میں پائے جانے والے بہت سے گروہوں اور دھڑوں کی عکاس ہے سو بہتر ہے کہ کچھ سوال اٹھا ہی دیے جائیں۔

بات کچھ یوں سمجھ میں آئی کہ شاید ادب سے تعلق انسان کے باطن کی ضمانت نہیں ہوا کرتا۔ یقیناً ہاتھی کے دانت والی کہانی ہو گی۔ لیکن اگر اسی مرحلے پہ اس ادب کی افادیت کے متعلق بھی سوال اٹھا لیا جائے تو کیا مضائقہ ہے جو کسی کے اندر بے ادبی کے جراثیم کو ختم نہیں کر سکتا اور کسی بھی ایسی سوچ پہ قدغن لگانے کا سوچتا ہے جو بنیادی دھارے سے مختلف ہو، ذہنی افق پہ منڈلاتی، آزاد، تتلی سی خوش رنگ، نئے آسمانوں اور اجنبی زمینوں کی ہڑک اپنی حیرت زدہ آنکھ میں سماتی ہوئی سوچ۔

آزادیٔ اظہار پہ یقین رکھنے والوں میں کچھ شاید اسے محض اپنی ذات تک محدود رکھنے پریقین رکھتے ہیں، یہ سوچتے ہوئے کہ یہ آزادی کسی اور کے پاس کیوں ہو؟ اور اختلاف کی صورت میں اپنی رائے صحت مندانہ طریقے سے پیش کرنے کی بجائے بے وقوف عورت کی چھڑی مارنا۔ واہ صاحب کیا ہی انداز دلبری ہے!

فیض صاحب کی نظم کو آفاقی قرار دیتے ہوئے ہم نے تسلیم کیا کہ اردو ادب میں درد کے موضوع پہ اس سے بہتر نظم نہیں لکھی گئی جس میں درد سے وابستہ انسانی جسم کی شکست و ریخت کی تمام کیفیات مجسم ہو کر سامنے آ گئیں اور ہر کسی نے اس درد کو اپنے اندر محسوس کرنے پہ مجبور پایا۔

ہم نے سوال اٹھایا کہ کیا انسانی جسم میں ہارٹ اٹیک کے علاوہ کوئی اور درد اتنا شدید نہیں ہوتا کہ اس کی بات کرنے کی کوشش کی جائے؟ یا عورت کے جسم سے جنم لینے والا درد اس قابل نہیں کہ اہل علم اور دانشور اس کو جاننا چاہیں؟ اب یہ تو محض اتفاق ہے نا کہ فیض صاحب کو ہارٹ اٹیک ہوا اور انہوں نے اس درد کو اپنے قلم کے سپرد کر دیا۔ یہی تو ایک سچے ادیب کی نشانی ہوا کرتی ہے کہ وہ زندگی کا نقاب ہٹا کر اس کی رونمائی کروائے۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اگر فیض میر صاحب کے سامنے یہ نظم رکھتے تو انہیں یہ موضوع قطعی نہ بھاتا اور وہ کہتے، اماں ہٹاؤ!

اسی لئے ہم نے اس معصومانہ خواہش کا اظہار استعارے کی شکل میں کیا کہ اگر فیض صاحب جیسا حساس اور طبقاتی نظام کے خلاف لکھنے والا شاعر اس درد کو محسوس کر سکتا تو کیا کچھ لکھتا؟ دست تہہ سنگ اور نقش فریادی میں کچھ تو ایسا ہوتا کہ ہم نم آنکھوں اور بے چین ہوتی دل کی دھڑکنوں کے ساتھ ان الفاظ کا تعویذ بنوا کر گلے میں ڈال لیتے۔

ہم نے اس مضمون میں بھی لکھا اور اب پھر کہے دیتے ہیں کہ سوچ کیسی بھی ہو، پاگل، جذباتی، انہونی، انوکھی، مختلف۔ وہ دل و دماغ میں دندناتی ہوئی آتی ہے اور مجبور کرتی ہے کہ اس کی آنکھ میں آنکھ ملا کر مکالمہ کیا جائے اور سوچیے تو آخر اس میں برائی کیا ہے؟

فیض صاحب کا نام ماہواری کے ساتھ لینے سے برافروختہ ہونے والے لوگوں کے متعلق ہم بے اختیار سوچ اٹھتے ہیں کہ کیا ان کے ادبی جذبات ہمارے قلم نے اس طرح مجروح کر دیے جیسے گستاخانہ خاکوں سے مذہبی جذبات میں تلاطم برپا ہوتا ہے؟

لیکن اگلا ہی سوال یہ ہے کہ کیا مذہب کی طرح ادب بھی حدود و قیود کا تعین کرنے پہ یقین رکھتا ہے؟
کیا زندگی کی ہر جہت کا جائزہ لینا اور اس کے متعلق سوال اٹھانے کو کسی دائرے میں مقید ہونا چاہیے؟

کیا کتاب اور حرف کی دنیا میں فرد کی پرستش اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ لوگ باگ محض ایک خیال پیش کرنے پہ زبان کھینچ لینے پہ یقین رکھنے لگیں؟

ہم یہ کیوں نہ سوچیں کہ وہ حرف کتنا وقت زندہ رہے گا جس کے ساتھ ڈر، زمانہ سازی، احتیاط، گروہ بندی، ذاتی مفادات، اور پسند ناپسند کے لاحقے وابستہ ہوں؟

وہ موضوعات کیسے عالمی سطح پہ پذیرائی حاصل کریں جو قدم پھونک پھونک کر ، چوکنے ہو کر، دائیں بائیں دیکھتے ہوئے اس احتیاط سے لکھے جائیں کہ کسی بھی پالیسی سے نہ ٹکرا جائیں؟

وہ قلم حیات جاودانی کیسے پائے جو زندگی کے ان حقائق کا ذکر نہ کرے جس سے دنیا کی پچاس فیصد آبادی کی زندگیاں منسلک ہوں؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ طبقاتی فرق کے مارے ہوؤں کی بھوک و افلاس کا ذکر تو ہر قلم پہ باآسانی اتر آتا ہے لیکن کیا ان کا مسئلہ صرف بھوک ہے؟

کیا وہ تحریر معمولی گنی جائے گی جو جھونپڑی میں رہنے والی بچی کی صحت، جسم سے وابستہ مسائل اور ان سے نبٹنے کے وسائل سے محرومی پہ بات کرے؟

عورت، اس کے جسم اور اس کی تکالیف کا احاطہ اگر ادیب خون جگر سے کرتا ہے تو منٹو بنتا ہے۔ جان لیجیے منٹو، منٹو نہیں رہے گا اگر ان کی تحریر سے عورت نکل جائے اور فیض، فیض نہیں رہیں گے اگر کچلے ہوؤں کے درد سے ان کی انگلیاں فگار نہ ہوں۔

عورت کی تکالیف اور اس کے نقطۂ نظر کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے سے منٹو رہتی دنیا تک امر ہو گئے۔ یہ عورت کا منٹو کو ہدیہ تبریک ہے، ویسی ہی عورت کا جسے اسد مفتی بے وقوف عورت اور خلیل الرحمان قمر دو کوڑی کا گردانتے ہیں۔

سوچ لیجیے اگر ہم اور ہماری کتھا آپ کے قلم کی رسائی سے نکل گئی تو آپ کا کیا بنے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments