گھریلو تشدد کا بل اور ہمارا خاندانی نظام۔


چند روز قبل قومی اسمبلی نے گھریلو تشدد کا بل منظور کیا اور اس کو مزید بحث کے لئے سینیٹ بھیج دیا۔ اسی دوران سوشل میڈیا پر شور مچا کہ یہ بل انتہائی متنازع ہے کیونکہ یہ ہمارے خاندانی نظام کو برباد کر دے گا۔ تو آئیں ذرا اس بل کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس میں ایسا کیا ہے جس سے ہمارے شاندار خاندانی نظام کا بیڑہ غرق ہو جائے گا۔ بلکہ خواتین، بچوں، بزرگوں اور کمزور افراد کے خلاف گھریلو تشدد کی ممانعت اور ان کے تحفظ سے متعلق ہے۔

بل کے مطابق گھریلو تشدد کرنے والے کو 3 سال تک قید کی سزا اور ایک لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا، جرمانہ ادا نہ کرنے پر مزید 3 سال سزا ہوگی۔ متاثرہ شخص کو مشترکہ رہائش گاہ میں رہنے کا حق حاصل ہو گا یا جوابدہ رہائش کا بندوبست کرے گا یا شیلٹر ہوم مہیا کیا جائے گا۔ تشدد کرنے والے شخص کو متاثرہ شخص سے دور رہنے کے احکامات بھی دیے جائیں گے اور تشدد کرنے والے شخص کو جی پی ایس ٹریکر پہننے کی ہدایت دی جائے گی بل کے مطابق گھریلو تشدد سے مراد جسمانی، جذباتی، نفسیاتی، جنسی اور معاشی بدسلوکی ہے اور جس سے متاثرہ شخص میں خوف پیدا ہو، یا جسمانی اور نفسیاتی نقصان ہو۔

بل کی تصویر نیچے دی گئی ہے سادہ انگریزی میں آپ خود بھی پڑھ سکتے ہیں کہ اس میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ لیکن بل کے آتے ہی مولوی اور جماعت اسلامی والے اس کے خلاف مہم پر شروع ہو گئے۔

وہ اس لیے کیونکہ ہمارے خاندانی نظام میں شوہر کا عورت کو گالیاں دینا یا تھپڑ مارنا بہت عام سی بات ہے۔ خواتین کی تربیت بھی اسی انداز میں کی جاتی ہے کہ ان کو بھی لگتا ہے کہ یہ درست ہے۔ بچے جب اپنی ماں کو باپ سے گالیاں اور تھپڑ کھاتے دیکھتے ہیں اور اس رویے پر سب کی خاموشی اور رضامندی دیکھتے ہیں تو ان کو بھی لگتا ہے کہ یہ درست کام ہے۔ اسی طرح ہماری ساری شادیاں ارینج میرج ہوتی ہیں جس کا مطلب شادی سے پہلے دلہا دلہن نے اکثر اوقات نہ ایک دوسرے کو دیکھا ہوتا ہے اور نہ ہی ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔

پہلی مرتبہ شادی کی رات ہی ایک دوسرے کا دیدار ہوتا ہے۔ اور شادی کے بعد بہت سارے جوڑوں کی آپس میں نہیں بن پاتی اور اگر لڑکی کسی بھی بات پر مزاحمت کرے تو اس کو ذہنی اور جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور یوں یہ شادی ایک تکلیف دہ رشتہ بن جاتا ہے جس کا حل صرف طلاق رہ جاتا ہے لیکن ٹھہریں اسی خاندانی نظام میں طلاق یافتہ عورت کی کیا حیثیت ہے؟ اس کو معاشرہ کس نظر سے دیکھتا ہے اور اس کی زندگی کیسی ہو جاتی ہے؟

آپ نے اکثر اوقات لوگوں سے سنا ہوگا کہ یورپ کا خاندانی نظام تباہ ہو چکا ہے کیونکہ وہاں طلاق زیادہ ہے۔ تو جناب یہی اس نظام کی کامیابی ہے کہ وہاں جب میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہ سکتے تو ساری زندگی گھسیٹنے کے بجائے ایک دوسرے سے بخوشی علیحدہ ہو جاتے ہیں۔ وہاں طلاق یافتہ عورت اکیلی رہ سکتی ہے اس کی زندگی اجیرن نہیں کی جاتی۔ اس بات کو سمجھیں۔

دوسری بات یہ کہ ہمارے خاندانی نظام میں والدین ڈکٹیٹر بن جاتے ہیں اور بچوں کی مدد کے بجائے ان پر حکمرانی شروع کر دیتے ہیں۔ ایسا اسی لئے بھی ہوتا ہے کیونکہ ان کے ساتھ بھی ایسا ہوا ہوتا ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے والدین بچوں کی شفقت سے محروم رہ جاتے ہیں اور ان کے درمیان کبھی نہ پر ہونے والا خلا پیدا ہوتا ہے۔ اس بل میں والدین کے تشدد پر بھی قانون شامل ہے جو کہ خوش آئند ہے کیونکہ یہاں اکثر والدین معصوم بچوں کو مارنا اور ان پر چیخنا عام سی بات سمجھتے ہیں اور اس بات سے لاعلم ہوتے ہیں کہ اس کا بچے کی نفسیات پر کتنا برا اثر پڑتا ہے۔

اس بل میں ایک اور اچھی بات یہ بھی ہے کہ میاں بیوی بغیر اجازت ایک دوسرے کی پرائیویسی میں مداخلت نہیں کر سکتے۔ مثال کے طور پر عام بات ہے کہ میاں اکثر بغیر اجازت بیوی کی موبائل اٹھاتے ہیں اور اس کی جانچ پڑتال کرتے ہیں کہ میری بیوی کا کسی کے ساتھ کوئی چکر تو نہیں چل رہا جبکہ بیوی کو اجازت نہیں ہوتی کہ وہ میاں کی موبائل کو دیکھ سکے۔ تو موبائل ایک پرائیویسی ہے دوسرے جی اجازت کے بغیر آپ اسے استعمال نہیں کر سکتے

اسی طرح آپ کے شاندار خاندانی نظام کا حال یہ ہے کہ نوے فیصد حاجی قاضی غازی اپنی بہنوں بیٹیوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیتے۔ گزشتہ دنوں پشاور میں بہن پر تشدد کرنے والے بھائیوں کی ویڈیو سب دیکھ چکے ہیں۔ معروف صحافی عاطف توقیر نے لکھا ‏یورپ میں والدین کی میراث میں بیٹے اور بیٹی کا حصہ برابر ہوتا ہے جب کہ شادی کے بعد بنائی گئی جائیداد کے مالک بھی شوہر اور بیوی یکساں ہوتے ہیں۔ طلاق کی صورت میں سب نصف نصف بٹ جاتا ہے ۔ اس پورے عمل میں نہ ترلے کرنا پڑتے ہیں نہ خدا کا واسطہ دینا پڑتا ہے نہ انجیل کی آیتیں سنانا پڑتی ہیں۔ تو یہ فرق ہے دونوں میں۔

باقی یورپ کے خاندانی نظام میں بھی بہت ساری خامیاں ہیں اور ہمارے نظام میں بہت ساری اچھی باتیں بھی ہیں لیکن یہ بل خاندانی نظام کے ہرگز خلاف نہیں ہے

مجموعی طور پر یہ ایک بہت اچھا بل ہے اگر یہ قانون بن جاتا ہے۔ ایک عام غریب دیہاتی عورت کو شاید کبھی اس کا علم نہ ہو اور اس پر سب ظلم ویسے ہی ہوتا رہے لیکن پھر بھی قانون موجود ہے باشعور لوگ اور خصوصاً خواتین اس کے بارے میں دوسری خواتین کو آگاہ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments