افغانستان سے امریکی انخلاء اور پاکستان


قارئین آج تک میری طرح آپ نے بھی کئی سو مرتبہ دہشت گردی کا نام سن رکھا ہو گا۔ اگر آپ پاکستان، افغانستان، عراق اور شام جیسے ممالک میں رہتے ہیں یا ان کے متعلق اخبار میں خبریں پڑھتے رہتے ہیں تو پھر تو آپ کو اس لفظ ”دہشت گردی“ کے بارے میں خوب جانکاری حاصل ہو گی۔ پاکستان افغانستان، عراق اور فلسطین کا تو بچہ بچہ اس لفظ سے واقف ہے اور ہو بھی کیوں نہ کیونکہ ان بیچاروں نے اس لفظ کی آڑ میں ڈھیروں دکھ سہے ہیں۔

میں تو آج تک یہ نہیں سمجھ پایا کہ دہشت گردی کس بلا کا نام ہے؟ ایسے کون سے پیرامیٹرز ہیں جو کہ یہ فیصلہ کریں کہ فلاں فلاں دہشت گرد ہیں اور دوسرے امن پسند۔ یونیورسٹی میں پڑھتے ہوئے پروفیسرز حضرات اور مہمان خصوصی سے بھی اکثر سیمینارز میں میں یہی سوال کیا کہ دہشت گردی کیا ہے اور کن لوگوں کو ہم دہشت گرد کہہ سکتے اور کن بنیادوں پر؟ لیکن آج تک کسی نے غیر جانبدار ہو کر واضح طور پر یہ نہیں کہا کہ فلاں فلاں بندہ، گروہ اور ملک دہشت گرد ہے۔

اسی طرح یونیورسٹی میں کئی دفعہ میں نے پروفیسرز حضرات اور ماہرین سے یہ پوچھنا چاہا کہ یہ جو ہم سی پیک کی مد میں اتنا پیسہ لے رہے ہیں کیا یہ قرضہ ہے؟ کیا یہ امداد ہے؟ اگر قرضہ ہے تو اس ہم کیسے واپس کریں گے؟ اگر امداد ہے تو اس کے ساتھ اور کون کون سی شرائط وابستہ ہیں؟ لیکن اس سوال کا خاطر خواہ جواب کہیں سے نہ ملا بلکہ اک قومی سطح کے سیمینار میں تو اک ماہر خاتون سپیکر کہنے لگی کہ آپ کے ان سوالات کا جواب احسن اقبال ہی دے سکتا ہے۔

خیر بات ہو رہی تھی دہشت گردی کی تو آج تک میرے حقیر سے دماغ نے اس بارے میں جو سوچ و بچار کی اس کے مطابق اک ہی نقطے پر پہنچ پایا کہ جدید دنیا میں جس کسی انسان، گروہ اور ملک نے امریکہ اور ان کے حامی ممالک کی پالیسیوں کی مخالفت کی وہ دہشت گرد قرار پایا۔ اور اگر یہ انسان، گروہ اور ملک مسلمان ہے تو پھر تو دہشت گردی کی مہر بلا شک و شبہ پکی۔ آپ افغانستان کی مثال لے لیں جب اسی خطہ کے لوگ خاص طور پر مسلمان یکجا ہو کر امریکی آشیرباد تلے سوویت یونین کے خلاف خانہ جنگی میں شامل ہوئے تو امریکہ کی نظر میں تب ان مجاہدین سے بڑھ کر کوئی شریف اور ایماندار نہیں تھا۔

دوسری جانب اس وقت امریکی نظر میں سوویت یونین سے بڑا کوئی دہشت گرد نہ تھا۔ لیکن پھر کیا ہوا انہی مجاہدین کی بدولت جب سوویت یونین کو افغانستان میں شکست ہوئی تو وقت گزرنے ساتھ ساتھ یہی مجاہدین جو کہ امریکی آنکھ میں شریف النفس اور سادگی کا استعارہ تھے دہشت گرد بن گئے۔ 9 / 11 حملوں کے بعد تو یہ دہشت گردی کے عروج میں پہنچا دیے گئے کیونکہ امریکہ کے بقول ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون کے حملوں میں یہی لوگ ملوث تھے اور انہی کی وجہ سے قتل و غارت میں بہت اضافہ ہوا۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر انہوں کی قتل و غارت کی وجہ سے یہ دہشت گرد کہلائے گئے تو ان کو اس قتل و غارت پر لگایا کس نے؟ ان کو مختلف ممالک سے اکٹھا کر کے ٹریننگ کس نے دی؟ ان کو فنڈنگ کہاں سے ہوئی؟ اگر قتل و غارت کی وجہ سے یہ دہشت گرد کہلائے گئے تو جب انہوں نے سوویت یونین کی فوجوں کی قتل و غارت کی تب وہ کیا تھا؟

دوسری جانب آ جائیں آپ پاکستانی مسلمانوں کی طرف۔ ان جیسا بھی لائی لگ آپ نے کم ہی دیکھا ہو گا کہ جہاں بھی کسی مسلمان نے کسی ملک میں کوئی کارنامہ سر انجام دیا ہو گا تو یہ اس کو خواہ مخواہ اپنے پلڑے میں ڈال کر شیخیاں مارتے پھریں گے۔ معاشرتی نظریات کو پڑھتے ہوئے اک جگہ علامہ ابن خلدون کا ذکر آیا تو کئیوں سے سنا کہ ہمارا ابن خلدون۔ ارے بھائی وہ اک عرب فلاسفر تھا جس کا دور دور تک ہمارے سے کوئی تعلق نہیں سوائے اک مذہب کے اور عرب والے ویسے بھی ہمارے جیسے عجمیوں کے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں ہم اس سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔

مطلب یہ کہ خود میں کچھ کرنا نہیں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا اور دور دراز کی رشتہ داری میں خواہ مخواہ اپنا تعلق ڈھونڈتے رہنا ہمارا پاکستانی مسلمانوں کا بہترین مشغلہ تھا بھی اور ہے بھی۔ ہمارا محمد بن قاسم، ہمارا طارق بن زیاد، ہمارا اکبر ہماری مغلیہ سلطنت، ہمارے خلافت عثمانیہ وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح جب مشرقی پاکستان میں جنگ چل رہی تھی تو وہاں کا نیازی صاحب خود تو کچھ کرنے سے قاصر تھا لیکن امید لگائے بیٹھا تھا کہ مغربی پاکستان دہلی فتح کر لے گا اور اس طرف کے جنرل کا تو سب کو بخوبی معلوم کہ اس کی اپنی ذاتی مصروفیات ہی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی تھیں اور آخر کیا ہوا اک دوسرے پر امید باندھی نہ ادھر کے نہ ادھر کے۔

یہی جذباتیت پاکستانیوں میں طالبان کے معاملے میں پائی جاتی ہے۔ موجودہ دور میں امریکہ بڑی تیزی سے اپنا بوریا بستر گول کر کے افغانستان سے نکل رہا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ 9 ستمبر 2021 تک افغانستان سے امریکی انخلاء مکمل ہو جائے گا۔ اب مسئلہ افغانستان کا اور امریکہ کا ہے۔ امریکی یہاں سے جا رہے ہیں اور افغانستان میں اک خلا پیدا ہو رہا ہے لیکن ایسے لگتا ہے کہ اتنی پریشانی افغانیوں اور امریکیوں نہیں جتنی پاکستانیوں کو ہے۔

وہ طالبان کا کیا بنے گا؟ افغانستان حکومت کا کیا ہوگا؟ طالبان کی بہادری کے قصوں کو خواہ مخواہ اپنی بہادری تصور کیے جا رہے ہیں۔ یا پھر افغانستان حکومت کے بارے میں فضول میں پریشان ہوئے جا رہے ہیں۔ ان سے اتنی ہمدردی کرنے سے پہلے یہ تو سوچ لیں کہ وہ ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ وہ افغان حکومت جس کی ہمیں بڑی فکر پچھلے بیس سالوں سے انڈیا کے ساتھ ہاتھ ملائے ہوئے ہیں۔ وہ طالبان جن کی بہادری کے قصے سنائے جاتے ہیں وہ بارڈر پر لگنے والی باڑ سے اتنے پریشان کیوں ہیں؟

پاکستان۔ افغانستان بارڈر پر ہونے والی جھڑپوں کے پیچھے کون ہیں؟ طالبان، افغانستان حکومت یا پھر انڈیا؟ تو سوال یہ ہے کہ جن کے بارے میں ہمیں اتنی فکر ہے انہیں تو ہماری ٹکے کی پرواہ نہیں؟ جن کی وجہ سے ہمارے پاکستانیوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے بدلے میں وہ ہمارے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟ دوسری جانب جس امریکہ کے لیے یہاں مجاہدین کو اکٹھا کیا گیا ان کو ٹریننگ دی گئی، بعد میں جسے خود امریکہ نے دہشتگرد بنا کر پیش کیا اس سے ہمیں کیا حاصل ہوا؟

اب آ جائیں پاکستان کے حالات حاضرہ کی جانب۔ پاکستان نے امریکہ کو اڈے دینے سے واضح انکار کر دیا۔ اس کے بھی پاکستان پر دو طرح کے اثرات مرتب ہو سکتے۔ پہلا تو یہ کہ عمران خان کے اس بیان نے پاکستانی عوام کے دل جیت لیے لیکن یہ بھولے بھالے لوگ یہ نہیں جانتے کہ اک بین الاقوامی سسٹم میں جذباتیت سے بالاتر ہو کر فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ عمران خان نے نہ کی بہت اچھا کیا۔ کاش کہ پاکستان کے حکمران شروع دن سے یہی رویہ اپناتے تو ہمیں آج یہ دن دیکھنے نصیب نہ ہوتے۔

آج ہمارا بھی اس دنیا میں اک مقام ہوتا۔ لیکن دوسری جانب مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان نے امریکہ کو نہ تو کر دی تو کیا ہم اس کا خمیازہ بھگتنے کے لیے تیار ہیں؟ اک ایسا ملک جس کی معیشت چل ہی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ذریعے رہی ہو وہ اتنی ہمت کر سکتا؟ اس کا ری ایکشن تو ضرور آنا ہے جس کے لیے پاکستان تو تیار رہنا ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ اک اور ڈیویلپمنٹ یہ ہوئی ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات پھر بحال ہو رہے جو کہ پیچھے سرد مہری کا شکار ہو گئے تھے۔

اس کی بڑی وجہ امریکی صدر کی تبدیلی ہے۔ کیونکہ سعودی عرب کے ڈونلڈ ٹرمپ کر ساتھ انتہائی اچھے تعلقات تھے لیکن جو بائیڈن کے آنے کے بعد امریکہ کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات ویسے نہیں رہے۔ اس سارے منظر نامے میں چین اور روس کو بھی قطعاً نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ چین کے پاکستان کے ساتھ پہلے سے ہی انتہائی اچھے تعلقات ہیں اور حالیہG۔ 7 کے اجلاس کے اعلامیہ کے بعد چین روس اور پاکستان اک دوسرے کے مزید قریب آرہے ہیں۔

کیونکہ اس G۔ 7 اجلاس کا اہم مقصد چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنا تھا۔ پاکستان نے ایسے ہی امریکہ کو نہ نہیں کہی اسے کسی دوسرے ملک سے پوری حمایت کا اشارہ ملا ہے تو ہی ایسے اقدامات کیے گئے ہیں۔ اب تو پھر سے سعودی عرب کے ساتھ بھی ڈیل ہو رہی ہے جو کہ پھر پاکستان کو اربوں ڈالر دینے جا رہا ہے۔ اب پاکستان کو قطعاً ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ ہمیشہ کی طرح دوسرے ممالک کی امداد کے مرہون منت رہے بلکہ اس کو اپنے لوکل سورسز پیدا کرنے چاہیے ایسا نہ ہو جو تاریخ میں امریکہ ہمارے ساتھ کرتا آیا ہے وہ آگے مستقبل میں چین کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments