ایک ٹھرکی کی داستانِ حیات


میرا نام ہوشیار خاں ٹھرکی ہے اور تعلق عظیم ملک ٹھرکستان کے شمال مغرب میں بہتے ہوئے دریائے راوی کے کنارے ایک چھوٹے سے گاؤں تاڑ نظر سے ہے جس سے دریائے سندھ نکلتا ہے جو روس تک بہتا چلا جاتا ہے، میرے نام سے آپ بخوبی سمجھ گئے ہوں کہ یہ میرا اصلی نام نہیں ہے جو پیدائش کے موقع پر مجھے دیا گیا تھا،

جب میں پیدا ہوا تو سردیوں کے دن تھے، پیدا ہوتے ہی ابا گود میں اٹھا کر دھوپ میں لائے تو گہرے سیاہ رنگ کے باوجود بھی میں نے لشکارے مارنے شروع کر دیے جس سے بے ساختہ ابا کی زبان سے نکل گیا کہ واہ او میرے لشکارے خاں، پھر یہی نام زبان زد عام ہو گیا حتی کہ سکول وغیرہ میں بھی اسی نام کا اندراج کروایا گیا،

کالے رنگ کے ساتھ لشکاروں نے یہ ثابت کیا کہ میں کوئی معمولی بچہ نہ تھا، لوگوں نے پیشین گوئیاں کیں کہ یہ بڑا ہو کر ضرور کوئی کارنامہ سر انجام دے گا، اور پھر وقت نے ثابت کر دیا کہ لوگوں کی پیشین گوئیاں شیخ رشید سے ذرا مختلف نہ تھیں، ویسے میں نے کچھ ہلکے پھلکے کارنامے سر انجام بھی دیے جن کا ذکر مناسب وقت پر آئے گا، لیکن کوئی عظیم کام نہ کر سکا،

شاید اس لیے کہ شریکوں کی نظر کھا گئی، شاید نہیں بلکہ یقیناً شریکوں کی نظر ہی لگی جو میں کچھ کر نہ سکا، عام طور پر ہمارے گاؤں میں یہی سمجھا جاتا تھا کہ کالے رنگ والے کو نظر نہیں لگتی، مگر یہ بات بھی موجودہ حکومت کے اعداد و شمار کی طرح یکسر غلط ثابت ہوئی۔

کیا آپ اتنے کند ذہن ہیں کہ آپ کے دماغ میں ابھی تک یہ سوال نہیں ابھرا کہ میرا نام ہوشیار خاں ٹھرکی کیوں کر پڑا، اکثر لوگ کہتے ہیں کہ اس نام کے بعد تمھیں شرم کے بحر میں ڈوب مرنا چاہیے مگر میں ایسے لوگوں کو حاسد سمجھتا ہوں جو فقط اس لیے جلتے ہیں کہ ایسا نام ان کے لیے کیوں نہ تجویز کیا گیا، ”یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا“ ، معاملہ کچھ یوں ہے کہ جب میں نے جوانی کی دہلیز پار کی تو گاؤں والوں نے ناک منہ چڑھانا شروع کر دیا، کسی گلی میں مجھ کو آتا دیکھ کر عورتیں دوسری گلی ہو جاتی تھیں،

بھلا یہ بھی کوئی بات تھی کہ میرے نظریں پھاڑ کر دیکھنے سے عورتیں رستہ بدل جائیں، میں یہ ضرور مانتا ہوں کہ ایک دن مجھ سے چھوٹی سے غلطی ہو گئی، مگر سزا اتنی بڑی دی گئی کہ ہٹلر کے گناہوں کا بھی کفارہ ادا ہو جائے، بس غلطی یہ تھی ایک دن گلی میں سامنے سے آتی ہوئی بشیراں کا ہاتھ پکڑ لیا، بشیراں نے ایک ہی جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور روتی ہوئی گھر کی طرف چل دی، میں یہی سمجھ رہا تھا کہ وہ گھر جا کر نہیں بتائے گی، لیکن تقدیر کو کچھ اور منظور تھا، میں اس وقوعے کے بعد ستے خیراں سمجھ کر گھر آ گیا تھا،

تھوڑی دیر بعد دستک ہوئی تو میں نے دروازہ کھولا، کیا دیکھتا ہوں کہ باہر بشیراں کا چھوٹا بھائی کھڑا ہے، اسے دیکھ کر پیشانی پر چند موتی نمودار ہوئے، مگر اگلے ہی لمحے سب ٹھیک ہو گیا، بشیراں کا بھائی کہنے لگا کہ جلدی آؤ، سارے لڑکے گلی ڈنڈا کھیلنے جا رہے ہیں اور تمھیں بھی بلا رہے ہیں، میں بشیراں کے بھائی کے ساتھ جیسے ہی دوسری گلی مڑا تو ایک ہاتھ میری گردن پر آن پڑا، کیا دیکھتا ہوں کہ بشیراں کے دو بڑے بھائی اور ابا کھڑے ہیں، جن کی آنکھوں سے انتقام کے شرارے پھوٹ رہے ہیں،

میری خوب درگت بنائی گئی، گاؤں کا حجام طلب کیا گیا، جس نے میرے سر پر استرا چلایا اور منہ کالا کر گدھے پر بٹھا کر سارے گاؤں میں پریڈ کروائی گئی، بات اگر یہی تھم جاتی تو بہتر تھا، مگر تیر کمان سے نکل گیا تھا، شام کو ابے نے بھی خوب ہاتھ صاف کیے، حالاں کہ میں بالغ تھا لیکن ابے کو اس بات کی کچھ پروا نہ تھی، اس رات مجھے نیند نہ آئی اور تہیہ یہ کیا کہ اب کے بعد کچھ برا کام نہ کروں گا، پہلے جو میں گاؤں کی لڑکیوں اور عورتوں کو سر عام تاڑتا تھا، اب چھوڑ دیا،

گلی میں اگر کسی مہیلا سے سامنا ہو جاتا تو نظریں جھکا لیتا، جب وہ گزر جاتی تو نظریں گھما کر اس کے بدن کو خوب ٹٹول لیتا، آپ ہی بتائیں کہ کہاں سر عام شغل اور کہاں اب چوری چھپے، آنکھوں کی ٹھنڈک کا بھی تو سامان کرنا ہوتا تھا، وہ کسی طریقے کر لیتا تھا، کبھی اپنی چھت سے جھانک کر تو کبھی کسی اور طریقے سے، بس پھر کیا تھا میرے دو حرامی دوستوں کو پتہ چل گیا کہ میں چھپ کر عورتوں کو دیکھتا ہوں، کمینے بال کی کھال اتارنے پر اتر آئے،

ایک دن ملاقات ہوئی تو ایک کہنے لگا کہ بڑے ہوشیار ہو گئے، پہلے جو کام سر عام کرتے تھے اب چھپ کر کرتے ہو، دوسرا کہنے لگا کہ تمھارا یہ ٹھرک کبھی ختم نہ گا، بس پھر کیا تھا پہلے حرامی کا دماغ چلا اور اس نے کہہ دیا کہ تمھارا نام لشکارے خاں نہیں بلکہ ہوشیار خاں ٹھرکی ہونا چاہیے، اور پھر سارا گاؤں پرانا نام بھول گیا،

میں بھی باطل سے کہاں دبنے والا تھا، فوراً کہا کہ ہوشیار میرا لقب ہو گا اور ٹھرک تخلص، ایک دن کسی خرد مند نے ابے کو مشورہ دیا کہ اس کی شادی کر دو، شادی بھی ہو گئی، لیکن شادی کے بعد میں نے اللہ سے لو لگا لی، نماز پڑھنے لگا، نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگا، اپنی بیوی کو حکم دے رکھا تھا کہ ہر صورت پردے میں رہا کرے،

مجھے یہ اعتراف کرنے میں کچھ عار نہیں کہ شادی کے بعد بھی میں عورتوں کے اعضا کو نظروں سے ٹٹول لیتا ہوں لیکن کسی کو خبر نہیں ہوتی، حتی کہ میری بیوی کو بھی نہیں، اب میری ایک بیٹی بھی ہے، لیکن تاڑنے سے میں پھر بھی باز نہیں آیا کہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔

آخری بات: لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں بے حیائی اس لیے پھیل رہی ہے کہ نوجوانوں کی شادیاں جلدی نہیں ہو رہیں، لیکن سر دست معاملہ تربیت کا ہے، ایک عجب چیز درویش دیکھتا ہے ہمارے ہاں عورتوں کو تاڑنے کے معاملے میں محمود و ایاز ایک ہی صف میں ہیں، چاہے شادی شدہ ہوں یا کنوارے، معلوم ہوتا ہے کہ پوری قوم کو ایک دفعہ اٹلانٹک میں دابنا ہو گا تبھی جا کر یہ آنکھوں کی آگ بجھے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments