مہنگا بستہ، سستا بچپن


جب معاشرے میں ”بستہ“ کی قیمت بڑھتی جاتی ہے تو بچپن کی چاشنی مٹتی جاتی ہے۔ مہنگا جتنا ”بستہ“ ہو گا بچپن اتنا ہی سستا ہو گا۔ جس کے ہاتھ میں قلم کتاب کی بجائے ٹائر اور پانے ہوں اور جس کا مقدر استاد کے طعنے ہوں وہ بچپن میں بھی پچپن کا ہوتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے جذبے حصول رزق کے رستے میں چھن جاتے ہیں اور خواب اس عہد کی تنہائی نگل جاتی ہے۔ شاید بچپن سے محنت کرنے والے بچوں کو یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ بھوک کے علاوہ بھی انسان میں کوئی جذبہ ہوتا ہے۔

ان کی عمر ایک ساعت میں پگھل جاتی ہے۔ دن لمبے اور عمر تھوڑی ہوتی ہے۔ ہر پل پہاڑ جیسا ہوتا ہے تو نسلیں خاک ہی خاک میں ملتی رہتی ہیں۔ وہ خواب نہیں عذاب دیکھتے ہیں، ان کا دین، دھرم روٹی ہوتا ہے۔ تخیل کی پرواز بھی روٹی، پیاز تک محدود ہو جاتی ہے۔ جس دن روٹی کے ساتھ بوٹی بھی مل جائے ان کی زندگی مکمل ہوجاتی ہے۔ جب امیر کے بچے کے ہاتھ میں ”بستہ“ ہوتا ہے تو غریب کا بچہ چولہے سے وابستہ ہوتا ہے۔ اس لامحدود کائنات میں ان کا واحد رشتہ ایک چولہے سے ہوتا ہے۔ اپنے گھر کا چولہا چلانے کے لئے وہ نسل در نسل ایک ہی مقام پر رکے رہتے ہیں۔

دنیا کا تجربہ یہ کہتا ہے کہ بالاخر وہی گھرانا ہنستا بستا ہوتا ہے جس کے ہر بچے کے پاس اپنا ہرا بھرا ”بستہ“ ہوتا ہے۔ ”بستہ“ صرف ”بستہ“ نہیں، ترقی کا رستہ ہوتا ہے جس سے نسلوں کا مستقبل وابستہ ہوتا ہے۔ جس بچے کا بچپن اپنے ”بستے“ سے پیوستہ ہوتا ہے وہی بڑا ہو کر قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ ایک چھوٹے سے ”بستے“ کے ساتھ کتنے بڑے بڑے خواب وابستہ ہوتے ہیں، یہ بات شاید ایک غریب باپ ہی جان سکتا ہے جو قوم آج اپنے بچوں کو ”بستہ“ نہیں دیتی، کل تاریخ اس کو بقا کا رستہ نہیں دیتی۔ جو قوم آج اپنے بچوں کو ”بستہ“ دینے سے عاری ہے کل وہ اقوام عالم کے در پہ بھکاری ہے، اس پر جمود طاری ہے۔ اس کے افراد کی تقدیر بے کاری ہے۔

بدقسمتی سے بہت سے لوگ اس بات پر کمر بستہ ہوچکے ہیں کہ ہمارے بچوں کے ہاتھ سے بستہ چھین کر ہتھیار کا آزار تھما دیں گے اور یوں قوم کا مستقبل گہنا دیں گے۔ بستہ ”ب“ میں عموماً وہ لوگ جوان ہو کر شامل ہو جاتے ہیں جن کو بچپن میں ”الف“ ، ”ب“ والا ”بستہ“ نصیب نہیں ہوتا۔ اگر کوئی قوم چاہتی ہے کہ اس کے افراد بستہ ”ب“ میں شامل نہ ہوں تو ارباب بست و کشاد کو یہ بات یقینی بنانی چاہیے کہ کسی کا بچپن ”الف“ ، ”ب“ والے ”بستہ“ سے خالی نہ ہو۔

موجودہ دور کے ہمارے بچے بہت حساس اور سمجھدار ہیں۔ میری بیٹی ”سارہ“ نے ایک دن اپنی ڈائری میں لکھا۔ :

قائد کی زندہ قوم پر پڑ گئی عجب افتاد
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے تاجر و استاد

اشعار کے اوزان پر نظر رکھنے والے ایک دوست کہنے لگے خیال اچھا ہے مگر وزن میں نہیں۔ میں نے انہیں گزارش کی جس قوم کے استاد تاجر بن جائیں وہاں اشعار ہی نہیں، افکار بھی وزن سے خالی ہو جاتے ہیں اور ایک دن اس پوری قوم کا اقوام عالم میں کوئی وزن نہیں رہتا وہ اس بے وزنی کی کیفیت میں ادھر ادھر ڈولتی پھرتی ہے اور اپنا آپ رولتی پھرتی ہے۔ جہاں تعلیم فقط ایک تجارت ہے وہاں بہتری کی ہر امید اکارت ہے۔ اس قوم کا مقدر اقوام عالم کی حقارت ہے کیونکہ تعلیم، تعلیم نہیں زندہ رہنے کی مہارت ہے۔ استاد قوم کا مالی ہے، رتبہ اس کا عالی ہے، کردار اس کا مثالی ہے، مگر آج کا استاد افکار سے خالی ہے، دھن مایہ کا سوالی ہے، اس کا مطمح نظر قوم کی تقدیر بدلنا نہیں اپنی رہائش اور زیبائش بدلنا ہے۔

”پوپ“ نے کہا تھا کہ انسان صرف روٹی سے زندہ نہیں رہ سکتا مگر جن کی ساری زندگی پیٹ کے دوزخ کی نذر ہو جائے انہیں ”پوپ“ کی یہ بات بہت بڑا ”پاپ“ لگتی ہے۔ جو قوم اپنے بچوں کے ہاتھ سے ”بستہ“ چھین کر بوٹ پالش کرنے والا برش تھما دے، اس کے مستقبل کے باغ میں امیدوں کے گلاب نہیں، صرف غربت کے عذاب اگتے ہیں۔ اس کے بہتر مستقبل کی امید فقط سراب ہے۔ غربت دنیا ہی نہیں آخرت بھی تباہ کر دیتی ہے۔ رحمت العالمین کا فرمان ہے ”غریبی کفر تک پہنچا دیتی ہے“ ۔ جہالت بھی غربت کی بدترین شکل ہے۔ جہالت، جہالت نہیں درحقیقت خجالت ہے۔ تاریخ کی اپنی ایک عدالت ہے جس میں جاہل کی نہ کوئی وکالت ہے اس کا ماضی، حال اور مستقبل فقط ذلالت ہے۔

تقدیر کے قاضی کا ازل سے یہ فتوی ہے کہ ”جرم ضعیفی کا مقدر ہمیشہ مرگ مفاجات ہوتا ہے“ ۔ سائنس بھی اس بات کی قائل ہے کہ صرف بہترین کا حق بقا ہے اور بے علم کے لئے فنا ہے۔ اللہ کی آخری کتاب بھی واضح طور پر کہتی ہے کہ ”عالم اور جاہل کبھی برابر نہیں ہوسکتے“ ۔

ایک شاعر نے کہا تھا کہ ”دل کی بستی عجیب بستی ہے اور یہ بستے بستے بستی ہے“ افراد کی طرح اقوام کا بھی دل ہوتا ہے۔ اس دل کی بستی میں اگر علم کا نور نہ ہوتو وہ قوم اپنی ہستی سے جاتی ہے اور عدم کا قصہ بن جاتی ہے۔ صوفیا کا کہنا ہے کہ اپنے آپ کو پہچان کر ہی خدا ملتا ہے جو قوم اپنے بچوں کو اپنی پہچان بنانے کا موقع نہیں دیتی باقی ساری دنیا ان کو جان بھی جاتی ہے اور پہچان بھی جاتی ہے اور یہ مان بھی جاتی ہے کہ ایسی قوم سے جان پہچان کا کوئی فائدہ نہیں جس کو اپنی ہی پہچان نہیں۔

کسی نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ بستہ ”کے بغیر انسان، انسان نہیں اور اس کا کوئی جہان نہیں۔ :
”پیوستہ رہ بستہ سے اور امید بہار رکھ“

(کالم نگار نشتر میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد صوبائی انتظامیہ کا حصہ ہیں اور آج کل منیجنگ ڈائریکٹر، چولستان ترقیاتی ادارہ کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments