یونان نے نیو نازی پارٹی گولڈن ڈان کی دہشت گردی کو کیسے کنٹرول کیا؟


یہ اٹھارہ ستمبر 2013 کا واقعہ ہے۔ ایک پاپولر گریک سنگر پاولو فساس کو آدھی رات کے وقت لوگوں کے ہجوم کے سامنے چاقو مار کر قتل کر دیا گیا۔ یہ حملہ گریس (یونان) کی ایک نسل پرست فاشسٹ سیاسی پارٹی نیو نازی گولڈن ڈان نے کروایا تھا۔ پاولو کا قصور یہ تھا کہ وہ نسل پرستی کا سخت مخالف تھا۔ وہ انسانی برابری اور شخصی آزادیوں پر نہ صرف یقین رکھتا تھا بلکہ اس کا ایک بے باک پرچارک بھی تھا۔ اس کی قیمت اس نے اپنی جان دے کر ادا کی۔ گریک قوم اور حکومت نے پاولو کا خون رائیگاں جانے نہیں دیا۔

گولڈن ڈان اس سے پہلے بھی کئی لوگوں پر حملے کر چکی تھی اور کئی لوگوں کو قتل بھی کر چکی تھی۔ ایک حملے میں ایک پاکستانی بھی قتل ہوا تھا لیکن ابھی تک اس پارٹی کے خلاف کوئی تگڑا مقدمہ نہیں بن سکا تھا۔ اس کی اہم وجہ تو یہ تھی کہ کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا اور چھوٹی سی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ پولیس میں ان کے لیے سافٹ کارنر تھا۔

پاولو فساس کا قتل انہیں مہنگا پڑ گیا۔ یہ مقدمہ لگ بھگ پانچ سال تک چلا۔ اس کے نتیجے میں پارٹی کو جرائم پیشہ پارٹی قرار دیا گیا اور بین کر دیا گیا۔ اور اس کی لیڈرشپ پر ایک جرائم پیشہ ادارہ بنانے اور چلانے کا جرم ثابت ہوا۔ پارٹی کے سربراہ سمیت سات سینیئر رہنماؤں میں سے ہر ایک کو تیرہ سال کی سزا ہوئی قانون کے مطابق اس جرم کی زیادہ سے زیادہ اتنی ہی سزا ہو سکتی تھی۔ اس مقدمے کے تحت کل ملا کر ستاون پارٹی لیڈران کو قید کی سزا ہوئی۔ کم از کم سزا تین سال جیل تھی۔ سزا پانے والوں میں گیارہ سابق ممبر پارلیمنٹ بھی تھے۔ اس مقدمے کے تفصیلی فیصلے کا ڈاکومنٹ اتنا ضخیم تھا کہ اسے پڑھ کر سنانے میں پورا ایک ہفتہ لگا۔

قتل کے اس مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچانے میں تین خواتین نے بہت بنیادی اور بھرپور کردار ادا کیا۔ ان میں ایک پولیس افسر تھی جو پاولو پر حملے کے وقت وہاں موجود تھی۔ وہ اس وقت قاتل کو گرفتار تو نہ کر سکی لیکن اس نے مناسب مقدار میں شہادتیں جمع کر لیں اور اس کی وجہ سے قاتل کو اسی دن گرفتار کرنا ممکن ہو گیا۔ دوسری خاتون وہ جج تھیں جو مقدمہ سننے والے بینچ کی چیئرپرسن تھیں۔ انہوں نے بہت سمجھداری اور صبر سے سارا مقدمہ سنا اور حقائق تک پہنچنا ممکن ہوا۔ اور تیسری خاتون مقتول پاولو کی ماں تھیں۔ انہوں نے مقدمے کے پہلے دن سے لے کر فیصلے کے دن تک ساڑھے چار سال ایک بھی پیشی مس نہیں کی۔

جب مقدمے کا فیصلہ آیا تھا تو ماں نے، جو ساڑھے چار سال سے پیروی کر رہی تھی، نعرہ بلند کیا اور اپنے مقتول بیٹے کا نام لے کر کہا کہ پاولو تم نے مقصد حاصل کر لیا۔ تمہارا خون ضائع نہیں گیا۔ نفرت اور تشدد کو شکست ہوئی اور محبت اور امن کی فتح ہوئی۔

اس مقدمے کے دوران ہی گریس میں رائے عامہ بدل گئی۔ نیونازی گولڈن پارٹی جو 1980 میں قائم ہوئی تھی اور 2015 کے الیکشن میں 18 سیٹوں کے ساتھ پارلیمنٹ میں تیسری بڑی پارٹی بن گئی تھی وہ 2019 کے الیکشن میں ایک سیٹ بھی نہ جیت سکی۔ اس لیے صرف پارٹی ہی نہیں بلکہ اس کی سوچ کو بھی شکست ہو گئی اور آئندہ اس کی واپسی کے امکانات مقدمے کے فیصلے سے ختم ہو گئے۔

پاکستان بھی پچھلے تیس سال سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ ہمارے ہاں ہر اگلے سال خطرہ پہلے سے بڑھ جاتا ہے۔ ہر اگلی دہائی میں ایک نیا گروپ دہشت گردی پھیلانا شروع کر دیتا ہے۔ لاتعداد پاکستانی شہری قتل ہو چکے لیکن دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کچھ خاص نہیں ہوا۔

گریس اور پاکستان کی صورتحال اور طریقہ کار میں فرق کیا ہے؟

ایک تو یہ کہ گریس میں اداروں کی ساکھ اور اعتبار ابھی قائم ہے۔ خاص طور پر انصاف کا نظام۔ اس لیے جب عدالتیں کسی کو مجرم قرار دے دیتی ہے تو وہ عوام میں بھی مجرم سمجھا جانے لگتا ہے۔ نیو نازی گولڈن ڈان کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ لوگ اس کا ساتھ چھوڑ گئے۔ کیونکہ لوگوں کو پتا ہے کہ عدالت آزاد ہے۔ نہ تو وہ کسی کے دباؤ کے تحت کام کر رہی ہے اور نہ کسی دوسرے ادارے کے ساتھ سازش میں شامل ہے۔

دوسرا یہ کہ نازی نازی ہی تھے۔ وہ دہشت گرد تھے، انہیں یہی سمجھا گیا۔ انہیں اچھے اور برے دہشت گردوں میں تقسیم نہیں کیا گیا بلکہ سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا گیا۔

تیسرا یہ کہ انسانی جان کا احترام ہے اور فن کار ملک کا سرمایہ سمجھا جاتا ہے۔ اسے گناہ گار اور واجب القتل نہیں سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے جب فن کار قتل ہوا تو قاتل کو پورے اعتماد کے ساتھ انصاف کے کٹہرے میں لایا گیا۔

چوتھا یہ کہ قتل تو نیو نازی گولڈن ڈان پارٹی کے ایک عام ممبر نے کیا لیکن پوری لیڈرشپ کو مجرم اور سزا وار ٹھہرایا گیا کیونکہ جنہوں نے برین واش کیا اور اشتعال دیا اگر انہیں سزا نہ ملی تو قتل ہوتے رہیں گے۔ جیسا کہ ہمارے ہاں ہو رہا ہے۔

پانچواں یہ کہ گریس میں ہر روز ہزاروں لاؤڈ سپیکرز مذہب، عقیدے، جنس اور پیشے کی بنیاد پر گریک شہریوں پر لعن طعن نہیں کر رہے ہوتے۔

چھٹا اور بہت اہم یہ کہ گریس میں عورتیں با اختیار ہیں اور اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے قابل ہیں۔ اس لیے گریس یا شاید یورپ کی تاریخ کے اس اتنے بڑے مقدمے میں وہ اتنا بنیادی اور بھرپور رول ادا کر پائی ہیں۔ ان کے اس شاندار رول کے بغیر یہ مقدمہ شاید ایک منطقی انجام کو نہ پہنچتا۔

ساتواں یہ کہ گریس کے اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات بہت اچھے ہیں۔ وہ کسی دوسرے ملک کے دہشت گردوں کو اپنے ہاں پناہ نہیں دیتے اس لیے گریس کے دہشت گردوں کو پتا تھا کہ انہیں بھی کوئی پڑوسی ملک پناہ نہیں دے گا۔ نیو نازی دہشت گرد، ملک کے اندر یا باہر، کہیں بھی ٹریننگ کیمپ نہیں بنا سکتے تھے۔

پاکستان پر دہشت گردی کے سائے ایک مرتبہ پھر لہرا رہے ہیں۔ افغانستان میں دہشت گرد مضبوط ہوں گے تو ادھر بھی خیر نہیں ہو گی۔ یہاں پر دہشت گردوں کے خیرخواہ پہلے ہی بغلیں بجا رہے ہیں۔ ہم نے کیا کرنا ہے، ابھی تک تو کچھ پتا نہیں۔ لگتا ہے کہ درندوں کے ساتھ جب آمنا سامنا ہو گا تو جو کریں گے پھر وہی کریں گے۔

Pavlos Fyssa’s mother
سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments