قرنطینہ یا مہنگی قید؟ باہر جانے والے پاکستانی مسافر خوار ہونے لگے


کورونا وائرس نے جہاں ہماری داخلی اداروں کی اچھی کارکردگی کو سامنے لایا وہیں ہمارے سفارتخانوں کی بری ترین سفارتکاری سوال اٹھائے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ جب انڈیا میں لاکھوں افراد متاثر ہور رہے تھے مگر پھر بھی وہاں سے جانے والے مسافروں پر پابندی نہیں لگائی گئی تھی مگر پاکستان کورونا سے کم متاثر ہونے والے ملک ہونے کے باوجود متعدد ممالک کی پابندی والی فہرست میں موجود رہا۔ جس کا سب سے زیادہ نقصان مزدور، ملازمت پیشہ افراد اور بیرون ملک رہائشی ہمارے ہم وطنوں یعنی کہ ”اوورسیز“ کو ہوا۔

ہاں جی وہی اوورسیز پاکستانی جن کے احسان کے بوجھ تلے دبے ہمارے وزیراعظم اور ہماری حکومت اس احسان کا بدلہ چکانے کے لئے ہلکان ہوئی جا رہی ہے۔ وزیراعظم ہر دوسرے روز کسی تقریب یا ٹویٹ کے ذریعے ان شہریوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ترسیلات زر میں اضافہ کو اوور سیز پاکستانیوں کا ان کی حکومت پر اعتماد قرار دے رہے ہوتے۔ مگر وزیراعظم صاحب جن پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دلوانے کے لئے آپ اور آپ کے وزراء دن رات ایک کر رہے ہیں، لگے ہاتھوں کبھی ان سے یہ بھی پوچھ لیں کہ باہر جانے کے لئے پاسپورٹ کی تیاری، ویزا لگوانے، دفتر خارجہ سے اپروول، میڈیکل، بائیو میٹرک ویری فکیشن، ویکسینیشن اور پھر قرنطینہ جیسے مراحل سے نمٹنے کے لئے انہیں کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور کتنی مٹھیاں گرم کرنی پڑتی ہیں۔

محترم وزیراعظم صاحب ہماری ناکام سفارتکاری کا اس سے زیادہ کیا ثبوت ہوگا کہ شورش اور صحت عامہ کی ناکافی صورتحال جیسے مسائل سے دوچار ملک افغانستان اور ہمارے سے کئی گنا غریب ملک سری لنکا کے لئے بیرونی دنیا کے دروازے کھلے تھے اور ہمارے ملک کے لئے بند تھے۔ ایسے میں پاکستانیوں کو مجبوراً ٹرانزٹ ویزے یا ٹرانزٹ ٹکٹ کا انتظام کر کے سری لنکا اور افغانستان میں قرنطینہ کرنے کے اخراجات برداشت کرنے کے بعد جانا پڑا۔

وزیراعظم صاحب آپ یا آپ کے شاہ محمود قریشی کی قیادت والے دفتر خارجہ کے تھوڑے سے ہوم ورک سے ایسی صورتحال سے بچا جاسکتا تھا۔ کم کیسز ہونے کے باوجود نیوکلیئر سٹیٹ کے سعودی عرب اور دیگر ممالک جانے والے 4 ہزار سے زائد، مزدور، ملازم پیشہ افراد کو افغانستان میں قرنطینہ ہونا پڑا، دیگر ممالک کے ذریعے آنے والے پاکستانیوں کی بڑی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے سعودی عرب نے افغانستان پر بھی پابندی عائد کی جس کا نقصان یہ ہوا کہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا کے مصداق اب پچھلے 5 دن سے قرنطینہ مکمل کر لینے والے افراد افغانستان کے ہوٹلوں میں خوار ہو رہے ہیں۔

اسی طرح سے برطانیہ جانے والے پاکستانیوں کے لئے برطانوی حکومت نے دس دن کے کڑے قرنطینہ کی شرط رکھی ہوئی ہے۔ جس کے اخراجات بھی مسافروں کو خود ادا کرنے پڑتے ہیں، اب یہ اخراجات بھی برطانوی 17 سو پاؤنڈز جو کہ پاکستانی 3 لاکھ اڑتیس ہزار کے لگ بھگ بنتے ہیں اور افسوسناک حد تک یہ حالات ہیں لندن کے ہیتھرو ائرپورٹ سے ملحق جس ہوٹل میں قید نما قرنطینہ کیا جاتا ہے وہاں تضحیک آمیز دن گزارنے پڑتے ہیں۔ اب دیکھا جائے تو دس دن کے لئے 3 لاکھ روپے کی رقم ادا کرنے کے بعد بھی جو حالات ہوتے ہیں وہ تو قید بامشقت بمعہ جرمانے والے ہیں۔

برطانیہ میں مقیم ناہید حیات جو کہ برطانوی حزب اختلاف لیبر پارٹی کی انوائرنمنٹل افسر بھی ہیں نے حال ہی میں آبائی شہر سرگودھا سے اپنی واپسی اور قرنطینہ کی منظر کشی کرتے ہوئے اسے مہنگی جیل میں قید بامشقت قرار دیا۔ ناہید مہدی کے مطابق مسافروں کو جیل جیسے حالات میں رکھا جاتا ہے اور صورتحال یہ ہے کہ ورزش کے لئے بھی گارڈز کی کڑی نگرانی میں لے جایا جاتا ہے، جہاں بات چیت کی بھی اجازت نہیں ہوتی ہے۔ ناہید مہدی نے سوال کیا کہ جب ایس او پیز کے مطابق نہ صرف یہ مسافر ویکسی نیٹڈ اور کووڈ نیگٹو ہوتے ہیں وہاں قرنطینہ کے نام پر تذلیل آخر کیوں کی جاتی ہے؟ ناہید حیات کے مطابق کھانا نہ صرف تاخیر سے مہیا کیا جاتا ہے بلکہ انتہائی ٹھنڈا ہوتا ہے جس پر ظلم یہ ہے کہ برطانوی عدالت کی ہدایت کے باوجود کہ مسلمان مسافروں کو حلال کھانا فراہم کیا جائے تو کھانے پر تفصیل ہی نہیں درج کی جاتی کہ جس سے پتہ چل سکے یہ کھانا حلال ہے کہ نہیں

ناہید حیات کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں وہ ان انتظامات پر کڑی تنقید کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کھانے کے برتن دھونے کے لئے سنک کے بجائے کمرے کے ساتھ اٹیچ واش روم میں دھونا پڑتے ہیں جو کہ انتہائی شرمناک اور تکلیف دہ امر ہوتا ہے۔ ناہید حیات جو کہ خود لندن میں ہاؤسنگ اتھارٹی کی ایسوسی ایشن کسٹمر پارٹنر بورڈ کی چیئرپرسن ہیں نے برطانوی حکومت با الخصوص پاکستانی دفتر خارجہ سمیت پاکستانی سفارتخانہ کے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستانی مسافروں کی قرنطینہ کے نام پر ہونے والے تذلیل کا نوٹس لیتے ہوئے فوری ازالہ کیا جائے اور پیش آنے والے مسائل کو بھی مستقل طور پر حل کیا جائے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ناہید حیات جو کہ خود ایک کمیونٹی لیڈر ہیں ان کو ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو دیگر ملکوں اور برطانیہ کے لئے پہلی دفعہ سفر کرنے والے پاکستانیوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جاتا ہوگا۔ وزیراعظم صاحب اوورسیز پاکستانی کو ووٹ کا حق دینے سے پہلے ان کی عزت نفس اور خود داری کی حفاظت کا انتظام بھی کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments