ایک سانولی سلونی شام اور رقص کرتی رات کی کہانی


شام فرتاش و ملتان کلچرل نائٹ، دو جولائی سن دو ہزار اکیس کو ملتان ٹی ہاؤس میں منعقد ہوئی۔ ابھی تقریب کا باضابطہ آغاز بھی نہ ہوا تھا کہ واپڈا نے ہاتھ دکھا دیا۔ قریب قریب آٹھ بجے کا عمل تھا۔ تھوڑی پریشانی تو ہوئی، لیکن یہ سوچ کر خود کو تسلی دی کہ ٹی ہاؤس والوں کا جناتی سائز جنریٹر آخر کب کام آئے گا۔ بیک اپ جنریٹر بھی تھوڑی دیر بعد کھانس کر خاموش ہو گیا تو ”دنیا اندھیر ہونے“ کا مطلب اتنی وضاحت و صراحت کے ساتھ سمجھ میں آیا کہ ”آنکھوں تلے اندھیرا“ چھا گیا۔

فرینکفرٹ مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے کچھ دوستوں نے لوڈ شیڈنگ اور آرٹ کے درمیان معکوس تناسب کی نشاندہی کی، لیکن سچ پوچھیے تو ہمیں فلسفے سے زیادہ طفل تسلی کی ضرورت تھی۔ حالت یہ تھی کہ جنوبی پنجاب کے ہر کونے سے دوست آئے ہوئے تھے، ہال میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، اور پونا گھنٹہ اندھیرے اور گرمی کی نذر ہو گیا!

عاقب قریشی پر امید تھا کہ کسی بھی لمحے بجلی آ جائے گی، لیکن اس کی مضطرب آنکھیں اس کے اعتماد کا ساتھ دینے سے قاصر تھیں۔ قاضی علی نے مشورہ دیا کہ اگر ساڑھے آٹھ تک بجلی نہ آئے تو کسی نہ کسی طرح جنریٹر کا انتظام کرنے کی کوشش کی جائے۔ سوال مگر یہ تھا کہ اتنے بڑے جنریٹر کا انتظام کہاں سے کیا جائے، جو چلر نہ سہی، دو درجن بلب، پنکھے، ساونڈ سسٹم، فلیش لائٹ اور کیمرے چلا سکے۔ بے بسی اپنی آخری انتہا کو پہنچی تو میں نے تجویز دی کہ بجلی نہ بھی آئے تو ٹارچ کی روشنی میں اجلاس شروع کر دیا جائے۔

ابھی ہم اس ہنگامی پلان کی جزئیات پر غور کر ہی رہے تھے کہ ایک دم بجلی آ گئی۔ بجلی آئی تو جیسے ویرانے میں بہار آ گئی، وہ بھی ڈنکے کی چوٹ پر۔ عاقب قریشی نے باقاعدہ جھومر ڈالی۔ جھومر ختم ہوئی تو بھنگڑا ڈالا۔ ابھی وہ مائیکل جیکسن والی مون واک بھی کرنا چاہتا تھا، لیکن وقت کی کمی آڑے گئی اور اسے ڈرا دھمکا کر سٹیج کی جانب روانہ کرنا پڑا (اس کام کے لیے شاعر تشدد، جناب عدنان صہیب کی خصوصی خدمات حاصل کی گئیں ) ۔ عاقب قریشی نے آٹھ بج کر پینتیس منٹ پر تقریب کا باقاعدہ آغاز کیا۔ حاضرین کی محبت اور اعلیٰ ظرفی تھی کہ شدید اندھیرے اور گرمی کے باوجود گھروں کو واپس نہیں گئے، یہاں تک کہ منتظمین کے خلاف احتجاج اور نعرے بازی تک نہیں کی۔ اپنا شجاع آباد یا لودھراں ہوتا تو استرے چل جاتے!

پروگرام کی ابتدا ایک ڈاکیو مینٹری سے ہوئی، جو ملتان آرٹس فورم کی ذاتی پروڈکشن تھی۔ جوں ہی وڈیو ختم ہوئی، نظامت پر موجود عاقب قریشی نے ”ہونے اور نہ ہونے کی ابتلا میں ہونے کا جتن“ بیان کیا، اور مجھے سٹیج پر بلا لیا۔ میں نے فرتاش سید کا خط بہ نام ساحر شفیق پڑھا، جو لکھا تو ساحر شفیق کو گیا تھا، لیکن مواصلاتی خرابی کے باعث میرے پتے پر موصول ہوا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے خط پڑھا اور سٹیج سے نیچے اتر آیا۔ وہ عاقب قریشی ہی کیا جو سیدھے سادھے کام میں مفت کی اینٹری نہ ڈالے۔

اس نے نظامت کو بھی ایک نیا رخ دینے کی کوشش کی، نہ صرف ساحر شفیق کو سٹیج پر بلانے سے پہلے ان کی ایک معروف نظم ”بارش برس رہی ہو تو“ تحت اللفظ میں پڑھی، بلکہ پس پردہ موسیقی کے ساتھ ساتھ ایک وڈیو بھی تیار کی، جس نے پڑھت کے تاثر کو غیر معمولی طور پر نیا اور شدید کر دیا۔ مجھے اعتراف کرنے دیجیے کہ یہ بدعت میں نے پہلی بار دیکھی اور سنی۔ ساحر شفیق نے سپاٹ لائٹ کی مدھم روشنی میں فرتاش کا خاکہ پڑھ کر سنایا، جس میں دو عشروں پر محیط اپنے تعلق کی جزئیات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ، فرتاش کی شخصیت کے کچھ ایسے گوشے بھی نہاں کیے گئے، جن سے بہت کم لوگ واقف تھے۔

جوں ہی وہ خاکہ سنا کر اپنی نشست پر براجمان ہوئے، عاقب قریشی ایک بار پھر سٹیج پر نمودار ہوئے، اور مبشر مہدی کی معروف نظم ”وہاٹ از یور چوائس“ کی تحت اللفظ پیشکش کے بعد انہیں سٹیج پر مدعو کیا۔ مبشر مہدی کی آمد کے ساتھ ہی ہال کی نیم تاریک، خوابیدہ فضا کو تیز روشنی سے ری پلیس کر دیا گیا۔ انہوں نے اپنی انگریزی نظم ”فار یو او فرتاش“ حاضرین کی سماعتوں کی نذر کی۔ ان کے جانے کے بعد عدنان صہیب تشریف لائے اور فرتاش کی زمین میں ایک غزل پیش کرنے کے بعد ، ایک نظم بہ عنوان ”موت سے ہارے ہوئے آدمی کی جیت“ سنائی۔

عدنان صہیب رخصت ہوئے تو جناب رضی الدین رضی کو بلایا گیا، جو پہلے سیشن کے مہمان خصوصی تھے۔ انہوں نے ایک خاکے کا کچھ حصہ پڑھا، فرتاش کو یاد کیا اور چھوٹے چھوٹے قدم لیتے ڈائس سے نیچے اتر آئے۔ وچھوڑے کا ملال رات کی آنکھوں میں سرخی بن کر چمکا تو صدارتی خطبے کے لیے جناب قاضی عابد کو مدعو کیا گیا، جنہوں نے اپنی اور فرتاش سید کی تین عشروں پر محیط رفاقت کا تذکرہ کرنے کے ساتھ ساتھ آخری ایام میں ان کو درپیش مشکلات اور مصائب کا تذکرہ کیا، تو اچانک ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور آواز رندھ گئی۔ فرتاش نے یہ منظر دیکھا تو ایک زور دار قہقہہ لگایا، اپنی نشست سے اٹھا اور جون ایلیا کا ایک شعر سنا کر پہلا سیشن برخاست کر دیا۔

دوسرے سیشن کی ابتدا عباس خان کی بنائی ہوئی ایک ڈاکیومینڑی سے ہوئی، جس کا موضوع ایک چار سو سالہ قدیم مندر تھا، جو پچھلے کئی عشروں سے اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔ کالا دھاری مندر کا شمار بہاول پور کی قدیم ترین عمارتوں میں ہوتا ہے، لیکن محلات کے برعکس اس کے تحفظ کے لیے زیادہ تردد نہیں کیا گیا۔ عباس خان کے بعد نوال مہدی کا افسانہ ”شور“ پلے کیا گیا، جس کا مرکزی کردار گڈو حاجن، مرد کی دنیا اور عورت کے جہان میں مزاحمت کا ایک ایسا نویکلا استعارہ بن کر سامنے آتا ہے، جو صنفی تقیسم اور سماجی ناہمواری کا پردہ فاش کر دیتا ہے۔

گڈو حاجن کی کہانی ختم ہوئی تو وجہیہ الحسن ”شائی لاک“ کا روپ دھار کر سٹیج پر نمودار ہوئے۔ ان کا کیمیو شیکسپئرین ڈرامے کا تسلسل تو تھا ہی، ہماری آج کی پوسٹ موڈرن سچویشن کا غماز بھی تھا۔ وجیہہ الحسن کا ایکٹ ختم ہوا تو لائبہ زینب کی ڈاکیومینٹری پریمیئر کی گئی، جو ملتان کی ایک صبح کو کیمرے کی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش تھی۔ ڈاکیومینڑی ختم ہوئی تو گیارہ بج کر دس منٹ ہو چکے تھے، لیکن رات ابھی جوان تھی اور رقص کرنے پر آمادہ بھی، چناں چہ حاضرین کی توجہ اور انہماک کو مد نظر رکھتے ہوئے ”جب دہی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا“ کے عنوان سے ایک فلیش مووی چلائی گئی۔

حاضرین ابھی فلم کے سحر میں مبتلا تھے کہ تقریب کے مہمان خصوصی جناب لیاقت علی کو سٹیج پر بلایا گیا، جنہوں نے شام فرتاش اور ملتان کلچرل نائٹ کو شہر کی علمی، ادبی اور ثقافتی فضا کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا قرار دیا۔ لیاقت علی کے مختصر مگر جامع خطاب کے بعد کلچرل نائٹ کے صدر آغا صدف مہدی کو مدعو کیا گیا، جنہوں نے فرتاش سید، خالد سعید اور ملتان کی بھولی بسری شاموں کو یاد کیا، فرتاش سید کا ایک مرثیہ ”حسین نام ہے ایک روشنی کے پیکر کا“ تحت اللفظ میں پڑھا، جاوید اختر کی ایک نظم ”میں اور میری تنہائی“ سنائی اور اجلاس برخاست کر دیا۔ ٹھیک اسی لمحے فرتاش سید نے اپنے چاہنے والوں پر ایک محبت بھری نگاہ ڈالی، ہولے سے مسکائے اور خوشبو بن کر ہوا میں تحلیل ہو گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments