سبھاش چندر بوس: جنگ آزادی کے نیتا جی


1857ء کی جنگ آزادی، انگریزی حکومت کی فتح اور برصغیر کے لوگوں کے لئے غلامی کی زنجیریں تھیں۔ یہ غلامی کی زنجیریں اتنی مضبوط تھیں جنہیں توڑنے کے لیے ہمیں کئی سال اور عظیم لیڈروں کی قربانیاں درکار تھیں۔ لیکن برصغیر کی زرخیز مٹی نے ہمیں ایسے عظیم لیڈروں سے نوازا جو ہمیں غلامی کی دلدل سے نکال کر آزادی کی وادیوں میں لے آئے ورنہ ہم آج بھی غللامی کی زندگی جی رہے ہوتے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہم آج انہی عظیم شخصیات کی بدولت دنیا کے نقشے پر اپنا الگ وجود رکھتے ہیں۔ آج ہم جس عظیم لیڈر کا ذکرکرنے جا رہے ہیں برصغیر کے لوگ انہیں نیتا جی کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ جی ہاں! آپ ٹھیک سمجھے۔ میرا اشارہ سبھاش چندر بوس کی طرف ہی ہے۔ آپ کا ہی جملہ تھا! ”مجھے خون دو میں آپ کو آزادی دوں گا۔“ آزادی کی خاطر آپ نے انقلاب کا راستہ اپنایا کیونکہ آپ جانتے تھے کہ بیرونی طاقتوں کا مقابلہ انقلاب سے ہی کیا جا سکتا ہے۔

برصغیر کی آزادی کی خاطر آپ کا بنایا ہوا بین الاقوامی اتحاد اور آزاد ہند فوج، تاریخ کے صفحوں میں امر رہے گا۔ آپ کا جنم 23 جنووی 1897ء کو ٹک اوڑیسہ میں یوا۔ آپ کا تعلق امیر گھرانے سے تھا۔ والد صاحب اعلیٰ پائے کے وکیل اور والدہ مذہبی خیالات کی مالک تھیں۔ آپ اپنے 14 بہن بھائیوں میں سے نویں نمبر پر تھے۔ آپ ذہین تھے، حالات و واقعات کو باریکی سے دیکھنے اور جانچنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ میٹرک کا امتحان اچھے نمبروں میں پاس کیا۔ بعد میں ”presiding college“ سے فلسفے میں گریجویشن کی۔ 1919 ء میں والد صاحب کی خواہش پر آئی سی ایس کے امتحان میں حصہ لینے کے لیے لندن چلے گئے، آپ نے آٹھ مہینوں میں ہی Indian civilization کے امتحان میں اچھی کارکردگی دکھا کر سرکای نوکری حاصل کر لی۔

آئی سی ایس کے امتحان میں کامیابی اچھی زندگی کی طرف اشارہ تھا۔ لیکن آپ سرکاری نوکری سے استفیٰ دے کر واپس چلے گئے۔ آپ کی واپسی پر استقبال کرنے والے لوگوں کی بہت بھیڑ تھی جس سے آپ کو اندازہ ہو گیا کہ آپ کا ہندوستان واپسی کا فیصلہ درست تھا۔ اور برصغیر کے لوگوں کو آپ جیسے عظیم لیڈر کی ضرورت تھی۔ ہندوستان واپسی پر آپ نے انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور آزادی کے مقصد کے لیے کام کرنے لگے۔ اب لوگ آپ کو جاننے لگے تھے، لیکن کانگریسی طریقے آپ کے خیالات کی تشریح نہیں کرتے تھے۔ ان دنوں کانگریس ڈومینین اسٹیٹس پر متفق تھی، لیکن آپ کامل آزادی کے حق میں تھے۔ آپ کے نزدیک ڈومینین اسٹیٹس کا مطلب ہندوستان آزاد ہو جانا تھا لیکن فیصلہ سازی کا اختیار انگریزی حکومت کے پاس رہنا تھا۔

اگرچہ گاندھی اور سبھاش چندر بوس کے درمیان سیاسی اختلافات تھے لیکن دل سے ایک دوسرے کی بہت عزت کرتے تھے۔ دوسری طرف آپ کی بڑھتی ہوئی شہرت بھی گاندھی جی اور دوسرے کانگریسی لیڈروں کے لیے عدم تحفظ کا باعث بنی۔ 1937 میں الیکشن ہوئے اور آپ الیکشن جیت گئے۔ لیکن گاندھی جی کے اصرار پر آپ نے اپنی سیٹ چھوڑ دی۔ بعد میں گاندھی جی کے لیے اس پر بہت سے سوالات کھڑے ہوئے۔ حقیقت میں گاندھی جی کی ہمدردیوں کا جھکاوؑ نہرو کی طرف زیادہ تھا۔ آخر کار آپ نے کانگریس سے علیحدگی اختیار کر لی۔

آپ آزادی کی لڑائی میں کئی بار جیل بھیجے گئے۔ 1941ء میں آپ کی صحت بھوک پڑتال کی وجہ سے گرنا شروع ہو گئی۔ اس پر انگریزی حکومت نے آپ کو عارضی رہائی پر گھر میں نظر بند کر دیا تاکہ صحت بحال ہونے ہر دوبارہ گرفتار کیا جا سکے۔ انگریزی حکومت آپ کی حکمت عملی سے اس قدر خوف زدہ تھی کہ انہوں نے آپ کے گھر پر خفیہ سپاہی لگا رکھے تھے۔ انگریزی حکومت نے آپ کی آزادی کی لڑائی میں راستے تنگ کیے ہوئے تھے۔ اب کانگریسی بھی آپ کے خیالات کی حمایت نہیں کر پا رہے تھے۔

لیکن دشوار حالات میں بھی آپ ہندوستان سے نکل کر افغانستان اور کابل سے ہوتے ہوئے جرمنی پہنچنے میں کامیاب ہو گئے وہاں پہنچ کر آپ نے ہٹلر سے ملاقات کی کوشش کی تا کہ محوری طاقتوں کے ساتھ مل کر انگریزی حکومت کا مقابلہ کیا جا سکے۔ سادہ لفظوں میں آپ بین الاقوامی اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن ہٹلر سے ملاقات آپ کی امیدوں کے برعکس رہی۔ کیونکہ جغرافیائی حوالے سے جرمن سے ہندوستان تک رسائی ممکن نہیں تھی۔ لیکن ہٹلر کے مشورے پر آپ کو جاپان بھیج دیا گیا جو جرمن کے ساتھ محوری طاقتوں کا حصہ تھا اور ہندوستان کے نردیک تھا۔ آپ آبدوز میں سفرکرتے ہوئے 90 دن میں جاپان پہنچے وہاں آپ نے جاپانی حکومت کو بھی اس بات پر قائل کیا کہ ایشیا تو ایشیائی لوگوں کا ہے تو انگریزوں کو جانا ہی ہو گا۔

اس وقت جاپانی فوج سنگاپور پر حملے کی تیاری کر رہی تھی۔ جہاں قریباً 90000 ہزار سپاہی تھے جس میں 45000 انڈین سپاہی تھے جو انگریزوں کی طرف سے لڑ رہے تھے۔ جاپانی فوج نے سنگاپور کو جنگ میں مات دے کر ساری فوجی قیادت اپنے ماتحت کر لی۔ اور انڈین سپاہی نیتا جی کے حوالے کر دیے۔ جس سے آپ نے آزاد ہند فوج بنائی۔ آپ نے خواتین کو بھی فوج میں شامل کیا لیکن جاپانی اس کے حق میں نہیں تھے۔ بین الاقوامی اتحاد اور آئی این اے (انڈین نیشنل آرمی) کا وجود میں آنا انگریزی حکومر کے لیے پہاڑ ثابت ہوا۔ منصوبہ یہ تھا کہ روس سے ہندوستان میں داخل ہوں گے اور انگریزوں کو باہر نکال کریں گے لیکن بد قسمتی سے ہٹلر نے روس پر حملہ کر دیا جو کہ سبھاش کے لیے بھیانک خبر تھی۔ دوسری طرف امریکہ نے بھی ہیروشیما اور ناگا ساکی پر حملہ کر کے انہیں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا تھا۔ لیکن ہماوا لیڈر اپنی آزاد فوج کی رہنمائی کرتا ہوا جہاں تک ممکن تھا، پہنچا اور آزادی کے مقصد میں جھنڈا لہرایا۔

جاپانی حکومت کے ہتھیار ڈالنے سے تین دن پہلے 18 اگست 1945ء کو تائیوان جاتے ہوئے ایک ہوائی جہاز حادثے میں آپ کی موت واقع ہو گئی جو کہ اب تک ایک راز ہی ہے۔ اب تک کی تحقیقات کے مطابق کسی جہاز کے حادثے کے ثبوت نہیں ملے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments