سہیل عظیم آبادی کی افسانہ نگاری


افسانہ ایک ایسی نثری، تخلیقی و بیانیہ صنف ہے جو انسانی حیات کے کسی ایک پہلو کو قاری کے سامنے پیش کرتا ہے مگر اس رنگ و روغن کے ساتھ کہ واقعہ اور احساس کی سطح پر تشنگی کا احساس نہیں ہوتا، ساتھ ہی قاری کے ذہن اور طبیعت کی سیری بھی ہو جاتی ہے۔ بالکل گلاب کی اس کلی کی مانند جو ایک پورے گلاب کی جزئیات اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہوتی ہے۔

افسانہ کی صنفی تعریف کے مطابق نا ہی وقت کی تنگی کی شکایت اور نا ہی اس کے زیاں کا احساس مصروف ترین اور عدیم الفرصت قاری کے ذہن کو کچوٹتا ہے۔ ایک افسانہ اور افسانہ نگار کا تعلق بھوک اور غذا کا سا ہوتا ہے۔ ایک اچھے افسانہ نگار کی بھوک اس سے اچھے افسانے تخلیق کرواتی ہے۔

کسی افسانہ یا افسانہ نگار کے اچھے ہونے کی یوں تو بہت ساری ادبی کسوٹیاں ہیں جن پر کس کر کسی افسانہ یا افسانہ نگار کو ادبی اور غیر ادبی کی سند دی جاتی یا دی جا سکتی ہے مگر ادب نواز عوام الناس کے درمیان جس پیمانہ پر اس کو تولا یا کسا جاتا ہے وہ ہے کہ افسانہ کس حد تک عوام کے ذات سے جڑا ہوا ہے، اور عوامی شعور کی کس حد تک ترجمانی کر پا رہا ہے، سیاسی سماجی، معاشرتی مسائل پر افسانہ نگار کی کتنی نگاہ و پکڑ ہے اور فن پر گرفت رکھتے ہوئے وہ اسے کس حد تک نبھا پا رہا ہے۔

ان تمام باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم پاتے ہیں کہ سہیل عظیم آبادی ایک کامیاب افسانہ نگار ہیں۔

سہیل عظیم آبادی ایک ایسا سیلانی بادل تھا جو جلائی 1911 میں عظیم آباد کی ادبی سرزمین سے اٹھا اور تقریباً نصف صدی تک عالم ادب پر اپنے فکر و فن کی جولانی بکھیرتا ہوا نومبر 1979 کو ملک عدم کو روانہ ہو گیا۔

بہار کی ادبی تاریخ کا ایک ایسا نام جس نے سماج کے دبے کچلے، مزدور، کسان، غریب عوام کو اپنی تحریروں میں خصوصی جگہ دی۔ یا شاید یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ان کی تحریر خصوصاً افسانوی تحریر سماج کے ان بے زبانوں کی زبان بن کر سامنے آئی، زمیندارانہ مزاج سماج نے جن کے دیکھنے، سننے اور بولنے پر پابندیاں لگا رکھی تھیں۔ مگر ان کردار اور موضوعات کے علاوہ انہوں نے انسان اور انسانی زندگی کے دوسرے مسائل اور درمیانہ طبقے کے افراد پر بھی بہت سی کہانیاں لکھیں۔ شاید یہ بات حقیقت کے زیادہ قریب ہے کہ انہوں نے کسانوں اور مزدوروں سے زیادہ سماج کے درمیانہ طبقے اور اس کے کردار کے معاشرتی، معاشی اور نفسیاتی مسائل پر قلم اٹھایا۔

سہیل عظیم آبادی کا اصل نام مجیب الرحمن تھا اور وہ سید خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔ یوں تو ان کا آبائی گھر شاہ پور، بھدول، ضلع پٹنہ ہے لیکن ان کی پیدائش پٹنہ سٹی، جو کہ حال میں { اقبال ہاسٹل پٹنہ یونیورسٹی } میں تبدیل ہو گئی ہے، ہوئی۔ ان کی تاریخ پیدائش اور جگہ پیدائش کے بارے میں محققوں کے درمیان بہت سارے اختلافات ہیں مگر ان اختلافات کے درمیان سہیل عظیم آبادی اپنا تعارف خود پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

”نام مجیب الرحمن ہے۔ لیکن سہیل عظیم آبادی کے نام سے مشہور ہوں۔ بہار کے ایک زمیندار گھرانے میں 1911 میں پیدا ہوا۔ تاریخ پیدائش معلوم نہیں ہے“

(تعارف۔ سہیل عظیم آبادی، ماہنامہ ”شاعر“ ، بمبئی، ناولٹ نمبر، صفحہ 194 )

بچپن کا عرصہ ننہیال ( موضع سلیم پور، گیا ) میں گزرا اس لیے قصباتی زندگی اور اس کے مسائل کو انہوں نے بہت قریب سے دیکھا جس کے اثرات ان کے ذہن میں تا حیات کندہ رہے۔

بچپن کے نانیھالی دنوں کے بعد وہ اپنی تعلیم کے سلسلے میں مظفر پور، پٹنہ اور کلکتہ میں رہائش پذیر رہے جبکہ معاش کے سلسلے میں چھوٹا ناگپور، سری نگر، اور دہلی کے مکانوں کے مکین بنے۔

یہ حقیقت ہے کہ ہر تخلیق کار اپنے سماج اور اپنے لوگوں کا ترجمان ہوتا ہے اور اپنی تحریروں میں اپنے سیاسی، سماجی، معاشرتی اور دیگر معاملات کی عکاسی کرتا ہے نا کہ دور دیس کی ماورائی کرداروں و باتوں کی خبر لاتا ہے۔ چونکہ افسانے کا موضوع زندگی ہے اور وہی زندگی ہے جو لکھنے والے کے اندر پوشیدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سہیل عظیم آبادی نے بھی شعوری طور پر اپنے افسانوں میں ان زمینوں اور زندگی کے ان مسئلوں کی طرف رخ کیا ان کا واسطہ جن زمینوں اور لوگوں سے رہا۔ ان کے افسانوں کی فضا میں گاؤں کے ساتھ ساتھ چھوٹے قصبے اور ٹاؤن کا خمیر بھی شامل ہے، ان کے کرداروں میں، رانی، پھگوا اور بوڑھی بفاتن کے علاوہ راجیش، پروفیسر رشید اور چندر جیسے کردار بھی شامل ہیں جنہوں نے قصباتی سماج کے ساتھ ساتھ چھوٹے شہروں کی بھی ترجمانی کی۔

ہاں انہوں نے دیہی زندگی پر لکھا اور خوب لکھا اور اس کی شروعات 1940 میں شائع ہونے والے ان کے پہلے افسانوی مجموعے الاو (جو کہ مکتبہ اردو لاہور چھپا تھا) سے ہوئی۔ ان کے اس پہلے افسانوی مجموعے میں جو چنگاری نظر آتی ہے اس کی دو بڑی تشکیلی وجہیں یہ ہیں کہ ایک تو وہ پریم چند، سدرشن، علی عباس حسینی اور چیخوف و ٹالسٹائی جیسے پہلی، دوسری صف کے قلم کاروں سے بے حد متاثر رہے اس کے علاوہ ترقی پسند تحریک کی فضا نے بھی ان کے ذہن کو ایک خاص فکر میں ڈھالا، جبکہ دوسری وجہ یہ رہی کہ ان کی پرورش و پرداخت اسی سماج میں، انہیں روایتوں اور رسم و رواجوں کے بیچ میں ہوئی تھی۔

انہوں نے دیکھا تھا کہ زمیندار اور پٹواریوں کا سماج کس طرح غریب مزدور اور کسان کی محنت پر اپنی عیاشیوں کا قصر تعمیر کرتا ہے۔ انہوں نے اس سماج کے طبقاتی فرق اور اس کے اثرات کو بہت قریب سے دیکھا اور محسوس کیا تھا، جس وجہ کر گاؤں کی زندگی کس قدر دشوار ہے اور اس کے مسائل کتنے سنجیدہ ہیں اس چیز کا انہیں شدت سے احساس ہوا اور پھر ان کا اندرون ان کے قلم کو اس سمت میں لے کر بہتا چلا گیا۔

انکے یہاں خاص طور سے قصباتی زندگی اور اس کے مسائل کا ادراک اتنا زیادہ کیوں ہے، اس کا اندازہ ان کے اس ایک اقتباس سے بھی ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :۔

”بچپن میں گاؤں کے لڑکوں سے ملنے سے روکا جاتا تھا اس سے غیر شعوری طور پر سماجی ڈھانچے سے نفرت پیدا ہو گئی جو عمر کے ساتھ بڑھتی گئی اور جیسے جیسے شعور بڑھتا گیا ان سماج کی پابندیوں اور غیر مساویانہ پابندیوں سے نفرت ہوتی گئی“ ۔

(سہیل عظیم آبادی اور ان کے افسانے صفحہ، 2، 3)

اس حقیقت سے رو گردانی ممکن نہیں کہ جس طرح دنیا کے دوسری زبانوں کے تخلیق کار بطور خاص روسی تخلیق کار چیخوف اور ٹالسٹائی وغیرہ نے روس کے سماجی و سیاسی مسائل کو اپنی تحریروں میں جگہ دی، اسی طرح پریم چند جو ہندستانی اردو ہندی ادب کے نمائندہ افسانہ نگار ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں اس ہندوستان کو دکھایا جس کی طرف سے ادب اور ادبی معاشرہ نے نظریں پھیری ہوئی تھیں۔ انہوں نے دیہات، مزدور، کسان، زمیندار، لگان، جیسی علامتوں کو متشکل کر اپنے افسانوں میں جگہ دی اور اردو ادب کی طرف موضوعات کی ایک ایسی لمبی فہرست بڑھائی جس پر لکھا، پڑھا اور بولا جانا بے حد ضروری تھا۔ 1936 میں ترقی پسند تحریک کا مینی فیسٹو کہا جانے والا ان کا افسانہ ”کفن“ جب منظر عام پر آیا تب پہلی دفعہ واضح طور پر ہندوستانی سماج کے اس اندھیرے کی طرف نشاندہی کی گئی جس میں ہندستان کی اصل آبادی رہائش پذیر ہے۔

پریم چند کا وہ جملہ کہ ”ہمیں حسن کا معیار بدلنا ہوگا“ کی سچی تعبیر ہمیں سہیل عظیم آبادی کے افسانوں میں نظر آتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں بہار کا پریم چند ہونے کا اعجازی نام بخشا گیا۔ ان کی اس فکری طرز یا ادبی ذہن کی نشو نما میں جن لوگوں کی تحریروں کا اہم کردار رہا ہے اس بابت وہ لکھتے ہیں کہ :۔

” میں جن افسانہ نگاروں سے متاثر ہوا ان میں سب سے پہلا نام منشی پریم چند کا ہے، ان کے بعد سدرشن اور روسی لکھنے والے غیر ملکی افسانہ نگاروں میں ٹالسٹائی، چیخوف، موپاساں، اور بعض دوسرے افسانہ نگاروں نے بھی متاثر کیا، لیکن میں سب سے زیادہ پریم چند، ٹالسٹائی سے متاثر رہا ہوں“ ۔

( سہیل عظیم آبادی اور ان کے افسانے، صفحہ 8، 9 ) ۔

ان کے یہاں اسلوب اور کردار کی سطح پر اکہرا پن پایا جاتا ہے، اس کے علاوہ ان کی زیادہ تر کہانی کا پلاٹ بھی سادہ اور سپاٹ ہے اس لئے ادب کے عام قاری کے ذہن تک ان کے افسانے کی ترسیل بہت آسانی سے ہو جاتی ہے۔ ان کے افسانوں کی زبان خالص ادبی نہ ہو کر عام بول چال کی زبان ہے اور وہ اپنے کرداروں سے زبان کی عام سطح پر اتر کر بات کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے افسانوں میں دوسرے افسانہ نگاروں کی طرح ابہام پیدا ہوتا محسوس نہیں ہوتا اور قاری ان کے افسانے پڑھتے وقت کسی ادبی لسانی یا ذہنی پیچیدگی میں مبتلا نہیں ہوتا۔ ادبی دنیا کے بہتیرے لوگ ان کی اس انفرادی خصوصیت کے معترف تھے۔ اس وقت کا ایک بڑا نام کرشن چندر ان کے پہلے افسانوی مجموعے الاو کے پیش لفظ میں اس بات کا بر ملا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ الاو کے پیش لفظ میں وہ لکھتے ہیں :۔

”سہیل کی زبان بہت سادہ اور سلیس ہے، معنوی اور غیر ضروری مکالمے کہیں نہیں ہیں۔ بہاری گاؤں اور اس کے افراد کی تصویر اس فنی صناعی اور چابک دستی سے کھینچتے ہیں کہ افسانے کی دلکشی دوبالا ہو جاتی ہے۔ غیر ضروری الفاظ کے استعمال سے پرہیز کرتے ہیں۔ اپنی تحریرات میں کم گو مگر پر گو ہیں، بہت کچھ نہ کہ کر بھی بہت کچھ کہ دیتے ہیں، اسے ان کی تحریر کا اعجاز سمجھنا چاہیے“ ۔ (از کرشن چندر، پیش لفظ، الاو، ص۔ 11)

جس طرح ہر دن ایک سا چمکدار یا ہر رات ایک سی سیاہ نہیں ہوتی۔ زندگی کا ہر دوسرا لمحہ پہلے لمحے سے مختلف ہوتا ہے اور ہر شے دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اسی طرح یہ قطعی ضروری نہیں کہ ایک تخلیق کار کی ہر تخلیق ”بہتر“ کے ہی زمرے میں رکھی جائے یا ہر تخلیق ”بدتر“ کے ہی زمرے میں جگہ پائے۔

تخلیق کا معاملہ تو یہ ہے کہ ایک ذرا سا ذہنی بہاؤ، وقت کی ایک ذرا سی ہلچل، مذہبی یا معاشرتی دباو تخلیق یا تخلیق کار کو فرش سے عرش اور عرش سے فرش تک پہنچا دیتی ہے۔

شاید یہ دعوا کسی تخلیق کار کو نا ہو کہ اس کی ہر تخلیق شاہکار ہے اور اس لسٹ میں پریم چند، منٹو سے لے کر قرةالعین حیدر اور عصمت، بیدی بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

اسی طرح سہیل عظیم آبادی بھی اپنے ذہن میں مذہبی، معاشرتی اور تہذیبی اقدار سموئے اس کے ناموس کا احترام کرتے ہوئے بحیثیت تخلیق کار لغزشیں کرتے نظر آئے ہیں۔

ان کے افسانے کے مجموعے چار چہرے میں شامل افسانہ ”ساوتری“ میں کلکتہ کے بازار حسن ”سونا گاچھی“ کی منظر کشی کی گئی ہے۔ اس افسانہ کا کردار راجیش کسی کام سے کلکتہ جاتا ہے۔ تنہائی اور بیوی سے دوری کی وجہ سے مہذب سماج کا وہ مہذب انسان بدن کی آگ میں جلتا ہوا ایک دوسرے بدن کی تلاش میں سونا گاچھی کے ایک کمرے میں پہنچ جاتا ہے۔ اسی درمیان غور کرنے کی ایک بات یہ بھی ہے کہ راجیش اس محلے میں پہلی دفعہ نہیں جاتا بلکہ وہ اس سے پہلے بھی کئی دفعہ جا چکا ہوتا ہے اور اس بار وہاں ایک دوسری لڑکی انیتا کو تلاش کرتے ہوئے جاتا ہے جو ساوتری سے پہلے اس کمرے میں رہا کرتی تھی۔ وہاں اس کمرے میں وہ ساوتری کے حسن اور اخلاق و کردار سے بہت متاثر ہوتا ہے۔

اپنے ہوٹل واپس آ کر وہ اس کا موازنہ گھر کی چہار دیواری میں بیٹھی، اس کا انتظار کرتی، اپنی بیوی سے کرتا ہے۔

اس کی نیند غائب ہو جاتی ہے اور اس کے ذہن پر بس ایک ہی بات سوار ہو جاتی ہے کہ آخر اتنے اچھے اخلاق و کردار کی لڑکی اس گندی بستی میں کیسے پہنچ گئی۔ ساری رات ساوتری کی صورت میں راجیش کو اپنا وہ خواب نظر آتا رہا جو وہ شادی سے قبل اپنی شریک حیات کے لئے دیکھا کرتا تھا۔

” وہ سوچا کرتا تھا اس کی پتنی گوری چٹی ہوگی۔ اس کی بڑی بڑی نشیلی آنکھیں ہوں گی ۔ پیشانی چوڑی اور لمبے لمبے سیاہ بال ہوں گے ۔ موتیوں جیسے چمکتے دانت ہوں گے اور بڑی ہنس مکھ ہوگی۔ ساوتری میں وہ ساری باتیں تھیں اور اس کی پتنی میں ایک بھی ویسی بات نہیں۔

”افسانہ ساوتری“

افسانہ نگار اس اقتباس کے دوران مشرقی مرد معاشرے کی حقیقی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔ راجیش جس کردار، اخلاق، سیرت کی تلاش اپنی بیوی میں کرتا نظر آیا ہے اور وہ سیرت و کردار اسے ساوتری کے اندر ملی اس سیرت، اس کردار، اس اخلاق کی زبردست کمی لا شعوری طور پر اس کردار راجیش کے اندر اکٹھا کر دی گئی۔ اور تخلیق کار کو اس کا زرہ برابر احساس تک نہیں ہوا۔

اس کے علاوہ سہیل عظیم آبادی نے سماج کے ایک بے حد اہم موضوع ”جنس“ سے کنارہ کشی اختیار کی۔ جنس ہمارے معاشرے کا ایک بے حد حساس موضوع ہے اور انسانی رویے پر اس کے بے حد گہرے اثرات مرتب ہوتے ہوئے نظر آئے ہیں۔ منٹو، بیدی، عصمت وغیرہ نے اس موضوع کو جس چابک دستی سے برتا ہے وہ کسی دوسرے افسانہ نگار سے ممکن نہیں ہو سکا۔

سہیل عظیم آبادی پہلے تو اس موضوع پر لکھنے سے ہی کترائے اور جنس کو مرکز بنا کر کچھ بھی تحریر نہیں کیا لیکن یہ کوئی بڑی یا بری بات بھی نہیں تھی کہ ہر افسانہ نگار کا اپنا اپنا میدان ہوتا ہے۔ مگر یہ بات اس جگہ کھٹکنے لگتی ہے جہاں افسانہ نگار اس موضوع پر لکھنے کی ضرورت درپیش ہونے کے باوجود جست لگا کر آگے نکلنے کی کوشش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

سہیل عظیم آبادی جس معاشرے سے نکل کر سامنے آئے ہیں اس معاشرے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہاں سماج کا ہر بڑا اپنے چھوٹوں کو نصیحتیں کرتا ہوا اور غلطیوں پر سرزنش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ سماج کا ایک ذمہ دار فرد ہونے کی حیثیت سے سہیل عظیم آبادی بھی اس سے اچھوتے نہیں رہ پائے ہوں گے اس لیے ان کے لگ بھگ ہر افسانے میں کسی نہ کسی سطح پر سماج و قاری کے لئے ایک اخلاقی نصیحت چھپی ہوئی نظر آتی ہے۔ ہاں مگر کرشن چندر کی طرح ان کے یہاں وعظ و نصیحت کی چھاپ گہری نظر نہیں آتی بلکہ فنکارانہ انداز میں وہ اس سے چھپ چھپاتے گزر جاتے ہیں۔

علی شبر حاتمی سہیل عظیم آبادی کے افسانوں کے مجموعے ”نئے پرانے“ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں۔

”ان کے افسانوں کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کے اکثر و بیشتر افسانے اپنے اندر کوئی نا کوئی اصلاحی پہلو لئے ہوئے ہوتے ہیں۔ لیکن لطف یہ ہے کہ کہ ان افسانوں پر وعظ و پند کا شبہ نہیں ہوتا بلکہ اس لطیف و اعلی پہلو کو افسانے میں سمونے کے باوجود کہانی کی روانی میں کوئی فرق نہیں آتا“ ۔

(پیش لفظ، علی شبر حاتمی، نئے پرانے، صفحہ 5 ) ۔

حقیقت یہ ہے کہ بہار کے عظیم آباد سے اٹھنے والے اس عظیم تخلیق کار نے ہر اس مسئلے پر اپنا قلم اٹھایا جہاں تک ان کی بصیرت و بصارت نے کام کیا۔ مجموعی طور پر یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ہر گزرتے وقت کے ساتھ ان کا فن اپنے ارتقا کی جانب قدم بڑھاتا چلاتا گیا، زندگی کی جس چنگاری سے انہوں نے ایک ”الاو“ روشن کیا تھا، ”نئے پرانے“ ، اور ”چار چہرے“ تک ہر گزرتے وقت میں وہ مزید روشن ہوتی چلا گیا اور آنے والے دنوں میں اس سے روشنی کے نئے چراغ جلنے کے مزید امکانات روشن ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments