پاکستان کا امریکہ کو انکار۔ ایک تجزیہ


پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات خاصے پیچیدہ نوعیت کے ہیں۔ اگرچہ ان تعلقات کا آغاز 1947 میں ہوا تھا لیکن ان میں آج بھی اعتماد اور برابری کی سطح پر ہونے کا فقدان ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ برابری کی سطح پر دوستانہ تعلقات قائم کرنے کا منشور دیا۔ لیکن ان کی فوری رحلت اور پاکستان کی سالمیت کے حوالے سے بھارت کی طرف سے روز افزوں خطرات نے معاشی اور دفاعی تعاون کے لیے امریکہ کی طرف دیکھنے پر مجبور کر دیا۔

1950 میں وزیراعظم لیاقت علی خان کے دورۂ امریکہ نے پاکستان کی اس پالیسی کو مزید واضح دیا۔ بعد ازاں 1954 میں SEATO کا ممبر بننے سے پاکستان کی امریکی بلاک میں شمولیت کی تصدیق ہو گئی۔ پاکستان، امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات میں ہمیشہ مخلص رہا ہے۔ امریکہ کو جب بھی پاکستان کی مدد کی ضرورت پڑی پاکستان نے غیر مشروط طور پر اس کی مدد کی۔ جبکہ امریکہ نے صرف اسی وقت پاکستان کی طرف دست تعاون بڑھایا جب خد اسے پاکستان کی مدد کی شدید ضرورت تھی۔

مثلاً امریکہ کو USSR کے خلاف اپنی خفیہ سرگرمیوں کے لیے جب پاکستان کی مدد کی ضرورت پڑی تو پاکستان نے ائر بیس امریکہ کو دے دیا۔ اس سے امریکہ کو تو انتہائی فائدہ ہوا لیکن پاکستان کے روس کے ساتھ تعلقات خراب ہو گئے۔ اور یہ تعلقات اس وقت مزید کشیدہ ہوئے جب 1960 میں اس نے بدا بیر ائیربیس پشاور سے اڑنے والے U۔ 2 جہاز کو نشانہ بنایا۔ اس سے روس کے ساتھ معاملات مزید بگڑ گئے اور اس نے پاکستان کو خطرناک نتائج کی

دھمکی دی۔

لیکن جب پاکستان کو بھارت کے خلاف جنگوں میں امریکہ کی مدد کی ضرورت پڑی تو اس نے پاکستان کی مدد نہ کی۔ بلکہ اس کے برعکس امریکہ نے 1965 اور 1971 کی جنگوں میں پاکستان پر پابندیاں لگا دیں۔ اسی طرح 1977۔ 1978 میں Foreign Assistance Act میں Symington اور Glenn ترمیمات کی گئیں جس کے نتیجے میں پاکستان پر پابندیاں لگا دیں جب کہ بھارت اور اسرائیل کو چھوٹ دے دی گئی۔ اور یوں معاشی اور دفاعی شعبوں میں پاکستان کی معاونت روک دی گئی۔

یہ صورتحال اس وقت تبدیل ہوگی جب 1979 میں روس افغانستان میں داخل ہو گیا۔ افغانستان کے تناظر میں پاکستان کے محل وقوع اور اس کی جغرافیائی اہمیت نے امریکہ کی نظروں میں پاکستان کی اہمیت بڑھا دی۔ امریکا کا پاکستان پر پابندیوں کا موقف تبدیل ہو گیا اور اس نے اسے USSR کے خلاف اپنا اہم ترین اتحادی بنالیا۔ اس عرصے میں امریکہ نے پاکستان سے پابندیاں اٹھا دیں، معاشی اور دفاعی حوالے سے پاکستان سے تعاون شروع کر دیا اور بدلے میں روس کے خلاف جنگ میں پاکستان کو امریکہ کے شانہ بشانہ لڑنا پڑا۔

لیکن جب USSR جغرافیائی طور پر شکست و ریخت کا شکار ہو گیا اور امریکہ نے کمیونزم کے خلاف کیپٹلزم کی جنگ جیت لی تو امریکہ نے مجاہدین، افغان پناہ گزین اور کلاشنکوف کلچر جیسے اہم مسائل کے مقابلے میں پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا۔ بعد ازاں 1985 میں امریکہ Pressler ترمیم لے آیا جس کے مطابق امریکی صدر کو یہ یقین دہانی کروانا تھی کہ پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ہیں۔ پانچ سال تک تو یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن 1990 میں امریکی صدر نے یہ تصدیق کرنے سے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں پاکستان پر پابندیاں لگا دی گئیں۔

اسی طرح 9 / 11 کے بعد پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا اور اس ضمن میں ایر بیسز، خفیہ معلومات اور اپنی سرزمین سمیت ہر طرح کی معاونت فراہم کی گئی۔ لیکن اس کے بدلے میں امریکہ نے پاکستان پر دہشت گردوں کی نرسری اور ان کے لئے محفوظ جنت جیسے الزامات لگائے۔ سالہا سال کی امریکی معاونت کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان پر امریکہ کو دھوکا دینے کا الزام لگایا اور یہ کہا کہ پاکستان نے امریکہ کے لیے کچھ نہیں کیا۔ یہاں اس بات کو واضح کرنا ضروری ہے کہ جب سے امریکہ افغانستان میں داخل ہوا ہے اسی وقت سے پاکستان دہشت گردی کا مقابلہ کر رہا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 83 ہزار سے زیادہ جانیں قربان کر چکا ہے جبکہ 126 ارب ڈالر خرچ ہو چکے ہیں۔

اب جبکہ امریکہ افغانستان سے جا رہا ہے تو اسے خطے پر نظر رکھنے کے لیے پاکستان کے ائیر بیسز کی ضرورت ہے لیکن پاکستان کے وزیراعظم نے امریکہ کے ان مطالبات کو یکسر مسترد کر دیا ہے اور یہ واضح کر دیا ہے کہ اب پاکستان اپنی سالمیت و مفادات کی قیمت پر کسی کو بھی اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ 73 سالوں میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ایک پاکستانی سربراہ مملکت نے امریکی دباؤ قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ قومی، علاقائی اور بین الاقوامی تناظر میں پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے دور رس اثرات کا حامل ہے۔

اگرچہ سابقہ حکومتیں بعض مجبوریوں یا اپنے ذاتی مفادات کے پیش نظر ہر قیمت پر امریکہ سے تعلقات بنانے اور نبھانے کی کوشش کرتی رہی ہیں لیکن پاکستان کے لوگوں نے اسے ہمیشہ ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے اور حکومتوں کے امریکہ کی طرف جھکاؤ پر عوام میں ہمیشہ بے چینی اور تشویش پائی گئی۔ لیکن موجودہ وزیراعظم کے فیصلے پر عوام نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ مزید براں پاکستان کے چین کے ساتھ معاشی، تجارتی اور دفاعی حوالے سے انتہائی اہم تعلقات ہیں جس کی ایک واضح مثال CPEC ہے۔

جبکہ امریکہ چین کے ساتھ اپنی چپقلش کی وجہ سے اس انتہائی اہم نوعیت کے منصوبے کو شکست و ریخت سے دوچار کرنے کے لئے مسلسل ریشہ دوانیاں کر رہا ہے۔ حکومت کا یہ فیصلہ پاک چین تعلقات کو مزید رفعتوں سے ہمکنار کرے گا اور پاکستان کی خود انحصاری کی پالیسی کے حوالے سے دنیا بھر کے لئے ایک واضح پیغام ہوگا۔ اس خطے میں پاکستان کی اپنی انتہائی جغرافیائی اہمیت ہے اور اس کے مفادات علاقائی ریاستوں کے ساتھ منسلک ہیں جبکہ امریکہ کے اپنے مفادات ہیں اور وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ریاستوں کا انتخاب کرتا ہے اور پھر ان سے اپنے اتحادی کے طور پر زیادہ سے زیادہ مطالبات منوانے کی کوشش کرتا ہے۔ قبل ازیں امریکہ کا اتحادی ہونے کے ناتے پاکستان کو خطے کے بعض اہم ممالک جن میں روس اور ایران خاص طور پر قابل ذکر ہیں کے ساتھ تعلق استوار کرنے میں خاصی مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ لیکن اب امریکہ اور دیگر علاقائی ممالک کو یہ واضح پیغام دے دیا گیا ہے کہ پاکستان کے لیے اس کا قومی مفاد سب سے مقدم ہے۔

امریکہ کے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ مثلاً امریکہ نے بھارت کے ساتھ نیو کلیائی تعاون بحال کرنے کے لیے 2006 میں بھارت سے پابندیاں اٹھا دیں لیکن پاکستان پر پابندیاں جاری رکھیں۔ اسی طرح بھارت NSG کا ممبر بننے کا خواہشمند ہے اور امریکہ اس کی حمایت میں ہے۔ مزید براں بھارت اپنی کثیر آبادی کی وجہ سے عالمی سطح پر ایک بڑی تجارتی منڈی کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور معاشی اہداف کے حصول کے لیے امریکہ کی نظر میں بھارت کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے لہذا اب بھارت امریکہ کے ذریعے مختلف حوالوں سے پاکستان پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ مثلاً افغانستان میں بھارت کا عمل دخل اور 2019 میں کشمیر کی دستوری حیثیت میں تبدیلی وغیرہ۔ لہذا پاکستان کا امریکہ کو ائر بیس نہ دینے کا فیصلہ بھارت کو بھی ایک واضح پیغام ہے۔

مزید یہ کہ دوسرے ممالک میں مداخلت کے حوالے سے امریکہ کی ایک طویل تاریخ ہے۔ امریکہ کی اس مداخلت کی وجہ سے وہاں کے لوگوں میں امریکہ کے خلاف نفرت پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے۔ چونکہ پاکستان کو امریکہ کا ایک اتحادی سمجھا جاتا تھا لہذا پاکستان بلاوجہ امریکہ کے خلاف اس نفرت میں حصہ دار بنتا رہا ہے۔ پاکستان کے اس فیصلے کی وجہ سے پاکستان کو ان تمام ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات بنانے میں مدد ملے گی۔

ان سب سے بالاتر بات یہ ہے کہ پاکستان نے اس فیصلے سے اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کو دہشت گردی سے محفوظ بنانے کی کوشش کی ہے۔ لہذا آخری بات یہ ہے کہ اس فیصلے سے ہر پاکستانی کو، وہ پاکستان میں ہے یا پاکستان سے باہر عزت، جرت، اعتماد اور حوصلہ ملے گا۔ اور دنیا بھر میں آزاد اور خودمختار ملک کے حوالے سے پاکستان کا تصور ابھرے گا اور ایک ریاست کے قیام کا اہم ترین مقصد بھی یہی ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments