طالبان کا دورحکومت کیسا تھا؟


افغانستان میں پھر طالبان کے آنے کا شور برپا ہے اور جیسے ہی طالبان حرکت میں آئے پاکستان میں طالبان سوچ کے حامیوں نے بھی ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دیے ہیں۔ پاکستان کے بہت سے دانشور قسم کے لوگ طالبان اور ان کے دور حکومت کی ایسی تصویر پیش کرتے ہیں کہ کوئی بھی عش عش کر اٹھے۔ طالبان کے نقش قدم پر چلنے والے اوریا مقبول جان اپنے ایک حالیہ کالم بعنوان ”باز آ جاؤ۔ ذلت و رسوائی سے بچو“ میں لکھتے ہیں : افغان عوام کی نیم شب کی دعائیں اور مظلوموں کی آہ و بکا رنگ لائی اور 15 محرم 24 جون 1994 کو جمعۃ المبارک کے متبرک دن ”عمر ثالث“ ملا محمد عمر کی سربراہی میں قائم ہونے والے گروہ ”طالبان“ نے امن قائم کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ اس کے صرف دو سال بعد ستمبر 1996 کو کابل پر طالبان کے امن کا پرچم لہرا رہا تھا۔ اوریا مقبول جان نے بڑی خوبصورتی سے ایک دہشتگرد کو ”عمر ثالث“ بنا کر پیش کیا ہے۔

اس سے قبل اوریا مقبول جان نے مارچ 2020 میں ”طالبان دور حکومت: حقائق“ کے عنوان سے سلسلہ وار کالم لکھے۔ اسی سلسلہ کے ایک کالم میں اوریا صاحب لکھتے ہیں : ”کیا آج بھی بیس سال بعد امریکہ افغان عورتوں سے ان کا برقعہ چھین سکا ہے۔ یہ افغان عورتیں پردہ اپنے اللہ کے احکامات کی تعمیل میں کرتی ہیں اور حالت یہ ہے کہ اب یہ ان کے کلچر اور تہذیب و ثقافت کا حصہ بن چکا ہے“ ۔ اس پر بعد میں بات ہوگی کہ افغان عورتیں کے ہاں یہ پردہ آیا کیسے جسے اوریا صاحب اللہ کے احکامات کی تعمیل بتا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اوریا صاحب طالبان کے پانچ سالہ دور حکومت کو افغانستان کی حالیہ سو سالہ تاریخ کا انتہائی پرامن دور قرار دیتے ہیں۔

اوریا صاحب طالبان کے بارے یہ گمراہ کن سبق آج سے نہیں پڑھا رہے۔ ”مجھے ہے حکم اذاں“ نامی کتاب اوریا صاحب کے پرانے کالموں پر مشتمل ہے۔ اوریا صاحب فروری 2004 کو لکھے گئے کالم ”یہ کیسے لوگ تھے“ میں انگلستان کی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کا حوالہ دے کر یہ ثابت کرتے پائے جاتے ہیں کہ منشیات کے کنٹرول کے لئے دنیا میں سب سے بہترین ماڈل طالبان نے پیش کیا۔ اس پر بھی بعد میں بات ہوگی کہ کیا واقعی طالبان نے منشیات کو کنٹرول کیا۔ یہ صرف ایک اوریا مقبول جان کے خیالات ہیں جو ملک کے ایک بڑے اخبار میں کالم کی صورت میں شائع ہوتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں لاکھوں اوریا مقبول جان ہیں جن کے خیالات ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے اپنے تک محدود رہتے ہیں۔ نواز شریف کے اسپیچ رائٹر عرفان صدیقی نے گرفتاری کے وقت قلم لہرایا تو پورے ملک کے قلم خطرے میں پڑ گئے۔ مگر یہی قلم کئی سال پہلے طالبان کے حق میں اٹھتا رہا ہے۔ عرفان صدیقی صاحب بھی طالبان کی قیادت کی زندگی کے روشن پہلو قلم بند کرتے ہوئے انہیں مرد حق و مرد مومن لکھتے رہے ہیں۔ ”زیرو پوائنٹ“ کے نام سے لکھا گیا کتابی سلسلہ جاوید چوہدری کے کالموں پر مشتمل ہے۔ جاوید چوہدری صاحب بھی بتاتے پائے جاتے ہیں کہ نماز روزے کی پابندی کرنے والے طالبان بہت اچھے ہیں اور صرف وہ طالبان برے ہیں جو پاکستان کی فوج سے لڑ رہے ہیں۔ جنگ اخبار کے کالم نگار انصار عباسی بھی عرصہ سے طالبان طرز کی شریعت کا سنہرا خواب لوگوں کو دکھا رہے ہیں۔

ان لوگوں کو پڑھ کے یوں لگتا ہے کہ طالبان دور حکومت میں دودھ کی نہریں بہہ رہی تھیں، جرائم صفحہ ہستی سے مٹ گئے تھے، لوگ یہ بھول گئے تھے کہ منشیات کسے کہا جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر خلافت راشدہ کا ٹوٹا سلسلہ پھر سے جڑ گیا تھا۔ کیا طالبان کا دور حکومت واقعی ایسا تھا؟

اس سوال کا جواب بہت لوگوں نے ریسرچ آرٹیکلز اور کتابوں کی صورت میں دیا ہے۔ اس حوالے سے ایک مستند نام احمد رشید صاحب کی کتاب ”طالبان: اسلام، تیل اور وسط ایشیا میں سازشوں کا نیا کھیل“ ہے۔ یہ کتاب احمد رشید صاحب کی اکیس برس کی رپورٹنگ کا نچوڑ ہے جو انہوں نے افغانستان میں رہ کر کی تھی۔ یہ کتاب اس حوالے سے بھی منفرد ہے کہ کتاب کے مصنف کئی سال طالبان کے قریب رہے، ان کی لیڈرشپ سے ملاقاتیں کیں اور عوام کے بیچ رہ کر افغانستان کے احوال معلوم کرتے رہے اور بعد ازاں انھیں قلم بند کیا۔

سب سے پہلے افغان خواتین اور ان کے پردہ کا احوال ملاحظہ فرمائیں کہ ان کے ہاں یہ پردہ آیا کیسے؟ جسے اتنے سالوں سے اللہ کے احکامات کی تعمیل اور کلچر و ثقافت کا نام دیا جاتا رہا ہے۔ احمد رشید لکھتے ہیں : جب طالبان پہلی بار کابل میں داخل ہوئے تو انہوں نے مردوں کو لمبی داڑھی نہ رکھنے کی پاداش میں اور عورتوں کو برقعہ نہ اوڑھنے کی بنا پر مارا پیٹا۔ طالبان نے حکومت میں آنے کے بعد سخت ترین اسلامی نظام نافذ کر دیا۔ عورتوں کو کام کرنے سے روک دیا گیا۔ افغانستان کی سول سروس، ابتدائی تعلیمی نظام اور علاج معالجہ کا بیشتر کام عورتیں ہی سرانجام دے رہی تھیں۔ لڑکیوں کے سکول اور کالج بند کر دیے۔ اس طرح ستر ہزار طالبات متاثر ہوئیں۔ عورتوں کے لئے برقعہ پہننا لازمی قرار دیا گیا۔ عورتوں کو گلی کوچوں میں نکلنے کی ممانعت کر دی گئی۔ گھروں کی کھڑکیوں کو کالا کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ باہر سے عورت نظر نہ آ سکے۔ عورتیں پورا وقت گھر میں بند رہتیں۔

اس کے ساتھ تمام مسلمان خواتین کو حکم دیا گیا کہ وہ افغانستان میں محرم یا خونی رشتہ دار کے ساتھ ہی سفر کر سکتی ہیں اور ایسی گاڑی جس میں کوئی غیر محرم موجود ہو اس میں سفر کی اجازت نہ تھی۔ اس سب کے بعد یہ فیصلہ کرنا زیادہ مشکل نہیں کہ افغان خواتین اللہ کے احکامات کی تعمیل کر رہی تھیں یا طالبان کے زبردستی کے اسلام کی۔

دوسرا دعویٰ امن کے بارے میں کیا گیا ہے، اب اس کا احوال ملاحظہ فرمائیے : سب سے پہلے یہ امن قائم کرنے کے لیے طالبان نے کابل پر 866 راکٹ پھینکے جن میں 180 شہری ہلاک اور پانچ سو پچاس زخمی ہوئے، شہر کے تمام بڑے حصے تباہ ہو گئے۔ طالبان کے پورے دور حکومت میں طالبان اور حکمت یار کی لڑائی میں سینکڑوں بے گناہ لوگوں نے جانیں گنوائیں۔ احمد رشید لکھتے ہیں : 1996 میں مسعود کی فوجوں نے بگرام کے ہوائی اڈے پر قبضہ کر لیا اور کابل ائر پورٹ پر گولا باری شروع کر دی۔ دوستم کی ائر فورس کابل میں طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری کر رہی تھی۔ اس جنگ میں ہزاروں شہری ہلاک ہوئے اور پچاس ہزار افراد گھروں سے نکل کر دیہات کی طرف بھاگ گئے۔

1997 میں طالبان نے مزار شریف میں اپنا قبضہ جمانے کے لئے جو قتل عام کیا اس بارے احمد رشید کی کتاب میں الگ سے ایک پورا باب موجود ہے۔ مصنف مزار شریف میں طالبان کی کارروائی بارے لکھتے ہیں : طالبان اپنی پک اپ گاڑیوں میں گلی کوچوں میں ادھر سے ادھر پھرتے اور شہریوں پر گولیاں برساتے رہے۔ دکاندار، ریڑھی بان، عورتیں، بچے گاہک، حتی کہ بھیڑ بکریاں اور گدھے تک ان کی گولیوں کا نشانہ بنتے رہے۔ ہر متحرک چیز ان کا ہدف تھی۔ گلیوں میں ہر طرف لاشیں بکھری ہوئی تھیں اور خون نے ہر شے کو ڈھانپ دیا تھا۔ اسلام میں میتوں کو بلاتاخیر دفن کرنے کا حکم ہے مگر مزار شریف میں تین دن تک کسی کو لاشیں اٹھانے اور دفن کرنے کی اجازت نہیں تھی۔

طالبان نے 1998 میں ہرات کی طرف پیش قدمی کی تو وہاں دوستم کی فوج کے 800 ازبک سپاہی گرفتار ہوئے جن میں سے اکثر کو قتل کر دیا گیا۔ پانچ سال تک افغانستان میں جاری رہنے والے اس قتل عام اور خون خرابہ پر بھی ”طالبانی دانشور“ نہایت نفاست سے ”امن“ کا لیبل چسپاں کر دیتے ہیں۔

اب کچھ اس دعویٰ کے بارے کہ طالبان نے منشیات کو کنٹرول کیا۔ احمد رشید لکھتے ہیں : 1995 میں افغانستان نے 2490 میٹرک ٹن افیون پیدا کی۔ طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد 1997 میں یہ مقدار 2800 میٹرک ٹن ہو گئی۔ 1999 میں تاجکستان کے صدر امام

علی نے ایک بین الاقوامی پریس کانفرنس میں بتایا کہ افغانستان سے ہر روز ایک ٹن منشیات ان کے ملک میں سمگل ہو کر آ رہی ہیں۔ اگر مان لیا جائے کہ طالبان نے منشیات پر کنٹرول کر لیا تھا تو سمگلنگ کے لیے منشیات کہاں سے آ رہی تھیں؟

اقوام متحدہ کے ڈرگ کنٹرول پروگرام کے مطابق 96 فیصد افغان ہیروئن ان علاقوں سے آتی تھی جو طالبان کے کنٹرول میں تھے۔ طالبان نے افیون کی پیداوار کے لیے میسر رقبے میں توسیع کی، ان کی فتوحات اور تجارت میں وسعت آنے سے افیون کی نقل و حمل کے نئے راستے کھلے ہیں اور نئی آسانیاں پیدا ہوئیں۔

اسلام نے منشیات پیدا کرنے اور استعمال کرنے کی ممانعت کر رکھی ہے مگر اس حوالے سے جب مصنف (احمد رشید) نے طالبان سے سوال کیا تو انہوں نے منشیات پیدا کرنے کی دلیل کچھ ان الفاظ میں دی: ”حشیش چونکہ مسلمان اور افغان استعمال کرتے ہیں اس لیے اسے اگانے کی ممانعت ہے۔ لیکن افیون مغرب میں کافر استعمال کرتے ہیں، مسلمان یا افغان نہیں۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments