کس کس بات کو روؤں ناصر


موجودہ حکومت کی ایک خوبی تو ہے کہ یہ پاکستانی قوم کو ہر قسم کے حالات سے نمٹنے کے لئے عملی مشقیں کرواتی رہتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ جب پورے ملک میں پیٹرول کی قلت پیدا ہو گئی تھی، محمود و ایاز والے مصرعے کے مصداق امیر غریب سب ایک لیٹر پیٹرول کے لئے لمبی لائنوں میں لگے رہتے تھے۔ اس بحران کو موجودہ حکومت نے پہلے پہل تو سرے سے ماننے سے انکار کیا تھا جب پانی سر سے گزرا تو کیا دھرا سب پچھلی حکومت پر ڈال دیا۔

اپوزیشن اور میڈیا نے آئنہ دکھا یا تو انکوائری کمیٹی بنی اور مشیر پٹرولیم کو عہدے سے الگ کرنے کے ساتھ ساتھ سیکریٹری پٹرولیم کو دوسری وزارت میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس انکوائری کمیٹی کی رپورٹ آئی مگر نہ ہی سابقہ مشیر پٹرولیم کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی نہ ہی ان آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی بازپرس ہوئی جو رپورٹ میں گناہگار پائی گئیں۔ اسی کے کچھ عرصے بعد چینی اور ٓآٹے کا بحران بھی آیا، ایک بار پھر لوگ لائنوں میں لگے، ایک بار پھر کمیٹیاں بنیں، مگر نتیجہ کیا نکلا وہ آپ سب کے سامنے ہے۔

پچھلے زخم ابھی ہرے ہی تھے کہ گرمی پڑتے ہی اچانک سرپلس بجلی پیدا کرنے والے ملک میں اندھا دھند لوڈشیڈنگ شروع ہو گئی۔ بڑے شہروں میں آٹھ سے دس گھنٹے جبکہ دیہاتوں کے حصہ میں دس سے سولہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ آ رہی ہے۔ اوپر سے سورج بھی سوا نیزے پر ہے، مجال ہے جو میدانی علاقوں میں درجہ حرارت چالیس سے اڑتالیس ڈگری سینٹی گریڈ سے نیچے آ رہا ہو، اور تو اور رات کو بھی کئی علاقوں میں درجہ حرارت تیس سے پینتیس ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔

یوں سمجھئے کہ نہ دن کو آرام ہے نہ رات کو چین آتا ہے۔ حالت یہ ہے کہ گھنٹہ بجلی آتی ہے تو گھنٹہ غائب، کم وولٹیج سوا، اب جن کے ہاں یو پی ایس بھی موجود ہیں تو وہ بار بار کی لوڈشیڈنگ اور کم وولٹیج کی وجہ سے بیٹری ہی نہیں چارج کر پا رہے تو اہالیان یوپی ایس کا غم بھی ایک ہی ہے۔ ارے ہاں گیس کی لوڈشیڈنگ بھی تو کی جا رہی ہے نا وہ بھی شدید گرمی کے موسم میں، ایک طرف بجلی نہیں تو بڑے شہروں میں لامحالہ پانی بھی نہیں آتا اوپر سے گیس غائب، جبکہ ایل پی جی کی قیمتوں تو پہلے ہی آسمان پر پہنچا دی گئی ہیں۔

بارہ سو میں ملنے والا گھریلو سلنڈر اب اٹھارہ سو پر پہنچ چکا ہے، یہ سب افتادیں جون کے آخری ہفتے اور عوام دوست بجٹ کے آغاز میں ہی آ پڑی ہیں۔ ظلم تو یہ ہے کہ وزیر توانائی صاحب پہلے تو یہ ماننے کو یہ تیار نہیں ہوئے کہ لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے مگر جب چیخ و پکار زیادہ ہوئی تو پکڑ کر پچھلی حکومت اور آر ایل این جی ٹرمینل چلانے والی حکومت پر ملبہ ڈال دیا۔ حماد اظہر صاحب فرماتے ہیں کہ کیونکہ ڈیمز میں پانی آ نہیں رہا تو ہائیڈل پاور سے جنریشن ہو نہیں رہی، اوپر سے میر پور گیس فیلڈ کی مرمت کی وجہ سے سوئی گیس بھی سسٹم میں موجود نہیں ہے، تیسرا آر ایل این جی ٹرمینل کی ڈرائی ڈاکنگ غلط اوقات میں کی گئی ہے جس کی وجہ سے آر ایل این جی کی فراہمی بھی زیرو ہو گئی ہے اور آر ایل این جی پر چلنے والے پاور پلانٹس بھی بند ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے سرپلس بجلی والے ملک کو چھ سے سات ہزار میگا واٹ کے شارٹ فال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ جس فرم پر ڈرائی ڈاکنگ کی تاخیر کا الزام لگایا گیا وہ دستاویزات سامنے لے آئے کہ بھیا ہم تو آپ کو دو ماہ سے کہہ رہے ہیں کہ ابھی وقت ہے ڈرائی ڈاکنگ کرنے دی جائے مگر نہیں اور اب جب معاملہ سر سے گزرا تو الزام عائد کر دیا گیا۔ پاکستان میں آر ایل این جی کے فلوٹنگ ٹرمینل ہیں، آسان الفاظ میں یوں کہئے کہ آر ایل این جی پر مشتمل بحری جہاز ہیں جو آ کر لنگر انداز رہتے ہیں جن سے آر ایل این جی ٹرمینل سے پھر ٹینکرز کے ذریعے پورے ملک میں سپلائی کی جاتی ہے۔

ان بحری جہازوں یا فلوٹنگ ٹرمینلز کی چھتیس ماہ سے لے کر پانچ سال کے عرصہ میں ڈرائی ڈاکنگ کی جاتی ہے۔ اب آپ کے ذہنوں میں یہ سوال آ رہا ہوگا کہ بھئی یہ ڈرائی ڈاکنگ کیا ہوتی ہے، تو جناب والا ڈرائی ڈاکنگ دراصل ہر وقت پانی میں موجود رہنے والے جہازوں کی خشک جگہ پر منتقلی اور عام فہم الفاظ میں سروس کو کہا جاتا ہے۔ نجی فرم کی جانب سے چھوٹی عید سے ہی بار بار خطوط بھیجے جاتے رہے کہ ڈرائی ڈاکنگ کے لئے ڈیڈ لائن قریب ہے مگر بدترین انتظامی صلاحیتوں پر مشتمل اس حکومت نے معاملے پر کان ہی نہیں دھرے اور پھر نتیجہ آپ، میں ہم سب بھگت رہے ہیں۔

پیٹرول بحران میں بھی قصور وار کوئی اور نہیں مگر حکومت اور اس کی فیصلہ سازی تھی۔ مگر یہ حکومت کا وتیرہ بن چکا ہے کہ ملبہ دوسرے پر ڈالنا ہے، ویسے بھی وزیراعظم صاحب امریکہ کو تڑیاں لگانے میں مصروف ہیں، وہ ایک الگ بات ہے کہ یہ عقدہ بھی کھل چکا کہ امریکا نے تو نہ اڈے مانگے ہیں اور نہ کسی قسم کا تعاون بلکہ بائیڈن انتظامیہ تو پاکستان کو لے کر ایسے خاموش ہے کہ جیسے ان کے نزدیک ہماری کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ اپوزیشن میں رہنے والے عمران خان کی باتیں یاد کریں تو یوں لگتا تھا کہ عوام کے مسیحا ہی صرف عمران خان تھے، ان کے اقتدار میں آنے کے بعد بحران در بحران جھیلنے کے بعد مجھے ہجرت کے شاعر ناصر کاظمی کی غزل یاد آ گئی جس کے منتخب اشعار آپ کی نذر ہیں کہ

تیرا قصور نہیں میرا تھا
میں تجھ کو اپنا سمجھا تھا
اب تجھے کیا کیا یاد دلاؤں
اب تو وہ سب کچھ ہی دھوکا تھا
کس کس بات کو روؤں ناصر
اپنا لہنا ہی اتنا تھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments