ضیاء الحق آج بھی زندہ ہے


ذوالفقار علی بھٹو پاکستانی سیاست میں ایک عجیب مقام رکھتے ہیں۔ تاریخ دان پاکستان کی تاریخ کو بھٹو سے پہلے اور بھٹو کے بعد کے ادوار میں تقسیم کرتے ہیں۔ ان کے بعد کی سیاست آج تک ان کے گرد ہی گھوم رہی ہے۔ آج بھی ملک میں واضح سیاسی تقسیم کا محور انہی کی ذات ہے۔ پرو بھٹو اور اینٹی بھٹو ووٹ کی بھیک سے آج بھی سیاسی جماعتیں اپنے بونے قد میں اضافہ کرتی ہیں۔ وہ حسین شہید سہروردی اور ممتاز دولتانہ کے ساتھ مل کر ان چند پاکستانی سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں جو کہ نہ صرف انتہائی پڑھے لکھے تھے بلکہ پڑھنے اور لکھنے سے بھی شغف رکھتے تھے۔

وہ پاکستانی کی جدید خارجہ پالیسی کے معمار بھی ہیں۔ انہوں نے سیٹو اور سینٹو کے معاہدوں سے پاکستان کو علیحدہ کر کے غیر جانبدار دنیا سے ملحق کر دیا۔ بلکہ دو طرفہ اور برابری کی بنیاد پہ خارجہ پالیسی کو استوار کرنا انہی کی ذہنی صلاحیتوں کا نتیجہ ہے۔ وہ پاکستانی سیاست کو ڈرائنگ روم سے عوام کے بیچ لا کر اس میں جان ڈالنے والے واحد شخص تھے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق بھی بھٹو صاحب ہی تھے۔ چین کو دنیا میں متبادل قیادت کے طور پر متعارف کروانے کا سہرا بھی آپ ہی کے سر جاتا ہے۔ متفقہ آئین کی تیاری بلاشبہ ان کی سب سے بڑی کامیابی ہے جس پہ وہ ہر داد کے مستحق بھی ہیں۔

بھٹو صاحب اپنے پہلے دور حکومت کے آخر میں ممتاز دولتانہ کے گھر پہ تھے۔ کہ ان کے پرسنل سیکریٹری نے اطلاع دی کہ کور کمانڈر ملتان آپ سے ملاقات کے متمنی ہیں۔ بھٹو صاحب نے ایک دم حیرت اور غصے کے ملے جلے جذبات سے پوچھا کہ وزیر اعظم سے بغیر اپائنٹمنٹ وہ یہاں کیسے آ سکتا ہے؟ تھوڑی دیر توقف کے بعد انہوں نے کہا کہ اسے بٹھاؤ میں آتا ہوں۔ بھٹو صاحب نے دو گھنٹوں بعد ڈرائنگ روم کا رخ کیا تو کور کمانڈر ملتان فوجی وردی میں ملبوس ڈرائنگ روم میں بنی ہوئی وسیع و عریض لائبریری سے کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔

ممتاز دولتانہ کے پاس انتہائی شاندار کتابوں کی ایک کثیر تعداد موجود تھی جو کہ اس وقت کسی بھی شخص کے پاس نجی طور پر موجود کتابوں کی سب سے بڑی تعداد تھی۔ بھٹو صاحب نے پوچھا آپ کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟ تو فوجی وردی میں ملبوس شخص کہنے لگا قرآن مجید۔ چونکہ بھٹو صاحب اس لائبریری کے کثرت سے استعمال کرنے والوں میں شمار ہوتے تھے اس لیے انھوں نے ایک ہی لمحے میں قرآن مجید کی نشاندہی کر دی۔ اس نے وہاں سے قرآن مجید اٹھایا اور اس پہ ہاتھ رکھ کر بھٹو صاحب سے کہنے لگا میں ضیا ء الحق اس قرآن پاک پہ ہاتھ رکھ کر آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر آپ مجھے پاکستان کی فوج کا کمانڈر انچیف مقرر کریں گے تو میں آپ کا ذاتی وفادار رہوں گا۔ یہ بھٹو صاحب کا ضیا ء الحق سے پہلا باقاعدہ تعارف تھا۔

بھٹو صاحب نے ضیاء الحق کو انتہائی جونئیر ہونے کے باوجود آرمی چیف مقرر کر دیا۔ ضیاء الحق نے انتہائی وفاداری سے اپنے فرائض منصبی نبھائے۔ 1977 کے الیکشن میں بھٹو صاحب پہ دھاندلی کا الزام لگا۔ ان کے خلاف نظام مصطفی کی تحریک چلی جو کہ ان کے اقتدار کے خاتمے پہ ہی انجام پذیر ہوئی۔ بھٹو صاحب کے اقتدا ر کے آخری دنوں میں جب بھی بھٹو صاحب کو اس بات سے آگاہ کیا جاتا کہ آرمی کسی بھی وقت ٹیک اوور کر کے نظام کی بساط لپیٹ سکتی ہے تو وہ نہایت پر سکون رہتے۔ شاید ان کے ذہن میں ضیا ء الحق کی وہ قسم ہی تھی جو انہیں کبھی اس طرف سوچنے نہ دیتی تھی۔ بھٹو بہت بڑا سیاست دان تھے جو کہ تیسری دنیا کے ممالک کا بلاشبہ سب سے بڑے لیڈر تھے۔ ان کی ذہانت سے ایک عالم نہ صرف واقف تھا بلکہ معترف بھی تھا۔ مگر وہ ضیاء سے مات کھا گئے۔

ضیا ء الحق نے اسلام کو بھٹو صاحب کی قربت کے لیے استعمال کیا۔ جب اپنے وقت کا اتنا چالاک شخص اسلام کے نام پہ بچھائے جال میں پھنس سکتا تھا تو عوام تو ہوتے ہی سادہ اور جاہل ہیں۔ ضیا ء الحق نے وہ ہی حربہ عوام کے لیے استعمال کیا اور کامیاب نتائج حاصل کیے۔ انھوں نے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کا عوام سے وعدہ کیا۔ جو کبھی وفا نہ کیا۔ اقتدار کو اپنے پاس نوے روز کے لیے امانت قرار دیا۔ جس میں خیانت کے شدید مرتکب ہوئے۔

صوم و صلوۃ کی پابندی کے احکامات صادر کیے۔ ٹیلی وژن پہ نیوز کاسٹرز کو پردے میں ملبوس کیا۔ شرعی سزاؤں کے نفاذ کا قانون پاس کر کے اسلام کے نفاذ کو حتمی شکل دی۔ صادق اور امین ہونا عوامی نمائندوں کے لازمی قرار پایا۔ یہ سارے اقدامات تاثیر سے ایسے ہی خالی تھے۔ جیسے انہوں نے Evidence Actکے نام کو قانون شہادت آرڈیننس یا پارلیمنٹ کو مجلس شوریٰ کے ناموں سے ہی محض تبدیل کر دیا۔

ضیا ء الحق کو ملک کے نظام میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ عوام کی سادہ لوہی کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے۔ انھوں نے ملک میں ایک نظریاتی تقسیم کی بنیاد ڈالی۔ افغان ”جہاد“ کے ساتھ ملک کی تقدیر کو منسلک کر کے امریکی ہلا شیری حاصل کی۔ ملکی معیشت پہ 30 لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ لادا۔ کلاشنکوف کلچر کو گلی محلوں کی زینت بنایا۔ نوجوان نسل کو منشیات کی لعنت سے روشناس کروایا۔ مذہبی منافرت، فرقہ واریت اور عدم برداشت کا کلچر بھی ضیا ء الحق کی باقیات میں سے ہیں۔ انھوں نے ملک کی سیاست میں پیسے کے تصور کو اجاگر کیا اور ایک نئی رولنگ ایلیٹ نے جنم لیا۔ سابقہ وزیر اعظم نواز شریف سمیت پچھلے 35 سال سے پاکستانی سیاست سے جڑا ہر سیاستدان بالواسطہ یا بلاواسطہ اسی نرسری کے تناور اور سایہ دار درخت ہیں۔

جیسے بھٹو ایک سوچ کا نام ہے اسی طرح ضیا ء الحق بھی ایک سوچ کا نمائندہ کردار ہے۔ جیسے بھٹو آج بھی زندہ ہے اسی طرح مرا آج تک ضیا ء الحق بھی نہیں ہے۔ اگر بھٹو نے انسانی ضمیر میں جگہ پائی ہے تو ضیا ءالحق بھی آج تک حکومتی ایوانوں میں دندناتا پھر رہا ہے۔ ضیا ء الحق نے آمریت کے لبادے میں اوڑھا کے جمہوریت بھی عوام کو وراثت میں دی جو کہ آج تک عوام سے ان کے ناکردہ گناہوں کا حساب وصول رہی ہے۔ ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977 کو پارلیمنٹ پہ قبضہ کر کے اسے بے وارث کر دیا۔

آئین کو معطل کر کے بے توقیر کر دیا۔ عوامی منتخب کردہ وزیر اعظم کو پھانسی چڑھا کر عوام کے مینڈیٹ کو اپنے پاؤں تلے روند ڈالا۔ آج ان کے روحانی بیٹے بھی ملکی اداروں سے اپنے محسن اکبر سے ذرا کم سلوک نہیں کر رہے۔ اگر وزیر اعظم صاحب عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ میں حاضر ہونا اپنی توہین سمجھیں تو ایسی جمہوریت کو کیوں آمریت نہ سمجھا جائے؟ آج آئین اپنے تقدس کے لیے ملکی اداروں کے در پہ سر پٹخ رہا ہے مگر کسی کے کان پہ جوں تک نہیں رینگ رہی تو کیسے کہہ دیا جائے کہ آمریت کے دور میں چھینی گئی عزت بحال ہو گئی ہے۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب کردہ حکمران اگر پانچ پانچ سال نشہ حکمرانی میں چور رہ کر عوام کو ان کے بنیادی حقوق کے لیے ترسا ترسا کر مرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیں تو یہ کیسے تسلیم کر کیا جائے طاقت کا سرچشمہ عوام ہی ہیں۔ ؟

ضیا ء الحق ملک کے نظام میں جو زہر گھول گئے اس کی مسلسل آبیاری اتنی ہی تندہی سے جاری ہے۔ آج تک آمریت کے دور میں صوبوں میں پڑنے والی دوریوں کو ختم کرنے کے لیے کسی جمہوری حکومت نے کوئی مخلص کوشش نہیں کی۔ اسلام کے نام پہ حکومت کر کے عوام میں مسلک کی بنیاد پہ نفرت کو پروان چڑھانا آمریت کی ضرورت تھی مگر آج تک کسی جمہوری حکومت نے مذہبی اور مسلکی رواداری کو پروان چڑھانے کی سعی نہیں کی۔ جن مدرسوں کو افغان جہاد میں گریٹر انٹرسٹ کے لیے استعمال کیا گیا انہیں آج تک لگام نہیں ڈالی گئی اب وہی جہاد ہماری اپنی رگوں سے خون کا خراج وصول کر رہا ہے۔

جن نوجوانوں کے ہاتھ میں قلم اور کتاب ہونی چاہیے تھی انہیں ضیا ءالحق نے کلاشنکوف تھما دی۔ لیکن افسوس آج تک ہم اپنی نسلوں کے تحفظ کے لیے ایک قدم بھی اس لائن سے پیچھے نہیں آئے جہاں پہ ضیاء الحق ہمیں چھوڑ گئے تھے۔ نوجوانوں کو نشے کی لت ڈالی گئی آج مقتدر افراد نے اسی نشے کو اپنے لیے کاروبار بنا لیا۔ کراچی پاکستان کا دل تھا۔ کراچی کی رونقوں کی دنیا بھر میں مثالیں دی جاتی تھیں۔ لیکن ضیاء الحق نے بھٹو سے پاکستانی سیاست کو پاک کرنے کے لیے مہاجر کارڈ کھیلا ضیا ءالحق کامیاب رہا مگر کراچی کی ہر آنکھ آج بھی نم ہے۔ کراچی کا بارونق چہرہ رو رو کر وحشت زدہ ہو چکا ہے۔ کسی بھی حکومت نے جمہوریت کی تاثیر سے کراچی کے زخموں پہ مرہم نہیں رکھا۔ آج بھی ضیاء الحق کی باقیات کراچی کو نوچ رہی ہیں۔

جمہوریت کی کامیابی اختیار کی نچلی سطح پہ منتقلی میں ہی پنہاں ہے۔ جتنا اختیار نچلی سطح پہ ہو گا عوام کو ان کے مسائل کے حل کے لیے کم رکاوٹیں عبور کرنا پڑیں گی۔ جس مغرب کو ہمارے وزیر اعظم صاحب سب سے زیادہ جانتے ہیں وہاں برطانیہ میں کونٹی سسٹم میں اتنے اختیارات تفویض کر دیے گئے ہیں کہ عوام کو نمائندہ ان کی ہمسائیگی میں ہی ان کی خدمت کے لیے حاضر ہو جاتا ہے۔ لیکن آمریت میں اختیارات کو ایک ہی شخص اپنی شخصیت میں مرتکز کر لیتا ہے۔

یہی کام پاکستان کے ”فاتح اول“ ایوب خان نے کیا اور بعد میں آنے والوں نے بھی انہی کی پیروی کی۔ ملک جمہوری ادوار میں بھی اختیار کے نچلی سطح پہ منتقل کرنے ثمرات سے بہرہ ور نہیں ہو سک۔ پچھلی بار بھی سپریم کورٹ نے مجبور کر کے جمہوری حکمرانوں سے بلدیاتی الیکشن کروا تو لیے ہیں لیکن ان حکمرانوں نے منتخب کردہ بلدیاتی نمائندوں کو اتنا بے اختیار کر دیا ہے کہ وہ بے چارے کسی نالی میں ایک اینٹ بھی نہیں لگا سکتے۔

5 جولائی 1977 کو اقتدار پہ قبضہ کر کے ضیاء الحق نے جو سماجی استیصال، معاشی عدم مساوات، مذہبی منافرت، اخلاقی بے راہ روی، علمی عدم توجہی اور عدم برداشت کے جس بیج کو پاک سر مین میں بویا تھا ان کے ہونہار جانشین اس کی اپنے خون پسینے سے آبیاری کر رہے ہیں۔ اختیار کو آج بھی ایک ہی شخص کے ہاتھوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اداروں کی تذلیل آج بھی اسی جوش اور جذبے کے ساتھ کی جا رہی ہے۔ اقربا پروری عروج پہ ہے۔ کرپشن ہوش روبا حد تک بڑھ چکی ہے۔ پسندیدہ انصاف کا رواج عام ہے۔ 35 سالوں سے ہم سنتے آ رہے ہیں کہ زندہ ہے بھٹو زندہ ہے۔ بہت سے لوگوں کو بھٹو کے زندہ ہونے کی سمجھ تو نہیں آئی لیکن یہ بات ضرور روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ ضیاء الحق اپنی تمام آب تاب کے ساتھ آج بھی زندہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments