مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کا اسلوب تحریر: جس کے پیرہن سے خوشبو آئے


ہم اس مضمون میں مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے اسلوب تحریر کے انشائی پہلو پر گفتگو نہیں کریں گے بلکہ اس کی باطنیت یعنی جوش و جذبے، ذوق و شوق اور اس میں پنہاں وفور عشق و محبت اور وارفتگی کے حوالے سے بات کریں گے، جو ان کے قلم کو قوت و رعنائی اور آتش و زیبائی بہم پہنچاتی ہیں، اس میں شیرنی گھولتی ہیں اور ان کے قلم کو ہردم جواں اور ہر لحظہ رواں رکھتی ہیں۔ اور قاری دوران قرات ایسا کچھ محسوس کرتا ہے جیسے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اس کے جسم و جان اور قلب و روح کے تمام تار و پود کو بیک وقت معطر کر رہے ہیں۔

جیسے بھیگی بھیگی سی کوئی شام ہے اور قاری اس میں مزید بھیگ جانا چاہتا ہے۔ اور باوجود اس کے کہ وہ بعض دفعہ خود اپنے اوپر لکھی گئی تنقید پڑھ رہا ہوتا ہے اور تب بھی اس کی یہی خواہش ہو سکتی ہے کہ وہ مزید بھیگتا رہے۔ شاید اس کے شوق کو یہ احساس مہمیز کرتا ہے کہ یہ تحریر براہ راست اسی سے مخاطب ہے اور خاص کر اسی کے لیے ہمدردی و خیر خواہی کا بے پناہ جذبہ اپنے ظاہر و باطن میں سموئے ہوئے ہے۔

مولانا مرحوم کی تنقیدات کی اسی خصوصیت کے تعلق سے مولانا محمد تقی عثمانی صاحب نے لکھا ہے : ”ان کی تحریر و تقریر میں جو اخلاص، دردمندی اور دل سوزی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، وہ ان کی سخت سے سخت بات کو مخاطب کے لیے قابل قبول بنا دیتی تھی۔ اس کا نتیجہ تھا کہ عربوں پر کھری کھری تنقید کے باوجود عرب ممالک میں ان کی مقبولیت کسی بھی غیر عرب کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔“ [مفتی مولانا محمد تقی عثمانی، مضمون : ”توصیف کیا بیاں کریں ان کے کمال“ مطبوعہ: فکر انقلاب، فروری 2019، نئی دہلی]

اسی حوالے سے ایک اور شہادت دیکھیں :

”حضرت مولانا علی میاں ؒ کی تمام تنقیدیں تعمیری اور مثبت ہیں، طنز و تعریض سے پاک ہیں، ان کی تنقیدی تحریریں داعیانہ سوز و گداز اور ناصحانہ شفقت و محبت سے معمور ہیں، ان کی تنقیدوں کو وہ افراد بھی بخوشی پڑھ سکتے ہیں جن کے خلاف وہ تحریریں لکھی گئیں، ان کی تنقیدی تحریروں میں بھی رکاکت، سفلگی اور سوقیانہ پن کا دور دور تک گزر نہیں ہوا۔ مولانا نے اپنی تنقیدی تحریروں سے تنقید کا بڑا اعلی شائستہ اور شریفانہ معیار قائم کیا ہے جو اردو زبان کا عظیم سرمایہ ہے۔ اختلاف و تنقید میں اگر حضرت مولانا علی میاں ؒ کے طرز و اسلوب کو اختیار کیا جائے تو امت کی شیرازہ بندی میں اس کے خوشگوار نتائج سامنے آسکتے ہیں۔“ [مولانا عتیق احمد قاسمی، مضمون: ”حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کا تنقیدی اسلوب“ مطبوعہ: فکر انقلاب، فروری 2019، نئی دہلی]

اگر تحریر کے انشائی پہلو پر نظر رہے تو بہت سے ایسے قلم کار ہیں، کل بھی تھے اور آج بھی ہیں کہ ان کا اسلوب بہت توانا، زندہ اور پرعزم و جواں ہے۔ مگر یہ بات بجائے خود درست ہے کہ بہت سے ایسے قلم کاروں کے یہاں عشق و محبت کی اتنی فراوانی نہیں جتنی کہ ایک زندہ تحریر کے لئے درکار ہوتی ہے اور ناقدانہ نظر رکھنے والے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر باغیانہ تیور رکھنے والے قاری کو متاثر کرنے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ بیشک ان کے یہاں اعلیٰ تحقیق ہے، نئی معلومات ہیں، بہترین تجزیہ ہے اور معتدل اور قابل عمل رائے ہے او رسب سے بڑھ کر زبان و بیان کی سطح پر ایسی انشا پردازی ہے کہ ان کی تحریریں ’دامن دل می کشد کہ جا ایں جا است‘ کا درست مصداق نظر آتی ہیں، مگر ایک وہی بات کہ ان کے باطن میں جذبۂ عشق و محبت اور خلوص و خیر خواہی کی فراوانی نہیں ہے۔ اور یہ تو وہ لوگ ہیں جو نہایت سلجھے ہوئے دماغ اور اعلیٰ قابلیت رکھنے والے ہیں اور ایسے لوگ بھی کم ہی ہیں، جبکہ زیادہ تعداد تو انہیں کی ہے جو بے سرے ہیں، بے درد ہیں اور مرغ بے ہنگام ہیں اور پھر مصیبت یہ بھی ہے کہ رہنما بھی بنے ہوئے ہیں۔

مولانا مرحوم تنہا ایسے قلم کار ہیں کہ جن کا قلم تاعمر کبھی بھی رد عمل کی نفسیات کا شکار نہیں ہوا۔ اعتدال پسندی اور خلوص دل کی ایسی روایت اور بنیاد آپ کو دور دور تک نہیں ملے گی۔ وہ خود فرماتے تھے کہ یہ زمانہ بڑا ہی قحط الرجال کا زمانہ ہے۔ قحط الرجال سے ان کی مراد یہ تھی کہ اب صاحب دل لوگ نہیں رہے : ”وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے“ یہ مصرع اکثر و بیشتر ان کی زباں پر رہتا تھا۔

اگر آپ طالب علم ہیں ’تو پاجا سراغ زندگی‘ کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں۔ اس کتاب میں طلبہ کے لئے وہی حمیت، وہی درد، وہی محبت اور وہی جوش ملی اور طوفان عشق و مستی ہے۔ جو علامہ ؒ کے اس شعر میں ہے، جس کا ایک مصرع کتاب کے سرنامے پر درج ہے۔

اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن

دوسرے مصرعے میں دیکھیں کیا یہ وہی درد اور وہی محبت نہیں ہے جو ایک ماں، ایک استاد اور ایک باپ اپنے ایسے شاگرد اور بیٹے کے سامنے رکھتا ہے جس کی روش بہکی بہکی سی ہے اور جو اپنے مستقبل سے آگاہ نہیں ہے اور اسے فکر بھی نہیں ہے۔ جسے دنیا نے ’آج‘ میں جینا سکھایا ہے اور جس نے اسے بتایا ہے کہ موج و مستی ہی زندگی کا حاصل ہے، جس نے موج و مستی کے ساتھ زندگی گزار لی گویا اسی نے اپنی زندگی کو بھر پور طریقے سے جی لیا اور وہی کامران و بامراد رہا۔

دنیا نے تو یہی سکھایا کہ ’بابر بعیش کوش، عالم دوبارہ نیست‘ اور یہ کہ اگر کل مرنا بھی ہے تو اس کل کے بارے میں سوچ سوچ کر آج ہی کیوں مریں اور اس ’آج‘ کو بھی مرمر کر کیوں جئیں۔ جس بیٹے کی اور جس شاگرد کی ذہنیت اور مزاج یہ بن چکا ہو، اس کے لیے اقبال بے چین اور مضطرب ہو اٹھے ہیں۔ اور یہی تڑپ اور جذبہ آپ کو ’پاجا سراغ زندگی‘ میں ملے گا۔ یہ جذبہ ٔخیر خواہی اس قدر شدید ہے کہ ہو سکتا ہے کہ آپ کو بحیثیت قاری یہ احساس ہو کہ آخر اس شخص کو میرے بننے سے کیا مل جائے گا اور میرے بگڑ جانے سے اس کا کیا نقصان ہو جائے گا۔

میں اپنے بے تکلف دوستوں اور اہل تعلق سے بارہا کہتا ہوں کہ وہ ردو قدح اور الزامی و جوابی بیانئے کو ترک کر کے ایسے ہی ہمدردانہ، محبت آمیز اور ایسے ہی پرخلوص اور درد و سوز میں ڈوبے ہوئے اسلوب کی طرف آجائیں۔ ایسے اسلوب تحریر بلکہ اسلوب زندگی کی طرف آ جائیں جو اقبال کی زبان میں رومی کے سوز و ساز اور رازی کے پیچ و تاب کا آئینہ دار ہو، تاکہ ہماری تحریریں قاری کے لیے شفاف جھیل کے پانی کی طرح بن جائیں کہ وہ اس میں اپنا سراپا دیکھ سکیں اور خود کو نک سک سے درست کرسکیں۔

اگر کوئی ایسا کر سکا تو نہ صرف یہ ہوگا کہ اس کی تحریر میں چاشنیاں بھر جائیں گی بلکہ اس کی شخصیت ہی ایسے سانچے میں ڈھل جائے گی کہ پھر کوئی اس سے محبت کیے بنا نہیں رہ پائے گا۔ اور اسی سے وہ مسئلے بھی حل ہو پائیں گے جو ہم الزامی اور جوابی بیانیوں (اگر ہم مخلص ہیں ) سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے الزامی اور جوابی بیانیوں سے اسی کوشش میں تو لگے ہوئے ہیں کہ ہم جس سے مخاطب ہیں وہ کچھ چیزوں کو، عادات کو، رسم و رواج کو اور ان افکار و خیالات کو، جنہیں ہم مناسب نہیں سمجھتے، چھوڑ دے اور ان عادات، رسم و رواج اور افکار و خیالات کو اپنا لے جو ہمارے ہیں اور جنہیں ہم بزعم خویش حق سمجھتے ہیں۔ مگر اس الزامی اور جوابی بیانیے سے ہو کیا رہا ہے؟ عملاً ہو یہ رہا ہے کہ ضد اور ہٹ دھرمی کا ماحول پنپ رہا ہے۔ اس ضد کا اگر کچھ تریاق ہے تو یہی محبت، خیر خواہی اور قربانی و جانثاری کا جذبہ اور درد و محبت میں ڈوبی ہوئی زبان اور اسلوب ہے۔

مولانا مرحوم کی تحریروں میں سلاست و روانی اور عشق و محبت کی فراوانی کے علاوہ حالات کا درست تجزیہ، شخصیات اور ان کی علمی و عملی کاوشوں کا منصفانہ محاکمہ، بے لاگ تبصرہ، غیر جانبدارانہ تنقید اور بے جا عقیدت مندی سے اجتناب بھی ہے جبکہ حسن تحقیق اور حسن ترتیب اس پر مستزاد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو بھی مولانا کو پڑھتا ہے وہ نہ صرف پڑھتا چلا جاتا ہے بلکہ وہ ان کے ساتھ گویا بندھ سا جاتا ہے۔ مولانا مرحوم کی شخصیت کی یہی سحر کاری تھی کہ انہوں نے کسی بھی قابل تعریف شخص کی تعریف میں بخل سے کام نہیں لیا اور کسی کی بے جا تعریف و توصیف نہیں کی، غیر ضروری فتوی بازی سے آخری حد تک اجتناب برتا اور تنازعات میں گھرنے سے خود کو بچائے رکھا۔

اگر آپ زبان و ادب کے گرویدہ ہیں اور ادبی شہ پاروں اور تنقیدات کے مطالعے کے شیدائی ہیں تو ”نقوش اقبال“ لے کر بیٹھ جائیں، آپ کا دل بیٹھ بیٹھ نہ جائے تو کہنا۔ بیشک یہ اقبالؒ کے خیالات کی ترجمانی ہے، مگر یہ ترجمانی کچھ ایسی ہے کہ اس میں مؤلف کا اپنا سوز و گداز اور شوق و محبت بھی شامل ہو گیا ہے۔ اس کے سرنامے پر بھی علامہ ؒ کا ایک شعر درج ہے اور وہ بھی ایک دردمند دل کی ترجمانی کر رہا ہے۔

نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر

یعنی محبت و درد مندی اور خلوص نیت کے بغیر یہ دنیا اور دنیا کی ہر شے بے قیمت ہے، وہ خام مٹیریل کی طرح ہے اور بے روح بدن کی طرح اور بے خوشبو کے پھول کے مانند ہے۔ اگر کسی انسان کی چھوٹی بڑی کسی بھی طرح کی کاوش میں ”خون جگر“ یعنی عرفان و محبت کی آمیزش نہیں ہے تو وہ کاوش بے سود اور بے نتیجہ ہے، وہ ایسے درخت کی طرح ہے جو پھل نہیں دیتا۔ اگر کسی نے مولانا کو پڑھا ہے تو اس کو ضرور اس احساس نے اپنی گرفت میں لیا ہوگا کہ اس کائنات کا سب سے بڑا عنصر محبت اور عرفان ذات حق ہے، اس کے بغیر کسی بھی مال کی، شے کی اور عمل کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ جناب ماہر القادری نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے ”کتاب پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے شبلی کا قلم، غزالی کی فکر اور ابن تیمیہ کا جوش و اخلاص اس تصنیف میں کارفرما ہے۔“ اگر مولانا مرحوم کی شخصیت کی بات کریں تو ماہر القادری کے الفاظ میں وہ اقبال کے ”مرد مومن“ کے حقیقی مصداق تھے۔

اقبال کے فن کے جن عناصر ترکیبی نے مولانا کو ان کی طرف مائل کیا ان میں سے ایک عنصر جو اقبال کے یہاں افراط کے ساتھ موجود ہے، وہ یہی ”محبت“ ہے۔ اقبال نے محبت کو ’فاتح عالم‘ کی صفت کے ساتھ مربوط کیا ہے۔ ع: ”یقین محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم“ اور ایک جگہ مؤمن کے قلب میں موجود اس صفت محبت کو اور خود انہیں کے لفظوں میں جذب و مستی کو فرشتوں کی دیگر صفات کے مقابلے میں افضلیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔

نہ کر تقلید اے جبریل میرے جذب و مستی کی
تن آساں عرشیوں کو ذکر و تسبیح و طواف اولیٰ

مولانا مرحوم خود ہی مانتے اور تسلیم کرتے ہیں کہ تحقیق و تصنیف، وعظ و ارشاد اور نکتہ رسی سے بڑھ کر انسان کے درد و سوز، محبت و درد مندی اور اخلاص و للٰہیت کی اہمیت ہے۔ یہ اقتباس دیکھیں :

”محض خطبات سے، دو چار اچھی تصنیفات سے، قلم کی روانی سے، خیالات کے سلجھاؤ سے، کسی نادر علمی تحقیق سے، محض کسی نئے طرز میں کسی پرانے خیال کو یا نئے جام میں کسی شراب کہن کو پیش کرنے سے زمانے میں کوئی نیا انقلاب اور انقلاب تو بڑی چیز ہے کوئی معمولی تبدیلی بھی پیدا نہیں ہو سکتی۔ اس زمانے میں ضرورت ہے کردار کی، قلب کی درد مندی اور اندرونی سوز کی، ایک ایسی حرارت کی جو اندر ہی اندر جلا رہی ہو، اعصاب کو پگھلا رہی ہو، اور پھر یہ لاوا پھوٹ کر کسی آتش فشاں کی طرح بڑھ رہا ہو اور اس کی تپش اور سوزش سینکڑوں اور ہزاروں دلوں کو گراما رہی ہو۔“ (پاجا سراغ زندگی، صفحہ نمبر: 82، مطبوعہ : مجلس تحقیقات و نشریات اسلام)

مولانا کے یہاں لفظیات کی جو زرخیزی اور بہتات ہے، وہ یقینی طور پر ادب کے مطالعے سے آئی ہے اور اس زرخیزی میں کلام اقبال کے مطالعے کے تئیں ان کے ذوق و شوق اور گرویدگی کا بھی بڑا حصہ ہے۔ ان کے یہاں لفظیات کی کثرت ان کے وفور شوق، شارپ اور وسیع ذہنیت کی غماز ہے اور یہ مضمون اور فکر کے تمام ابعاد تک پہنچے کے لیے ہے۔ اسی لیے وہ ایک ہی معنیٰ کے لیے کئی کئی لفظ لاتے ہیں اور کئی کئی جملے یکے بعد دیگرے لکھتے چلے جاتے ہیں۔

ایسا کر کے وہ یقینی طور پر مضمون کے تمام پہلؤوں، تہہ داریوں اور اس کے تمام اسرار تک پہنچنا چاہتے ہیں اور لفظیات کا ایسا استعمال انہیں ان تمام دوسرے قلم کاروں سے ممتاز اور مختلف بناتا ہے جن کے یہاں لفاظی محض ہے، یا پھر وہ شوخیانہ پہلؤوں کی حامل ہے یا پھر یہ بات ہے کہ وہ قاری پر اپنی انشا پردازی اور لفظیات کے ذخیرے کا رعب جمانا چاہتے ہیں اور مضمون کی روح اور اس کے حقیقی پیغام سے زیادہ محض زور بیان اور لفظی جمع خرچ کے ذریعے ہی داد وصول کرنے کے متمنی رہتے ہیں۔ مگر مولانا کو یہ الزام نہیں دیا جاسکتا، یہاں تک کہ وہ بھی انہیں یہ الزام نہیں دے سکتے جو ان کے بہی خواہ نہیں ہیں اور ان سے کسی طرح کا بغض رکھتے ہیں، مسلکی و گروہی بغض، یا فکر و نظر کے اختلاف پر مبنی بغض۔

پروفیسر وصی احمد صدیقی نے مولانا مرحوم کی تحریر کی خصوصیات کا کئی جہتوں سے جائزہ لیا ہے۔ ان میں سے ایک جہت مولانا کے اسلوب تحریر کی دلکشی و رعنائی بھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

” حضرت مولانا کی تحریر اتنی دلکش کیوں ہوتی ہے اور کیوں لوگوں کے احساسات کو چھوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کسی تحریر میں مجرد افکار ہوں یا خالص حقیقتوں کا بیان ہوتو گو وہ ایک علمی تحریر ہوگی مگر اثر ڈالنے والی نہ ہوگی۔ مولانا کا بیان حقیقت جذبات کی شکل میں دل میں ورود کرتا ہے، ان جذبات کا بیان حقیقی اور فکری زبان میں ہوتا ہے اور شاعرانہ زبان کے ملمع سے بالکل محفوظ۔ یقیناً مناسب موقع پر حضرت مولانا پرجوش اور استعارہ آمیز تحریر لکھ جاتے ہیں، عبارت آریانہ تکلف سے بالکل دور۔

مولانا کی زبان سالم اور مکمل افکار کی تصویر ہوتی ہے۔ حقیقت اور جمال ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ میرا مطلب ہے کہ فکر اور ادراک اور اظہار الگ ہونے کے باوجود ایک وحدت میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ علم لغت کی لفظی کثرت اور مترادفات کا زیادہ استعمال مولانا کی تصانیف میں کہیں کہیں مل جاتا ہے، مگر وہ متن پر حاشیوں سے زائد نہیں۔ مولانا کی زبان کی ہم آہنگی اس درجے کی ہے کہ اس سے اونچا درجہ تخیل میں نہیں آتا۔

حضرت مولانا حرف و معنیٰ کے اندرونی رشتے سے بخوبی واقف ہیں۔ فکر کی گہرائی اور تخیل کی رعنائی ان الفاظ سے ہم آہنگ ہوگی جو مولانا استعمال کرتے ہیں۔ اضطراب اور خلش کا بیان، مردان کار کے کارناموں کا ذکر، اقدار حیات کا تعین، سب کے لیے الفاظ سے بنی ہوئی فضا الگ ہوجاتی ہے۔ لیکن آفاقیت اور ہمہ گیری سے کوئی بیان خالی نہیں ہوتا۔ اور یہ کمال بھی کہ چشم زدن میں اشیا کے باطن کو سامنے کر دیا۔ اس شوق، عشق، تپش اور جذبے کے ساتھ جو ان کے بیان کا خاصہ ہے۔ روانی اور بے ساختگی میں کہیں فرق نہیں آتا۔ ”[پروفیسر وصی احمد صدیقی، مضمون:“ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ بحیثیت ایک اردو ادیب ”مطبوعہ: فکر انقلاب، فروری 2019، نئی دہلی]

ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ مولانا کا اسلوب تحریر عربی اور اردو، دونوں زبانوں میں بڑی یکسانیت رکھتا ہے، اپنی باطنیت کے حوالے سے بھی اور انشاء پردازی کی سطح پر بھی۔ ظاہر ہے کہ دل کا جو درد ہے وہ تو ایک ہی ہے، اب چاہے وہ کسی بھی زبان میں اظہار کا جامہ زیب تن کرے، اندرون ذات کا جو اضطراب ہے، محض زبان کا اختلاف اس کی کیفیت اور شدت کو تو نہیں بدل سکتا، بطور خاص اس وقت جب قلم کار کو دونوں زبانوں پر یکساں قدرت اور مکمل عبور حاصل ہو۔

مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ انشاء پردازی اور جملوں کی ساخت پرداخت کی سطح پر بھی مولانا کی دونوں زبانوں کی تحریریں بڑی مماثلت رکھتی ہیں، وہی لمبے لمبے جملے، وہی لفظیات اور مترادفات کی کثرت، حتی کہ وہی سلاست اور روانی بھی۔ اور وہی ایک عالم دین کی تفنن طبع کے طور پر کہی ہوئی بات کہ مبتدا ایک صفحے پرتو خبر دوسرے صفحے پر۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مولانا اکثر و بیشتر فکر اسلامی کا غیر اسلامی افکار سے تقابل کرتے ہوئے چلتے ہیں، مثلاً اگر وہ فکر اسلامی کے کسی اخلاقی یا قانونی اصول کو بیان کرنا شروع کریں گے تو پہلے اس تعلق سے ایک دو آپس میں مربوط جملے لکھیں گے اور پھر دیگر ادیان اور دیگر انسانی معاشروں اور تہذیبوں سے اس کا تقابل کریں گے اور پھر آخر میں فکر اسلامی کی اخلاقیات کی برتری ثابت کرتے ہوئے بات مکمل کریں گے۔ اگر آپ غور کریں گے تو پائیں گے کہ مولانا کی دونوں زبانوں کی تحریروں میں کئی سطح پر یکسانیت در آئی ہے۔ شاید یہ کہنا صحیح ہے کہ یہ ان کی دلنواز شخصیت ہے جو ان کی عربی و اردو ہر دو زبانوں کی تحریروں میں رچ بس گئی ہے۔ اور اسلوب تحریر قلم کار کی شخصیت کا ہی تو پرتو ہوتا ہے۔

مولانا کی شخصیت، اسلوب زندگی اور اسلوب تحریر کی درج بالا خوبیوں اور اعلیٰ صفات کی ہر اس شخص نے پذیرائی کی ہے جس نے مولانا کو تعصبات کی عینک اتار کر پڑھا ہے۔ اس کی شہادت کے طور پر چند خوش نویسوں کے چھوٹے چھوٹے اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں :

شیخ محمد المجذوب ملک شام کے جلیل القدر عالم دین، مبلغ، مصنف اور ادیب تھے، وہ شام میں 1907 میں پیدا ہوائے اور 1999 میں وفات پائی، مدینہ منورہ ہجرت کی اور مدینے میں الجامعۃ الاسلامیۃ میں استاذ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، شیخ محمد المجذوب چالیس سے زائد کتابوں کے مصنف تھے۔ وہ اپنی کتاب ”علماء و مفکرون عرفتہم“ میں مولانا مرحوم کی عربی تحریروں کی سحر انگیزی اور جادو بیانی کے ضمن میں رقم طراز ہیں :

” شیخ ندوی کی تحریروں کو پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی ادبی تحریر میں ایک ایسا جادو ہے جو عموماً دوسرے مصنفین کی تحریروں میں نہیں ملتا۔“ ( بحوالہ: شاہد ندوی بارہ بنکوی، مضمون: ”علی میاں ندوی ؒ عرب علماء و دانشوروں کی نظر میں“ مطبوعہ: فکر انقلاب، فروری 2019، نئی دہلی]

انہیں کی مزید ایک شہادت :

”علامہ ندوی ( سید ابوالحسن علی ) کی تحریر پڑھنے والا محسوس کرے گا کہ ان کی عبارت میں غیر معمولی اثر ہے جو کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے، ان کی تحریروں کو پڑھنے والا مسحور سا ہوجاتا ہے، وہ ان خاص اہل دل افراد میں سر فہرست ہیں جو اپنے جذبات کی شدت و وفور اور جولانی و روانی کو قرطاس تک منتقل کر دیتے ہیں، یہ وہ جوہر ہے جو خاص روحانی ذوق رکھنے والے ادباء کے یہاں ملتا ہے۔“ (فکر اسلامی نمبر، جامعہ اسلامیہ، بستی )

مولانا نور عالم خلیل امینی ؛ مدیر ”الداعی“ دیوبند، رقم طراز ہیں :

”میں نے صرف اردو میں نہیں عربی میں بھی تحریروں کے بادشاہوں کو پڑھا ہے، تقریر کے جادو گروں کو سنا ہے، الفاظ کے شہنشاہوں کو برتا ہے، فصاحت اور بلاغت کا دریا بہانے والوں کا تجربہ کیا ہے، مطالعہ اور معلومات کی گمنام اور تاریک سرنگوں میں بے خطر بہت دور تک جانے والے بہت سے لوگوں کا علم ہے، لیکن خدا اور رسول کو گواہ بنا کر کہنے دیجئے کہ تحریر و تقریر کے لفظ لفظ نہیں، حرف حرف پر اور ہر زیر و بم پر خلوص کا جو حسن، ایمان و یقین کی جو مہرتابی، درد دل کی جو لذت، انسانوں سے محبت کا جو جمال، کلمة اللہ کا جو جلال، صدائے حق کی جو دل نوازی اور سوز دروں کی جو تمازت اور فقر غیور اور زہد پرنور کی جو جاذبیت اور حرارت میں نے“ مولانا علی میاں ندوی ”کے یہاں محسوس کی وہ میرے محدود علم و مطالعہ میں کسی کے یہاں نہیں ملی۔“ (بحوالہ: پس مرگ زندہ)

حقانی القاسمی صاحب جو ایک معروف قلمکار اور ادبی، سیاسی اور سماجی تجزیہ نگار ہیں، اپنے مضمون ”مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کا نثری بیانیہ“ میں لکھتے ہیں : ”۔ علی میاں، عربی زبان و ادب کے صاحب طرز ادیب تھے اور ان کی عظمت کا نقش عرب کے بڑے بڑے فضحا و بلغا کے ذہنوں پر قائم ہے۔ مولانا علی میاں اردو کے بھی ایک صاحب طرز انشا پرداز تھے۔ وہ کون سی صنف ہے جس میں مولانا ابو الحسن ندوی نے اشہب قلم نہ دوڑائے، کون سا ایسا موضوع ہے جسے ان کا قلم چھو کر نہ گزرا۔

انہوں نے سفر نامے لکھے تو ایسے کہ ابن بطوطہ اور ابن جبیر کی یاد تازہ ہو جائے اور خاکے لکھے تو ایسے کہ کیا کوئی اردو کا سقراط اور بقراط لکھے گا اور خودنوشت لکھی تو ایسی کہ پڑھنے والے کے دل میں ویسی ہی زندگی جینے کی تمنا جاگ اٹھی۔ وہ ہمیشہ سچے شبد لکھتے رہے اور بولتے رہے۔ ان کی کسی بھی تحریر یا تقریر میں مداہنت کا کوئی شائبہ تک نہیں۔ ”

مولانا زاہد الراشدی کی شہادت بھی پڑھیں :

”۔ اردو تو مولانا ندویؒ کی گھر کی زبان تھی مگر عربی کو بھی ان سے کبھی اجنبیت کی شکایت نہ ہوئی۔ وہ عربی ایسی قدرت اور روانی کے ساتھ بولتے اور لکھتے تھے کہ خود عربوں کو اس پر حیرت ہوتی تھی۔ میں نے بعض عرب دانشوروں کے بارے میں سنا ہے کہ وہ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کا خطاب اس لیے سنا کرتے تھے کہ ان کی زبان کی چاشنی اور سلاست و فصاحت کا حظ اٹھا سکیں۔“ (روزنامہ اوصاف، 14 جنوری 2000 ء)

مولانا علاء الدین ندوی استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء اپنے مضمون میں لکھتے ہیں :

”مولانا کا علم و فن شعوری اور گہری فکر کا نتیجہ ہے، مستعار نہیں ہے، گہری اور شعوری فکر و نظر کے نتیجے میں ظاہر ہونے والا علم ہی سرچشمۂ حکمت و معرفت ہوتا ہے جبکہ مستعار علم صرف معلوماتی ہوتا ہے۔ مولانا کے ادب میں ایک رواں دواں اور پیہم جواں زندگی کا احساس ہوتا ہے۔ ایسی زندگی ادب و فن میں اس وقت پید اہوتی ہے جب اس میں خون جگر کی آمیزش کے ساتھ عشق و عمل کی روح پھونک دی گئی ہو۔“ [مولانا محمد علاء الدین ندوی، مضمون: ”علی میاں تعمیری ادب کا اعلیٰ نمونہ“ مطبوعہ: فکر انقلاب، فروری 2019، نئی دہلی]

اقبال کی شخصیت، فن اور فکر تینوں چیزوں نے مولانا کو بہت متاثر کیا ہے اور اس کی خوب تر شہادت اقبال پر ان کی کتاب ’نقوش اقبال‘ ہے۔ مولانا اپنی تحریروں اور تقریروں میں جابجا کلام اقبال کو کبھی زور بیان کے لیے استعمال کرتے ہیں تو کبھی استشہاد کے طور پر، یہاں تک کہ اپنی کئی کتابوں کے نام اور عناوین بھی اقبال کے کلام سے اخذ کیے ہیں۔ اقبال کے ساتھ مولانا کی ذہنی و فکری ہم آہنگی جذباتی اور وقتی نہیں تھی، یہ علی وجہ البصیرہ استوار ہوئی تھی اور پھر تمام عمر استوار رہی۔

اقبال جس دور میں پیدا ہوئے تھے وہ مسلم دنیا کی غلامی کا دور تھا۔ وہ اجڑے گلستاں میں بلبل نالاں کی مانند تھے، ان کی زندگی کی تمامتر سرگزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو تھی، ان کی شخصیت کا خمیر رومی کے سوز و ساز اور رازی کے پیچ و تاب سے اٹھا تھا۔ انہیں بڑا قلق اور اضطراب تھا کہ ان کے خزاں رسیدہ چمن میں کوئی رومی نہیں اٹھا۔ رومی کو زندگی بھر قلق رہا کہ وہ سنائی و عطار کے غیاب کے زمانے میں پیدا ہوئے ہیں۔ ع: ”ما از پئے سنائی و عطار آمدیم“ اور اقبال کو اس بات کا قلق رہا کہ وہ رومی کے بھی بہت بعد وجود کے لباس میں جلوہ گر ہو سکے۔ ع: ”نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے“ غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ جب سنائی و عطار کے لیے رومی کی حسرتوں اور پھر خود رومی کے لیے اقبال کی حسرتوں کا عالم یہ ہے تو پھر رسول اور اصحاب رسولﷺ کے لیے ان کی حسرتیں کس قدر قیامت خیز رہی ہوں گی۔ ان حسرتوں نے انہیں کیا کیا نہ مضطرب اور بے چین کیا ہوگا۔

اقبال مشرق و مغرب کے مے خانوں میں، بہار نو کے گہواروں میں اور خزاں رسیدہ چمنستانوں میں، ہر جگہ گھوم پھر آئے مگر ان کے دل کا قرار نہ یہاں تھا اور نہ وہاں، انہیں یہ بھی آدھا ادھورا سا لگا اور وہ بھی ناقص و نامکمل۔ تاہم انہوں نے اپنی دور بیں نظر اور حاضر و موجود سے پرے دیکھنے والی نگاہ کے ذریعہ جان لیا تھا کہ ادھر کیا نقص ہے اور ادھر کیا کمی ہے۔ اور وہ پکار اٹھے، ع: ”یہاں ساقی نہیں پیدا، وہاں بے ذوق ہے صہبا“ ۔ باوجود اس کے کہ اقبال کی ساری زندگی کھوئے ہوؤں کی سرگزشت ہے تاہم وہ ماضی کی بھول بھلیوں میں کھو جانے والے نہ تھے اور نہ ہی ’آج‘ کی سرمستیوں سے بدمست ہو جانے والے تھے بلکہ ان کی دوربیں نگاہیں آئندہ کل پر رہتی تھیں۔

ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں
فکر فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں

کم وبیش یہی حال مولانا علی میاں مرحوم کا بھی تھا، وہ بھی ایک اجڑے گلستاں کے بلبل نالاں تھے، مگر اقبال ہی کی طرح وہ بھی یہ یقین رکھتے تھے کہ اس گلستاں میں ایک بار پھر بہار آئے گی، پھول کھلیں گے اور قمریاں نغمہ زن ہوں گی۔ گلستاں کی ویرانیوں نے انہیں نا امیدی اور مایوسی کی اندھیری غار میں نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس کے بصیرت افروز تجزیے سے ان کے اندر بیدار رہنے اور قوم و کارواں کو بیدار کرنے کی امید کی شمع روشن ہوئی۔

انہوں نے بھی کھوئے ہوؤں کی جستجو کی اور ”تاریخ دعوت و عزیمت“ جیسی معرکۃ الآراء کتاب لکھی۔ ان کی راتیں بھی اسی کشمکش میں گزرتی تھیں کہ کبھی رومی کا سوز و ساز ان کا لہو گرماتا تھا اور کبھی رازی کا پیچ و تاب انہیں مضطرب رکھتا تھا۔ انہیں بھی بڑی شدت کے ساتھ یہ احساس تھا کہ عجم کے لالہ زاروں سے پھر کوئی رومی نہیں اٹھا۔ اور وہ بندے جن کا فقر قیصر و کسریٰ کے لیے موت کا سبب تھا اب ایران سے توران تک کہیں موجود نہیں ہیں۔ اور اس کا خسارہ نہ صرف مسلمان بلکہ ساری دنیا اور کل انسانیت بھگت رہی ہے، اسی احساس نے ان سے ”ماذا خسر العالم۔“ لکھوائی۔

اقبال نے مغربی تہذیب کو خبردار کیا اور کہا، ع: ”تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی“ مولانا نے بھی مغربی تہذیب پر عالمانہ تنقید کی اور صاف صاف کہا کہ جو تہذیب اپنا رشتہ خدا سے استوار رکھنے کے بجائے مادیت کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لے گی وہ زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکتی اور اگر رہے گی بھی تو تباہی و بربادی لائے گی۔ انہوں نے جگہ جگہ اور جا بجا اہل مغرب سے خطاب کیے اور ان پر یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ ان کی تہذیب کس طرح خود کشی کی راہ پر چل پڑی ہے۔ اور پھر وقت کے سات ہی ساتھ ان کی اکثر کتابیں مغرب پر تنقید سے بھر گئیں۔ جبکہ ”ماذا خسر العالم۔“ ”مغرب سے کچھ صاف صاف باتیں“ اور ”مغرب اور اسلام“ تو مغرب کی تنقید پر مستقل کتابیں ہیں۔

مولانا نے بھی مشرق و مغرب کے مے خانے دیکھے تھے اور علم و بصیرت کی روشنی میں ان کی تہذیب و تمدن کا جائزہ لیا تھا اور انہیں بھی بجا طور پر احساس تھا کہ مشرق و مغرب دونوں جہانوں میں ایک خلا ہے، دونوں طرف کسی نہ کسی چیز کمی اور نقص ہے، خاص کر وہی جس کی طرف اقبال نے اشارہ دیا تھا کہ یہاں مشرق میں ساقی نہیں یعنی صاحب قرآنی شخصیت کے حامل قائد نہیں اور اعلی قدروں پر استوار قیادت نہیں۔ دوسری طرف مغرب میں ساقی بھی ہے اور صہبا بھی، مگر ساقی اعلیٰ اخلاقیات کا حامل نہیں اور صہبا میں وہ نشہ نہیں جو پینے والے کو دیوانہ بنا دے۔

مغرب کی تہذیب، سیاسی اخلاقیات، اور مذہبی تعلیمات و روایات ہی کم مایہ و فروتر ہیں، اب انہیں سونے کے گلاس میں پیش کیا جائے یا شیشے کے صراحی میں اور خواہ ساقی خود کتنا بھی ہنرمند اور سلیقہ شعار ہو، کسی چیز کا کچھ حاصل نہیں جبکہ اس میں وہ نشہ ہی نہ ہو جو طبیعت کو دوآتشہ بنا سکے، جو معرفت الٰہی کا درس دے سکے اور خالق و مخلوق کے درمیان رشتے کو مستحکم کرسکے۔

مولانا کو بھی مشرقی دینی تعلیم و تربیت پر، دل درد مند کے ذوق و شوق پر، اہل اللہ کے خلوص و للٰہیت پر اور ان کی ایمانداری و جانثاری پر ایسا ہی اعتماد اور ایسا ہی بھروسا تھا کہ وہ اس بھروسے اور اعتماد کو دنیا و آخرت کی متاع بیش بہا تصور کرتے تھے اور دل سے چاہتے تھے کہ ان کے اپنے کارواں میں انہیں سب چیزوں کی فراوانی و ارزانی ہو۔ وہ اقبال کی طرح بہت دل سے یہ چاہتے تھے کہ اپنے قلب و نظر اور فکر و عمل کی ساری خوبیاں، ساری آرزوئیں اور ساری نیاز مندیاں یک لخت جمع کریں اور اپنے قافلے پر اس طرح لٹا دیں جس طرح نوشے میاں پر پھول اور پیسے لٹائے جاتے ہیں۔

مرے دیدۂ تر کی بے خوابیاں
مرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں
مرے نالۂ نیم شب کا نیاز
مری خلوت و انجمن کا گداز
امنگیں مری، آرزوئیں مری
امیدیں مری، جستجوئیں مری
مری فطرت آئینۂ روزگار
غزالان افکار کا مرغزار
مرا دل، مری رزم گاہ حیات
گمانوں کے لشکر، یقیں کا ثبات
یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر
اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر
مرے قافلے میں لٹا دے اسے
لٹا دے، ٹھکانے لگا دے اسے!

یہی وہ شوق و محبت ہے اور یہی وہ بے چینی و اضطراب ہے جس نے مولانا کی تحریروں میں ریشم جیسی ملائمیت، شبنم جیسی ٹھنڈک اور شہد جیسی شیرینی بھر دی ہے۔ غالب نے کہا ہے :

حسن فروغ شمع سخن دور ہے اسدؔ
پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی

دل گداختہ کے بغیر کسی بھی قسم کے سخن، کلام میں اور کسی بھی قسم کی تحریر میں حسن و زیبائی پیدا نہیں ہو سکتی اور شیرینیاں نہیں گھولی جا سکتیں۔ اور توفیق ایزدی سے مولانا مرحوم کو یہ صفت وافر مقدار میں عطا ہوئی تھی، تبھی یہ ممکن ہوسکا کہ ان کی تحریروں میں محبتیں اور لطافتیں، عشق اور سرمستیاں اس طرح بھر گئی ہیں کہ : ”شاخ گل میں جس طرح باد سحرگاہی کا نم“

رومی نے شمس تبریز کے لیے کہا کہ رومی ان سے ملاقات سے پہلے محض ایک خاک کا ذرہ تھا:
مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تا غلام شمس تبریزی نہ شد
اور اقبال نے رومی کے لیے کہا کہ رومی نے خاک اقبال کو اکسیر کر بنا دیا:
پیر رومی خاک را اکسیر کرد
از غبارم جلوہ ہا تعمیر کرد

اور ہم نے بارہا مولانا کی زبانی سنا، وہ طلبہ و اساتذہ سے اکثر کہا کرتے تھے کہ کسی نہ کسی کو اپنا روحانی سرپرست اور پیشوا مان کر چلو۔ اگر زندوں میں کوئی زندہ دل دستیاب نہ ہو سکے تو فوت شدگان میں سے کسی کو اپنا روحانی اور اعتقادی و علمی رہنما تسلیم کرلو۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ عشق و محبت کے عناصر دلوں سے دلوں کی طرف منتقل ہوتے ہیں، مجرد علم اور معریٰ کتابیں یہ عناصر پیدا نہیں کر سکتیں۔ پاجا سراغ زندگی سے یہ اقتباس دیکھیں :

”۔ آپ اپنی زندگی کے لیے ایک شخصیت کا انتخاب کر لیں، یہ حقیقت ہے کہ چراغ سے چراغ جلتا ہے، اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ کوئی بھی مخلص بندہ آپ کو کہیں مل جائے تو اس کو آپ اپنا رہنما مان کر اپنی زندگی کی نئی تعمیر شروع کریں، اس میں آپ کو پورا پورا اختیار ہے کہ جس کو چاہیں اور جہاں چاہیں ایشیا یا ایشیا کے باہر دنیا کے کسی بھی گوشہ میں آپ اس کو دریافت کر لیں، بلکہ میں آگے بڑھ کر یہاں تک کہتا ہوں کہ زندوں میں آپ کو کوئی ایسا نظر نہ آئے تو ماضی کی شخصیتوں میں اس کو تلاش کیجئے اور جہاں ک ہیں یہ بندۂ خدا آپ کو ملے، اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیجئے اور کچھ دنوں تک اس کی ہر چیز کو اپنے اندر منتقل کرنے کی کوشش کیجئے، انسان میں یہ صفت بہت نمایاں طور پر ہے کہ وہ جس چیز کو چاہتا ہے، اس کو نقل کر لیتا ہے، آپ اس کی ہر چیز کی نقل اتاریے اس کے بعد آپ بڑے ہوسکتے ہیں، آپ اس سے آگے بھی نکل سکتے ہیں، اور ایسی جگہ بھی پہنچ سکتے ہیں جہاں آپ کو اس تعلق کی ضرورت نہ ہوگی، اگر چہ یہ بات بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔“ (پاجا سراغ زندگی، صفحہ نمبر: 35 )

اور شیخ سعدی نے تو کہا ہی ہے :
جمال ہمنشیں درمن اثر کرد
وگرنہ من ہمہ خاکم کہ ہستم

اگر مضمون کی طوالت کا خوف نہ ہوتا تو ہم مولانا مرحوم کی مشہور و معروف کتاب ”انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر“ کے ساتویں باب سے وہ چند صفحات ( 397 تا 403 ) ضرور نقل کرتے جو مولانا نے ”عالم اسلامی کا پیغام“ کے ذیلی عنوان کے تحت تحریر فرمائے ہیں۔ اس میں مولانا کے قلم کی جولانی اور طبیعت کی روانی اپنے عروج پر پہنچی ہوئی ہے۔ اگر آپ کو موقع ملے تو ضرور ان صفحات کا مطالعہ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments