زائر حرمین ___ پارٹ ٹین ___ زیارات مدینہ


میں ہوٹل لوٹی تو میز پر ایک عدد فلائیر موجود تھا جس میں مدینہ سائٹ سینگ بس اور اس بس کے توسط سے دکھائے جانے والے مقامات کی تفصیل درج تھی۔ میرے لیے اس سے خوش کن چیز اور کیا ہو سکتی تھی۔ طے پایا کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مقامات کی زیارت کا شرف حاصل کرتے ہیں۔

اگلا دن میرے لیے مدینہ کے سفر کے یادگار ترین دنوں میں سے ایک ثابت ہوا۔ ہم نے مدینہ کی سائٹ سینگ بس کے ٹکٹ لیے اور سٹی ٹور کی اس ڈبل ڈیکر بس میں سوار ہو گئے۔ ایک ٹکٹ چوبیس گھنٹے کے لیے کارآمد ہوتا ہے۔ آپ چاہیں تو کسی ایک مقام پر جا کر اتر جائیں۔ جتنا وقت لگا کر وہ مقام دیکھنا چاہیں، دیکھیں اور اگلی بس پکڑ کر چاہیں تو اگلا مقام دیکھنے چلے جائیں یا واپس آ جائیں۔ ان چوبیس گھنٹوں میں بسیں قریباً گیارہ بارہ گھنٹے رواں دواں رہتی ہیں۔

اوقات کار انفارمیشن فلائیر اور ٹکٹ پر درج ہوتے ہیں۔ اس بس کی ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ کو ٹکٹ کے ساتھ ہینڈز فری بھی دیے جاتے ہیں جو کہ آپ اپنی سیٹ سے منسلک آڈیو بورڈ میں لگا سکتے ہیں۔ اس آڈیو بورڈ سے نشر ہونے والی آڈیو سروس دنیا کی سولہ مقبول ترین زبانوں میں دوران سفر دکھائے جانے والے مقامات کی مختصر تاریخ بیان کرتی ہے۔ یعنی اگر کسی مقام کی تاریخی حیثیت آپ کے ذہن سے محو ہو چکی ہے تو آپ کو ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ یہ سروس از خود مختصر لیکن جامع انداز میں ایک تعارف دے دے گی۔

سفر جنت البقیع کے طائرانہ ویو سے شروع ہوا۔ قرآن میوزیم اور ریلوے میوزیم کے پاس سے گزرتے ہوئے پہلا سٹاپ میدان احد پر ہوا۔ میدان احد ہی وہ مقام ہے جہاں غزوہ احد کا تاریخی معرکہ ہوا تھا۔ یہاں ایک پست قد پہاڑی تھی جس کی چوٹی تک جانے کو پہاڑی تراش خراش کر سیڑھیاں بنائی گئی تھیں۔ زائرین سیڑھیوں سے اور بغیر سیڑھیوں کے اوپر جا رہے تھے۔ ہم بھی دیگر زائرین کے ساتھ سیڑھیوں سے اوپر کو ہو لیے۔ چند منٹوں میں ہم پہاڑی کی چوٹی پر تھے۔

میں نے سوچا یہ پہاڑی اتنی پست قد ہے اس پر تو لڑائی نہیں لڑی گئی ہو گی۔ بعد میں بس کی ریڈیو سروس کے توسط سے عقدہ کھلا کہ اصل پہاڑ کو کاٹ کر زائرین کی آسانی کے لیے چھوٹا کر کے منحوط کر دیا گیا ہے۔ احد کے پہاڑ کے متعلق روایات ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا ہے کہ ”احد“ جنت کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہے، وہ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ اسی احد کی لڑائی میں آنحضرت ﷺ کے دو دندان مبارک بھی شہید ہوئے تھے۔ چودہ سو سال قبل میسر سہولیات، موسم کی سختی اور ہمارے نبی ﷺ کی اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی اور اپنی امت سے محبت کو سوچ کر آنسو روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔

پہاڑی کے دامن میں ایک بازار ہے جہاں زائرین مختلف اشیاء کی خرید و فروخت میں مصروف نظر آتے ہیں۔ بازار کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک چکر مکمل کے بعد بھی جب دیگر افراد خانہ کو شاپنگ میں مصروف پایا تو میں نے میدان احد کی مسجد کی جانب قدم بڑھا دیے۔ قریب جانے پر معلوم ہوا کہ یہ مسجد بھی مقفل ہے۔ سو باہر باہر سے ایک جائزہ ہی ممکن ہو سکا۔ کچھ تصویر کشی کی۔ مسجد سے واپسی پر دور نظر آتے پہاڑوں نے اپنی جانب پکارا۔ جی میں آئی کہ انہیں بھی قریب سے جا کر دیکھا جائے لیکن وقت کی تنگی نے ایسا کچھ کرنے سے روک لیا۔

اس سے اگلا سپاٹ ہائپر پانڈا مال تھا۔ نماز ظہر کا وقت تھا اس لیے دکانیں خرید و فروخت کے لیے میسر نہ تھیں۔ جتنا چکر لگایا، اس میں اکثریت نامی گرامی بین الاقوامی برانڈز کی ہی نظر آئی۔ مجھے لگتا ہے دنیا کے تمام شاپنگ مالز ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔ ہر مال میں وہی برانڈز، وہی مال میں پھیلی خوشبوئیں، وہی میوزک (یہاں اس وقت میوزک نہیں تھا، ممکن ہے ہوتا ہی نہ ہو، ممکن ہے نماز کے اوقات میں بند ہوتا ہو) ، مال کے اندر کا موسم، مال کے باہر کے موسم سے یکسر بے نیاز۔ اور وقت، وقت جیسے اپنے ہونے کا احساس کھو دیتا ہے۔ صبح، دوپہر، رات۔ ہر وقت مصنوعی روشنیاں دن کا سا سماں کیے رکھتی ہیں۔

ہائپر پانڈا سے نکلے تو مسجد قبلتین جا پہنچے۔ مسجد قبلتین کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ سن دو ہجری میں دوران نماز مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس سے تبدیل کر کے خانہ کعبہ کر دیا گیا تو حضور ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دوران نماز ہی اپنا رخ بیت المقدس سے کعبہ کی طرف موڑ لیا۔ سفید اور سنہری رنگوں کے امتزاج سے سجائی گئی یہ مسجد اسی نسبت سے مسجد قبلتین (دو قبلوں والی مسجد) کہلاتی ہے۔ باہر سے البتہ یہ مکمل طور پر سفید رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ دو میناروں اور دو گنبدوں والی اس خوبصورت مسجد کی منزلیں بھی دو ہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments