میں ادبی دنیا کی Muggle ہوں


آپ میں سے جنہوں نے ہیری پورٹر دیکھی یا پڑھی ہے وہ اس اصطلاح مگل سے بخوبی واقف ہوں گے۔ جب شروع میں ہیری پورٹر کو یہ احساس دلایا گیا کہ وہ نجیب الطرفین جادوگر نہیں اور غیر جادوگر دنیا سے آ گیا ہے اور مس فٹ ہے۔ اسے بار بار مگل کہہ کر غیر ہونے کا احساس دلایا جاتا رہا۔

ادبی دنیا میں، خاص طور سے ادبی نشست و برخاست کے حوالے سے میں خود کو کسی قدر Muggle سمجھتی ہوں۔ کیوں کہ مجھے یہاں کی بہت سے روایات کا بالکل اندازہ نہیں۔ جس شہر سے میرا تعلق ہے یہاں ادبی نشستیں اس طرح نہیں ہوتیں جس طرح کراچی لاہور اسلام آباد جیسے شہروں میں ہوتی ہیں۔ میری ڈگری بھی ادب سے متعلق نہیں ہے جو کسی حد تک مجھے یہ روایات سمجھنے میں ”شاید“ مدد کرتی۔

ایک روایت جو مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آ سکی وہ یہ ہے کہ تنقیدی نشست میں صاحب تحریر کو جوابی مکالمے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اکثر تنقیدی نشستیں بہت خوش اسلوبی سے نمٹ جاتی ہیں اور نئے لکھنے والوں کے لیے چاہے ان کی تحریر پیش کی گئی ہو یا وہ حاضرین میں شامل ہوں سیکھنے کے بہت سے مواقع ہیں۔

لیکن کچھ اجلاس ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں تنقید کرنے والے (ضروری نہیں کہ وہ باقاعدہ نقاد ہوں ) غیر منطقی نکات پہ بحث کرتے ہیں، الفاظ کا چناؤ انتہائی نامناسب ہوتا ہے اور سب سے غلط حرکت یہ کہ تحریر لکھنے والے / والی کی ذاتیات پہ اتر آتے ہیں۔ ایک ایسی آن لائن تنقیدی نشست بھی دیکھی جس میں ایک عام سی تحریر پیش ہوئی جو ایکسٹرا میریٹل ریلیشن پہ لکھی گئی تھی اس کے تکنیکی محاسن پہ گفتگو کی بجائے اکثر نے آ کر یہ تنقید کی کہ یہ لکھنے والی کی اپنی کہانی ہے اور فحش ہے۔ بعد میں جاکر کھلا کہ وہ لکھنے والی نہیں لکھنے والا ہے پھر سب منہ دبا کے ادھر ادھر ہو گئے۔

نکتہ یہ ہے کہ ادبی نشستوں میں یہ روایت بنائی گئی کہ صاحب تحریر جوابی مکالمہ نہیں کرے گا۔ اور یہ اصول تب بھی لاگو رہتا ہے جب سامنے سے نامناسب تنقید کی جاتی ہے۔ اپنے الفاظ اور لہجے سے صاحب تحریر کو شدید جذباتی صدمے سے دوچار کیا جاتا ہے۔ نہ ایسے نقاد/ شامل گفتگو کے لیے کوئی اصول ہے مثلاً ایسے افراد جو نامناسب رویہ اختیار کریں گے وہ اگلی چند ادبی نشستوں میں تنقید کا حق کھو دیں گے۔ یا ان کی تحاریر کو کچھ عرصے کسی بھی حوالے سے انٹرٹین نہیں کیا جائے گا۔

ایک شدید غلط فہمی جو ہمارے یہاں صرف ادب میں نہیں بلکہ ہر جگہ پائی جاتی ہے کہ انہی سختیوں سے گزر کے عظیم شخصیت عظیم بنتی ہے۔

حالاں کہ یہ رویہ نئے لکھنے والوں میں سے بہت سے اچھے لکھنے والوں کو بہت جلد مایوس کر دیتا ہے اور ہم انہی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

ہم ادب کو منظم ادارے کے طور پہ نہیں چلا رہے جہاں بنیادی جزو تخلیق کار ہے لیکن اس کے کوئی حقوق نہیں اور چوں کے کوئی حقوق وضع نہیں کیے گئے اس لیے ان کے تحفظ اور فراہمی کا ابھی کوئی نظام نہیں۔ جو زور دار ہو وہ تنقید بھی کسی اخلاقی حدود سے ماورا ہوکے کرتا ہے اور اپنی تحریر کی تنقید پہ بھی جوابی مکالمہ اسی انداز میں کرتا ہے اور کسی ادبی روایت کو خاطر میں نہیں لاتا۔ (ممکن ہے کہ اس نے انہی منفی رویوں سے سروائیو کرنے کا یہ طریقہ سیکھا ہو جو اس بات کی نشاندہی ہے کہ یہ یا تو ادیب کو شروع میں ہی ختم کردیں گے یا ادب کی دنیا کا ”مانسٹر“ بنا دیں گے ) ۔ سروائیو کرنے کے باوجود مثبت رہنا مشکل کام ہے اسی لیے ہمیں ایسی شخصیات بہت کم نظر آتی ہیں۔

اگر تنقیدی نشست میں کیس سنسیٹیو رہ کر اصول وضع کیے جائیں اور اس بنیاد پہ صاحب تحریر کو جوابی مکالمے کی اجازت ملے تو یہ ٹرامیٹک کریٹیسیزم کا رویہ کسی حد تک کم ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ فریقین کو پتا ہوگا کہ جب وہ حدود سے تجاوز کریں گے تو ان کو بطور ادبی شخصیت کچھ دن یا مستقل حوالے سے بائیکاٹ کا سامنا ہو سکتا ہے۔

اس کے لیے ادب کو صرف ایک تفریح کا ذریعہ سمجھنے کی بجائے ایک منظم ادارہ بنانے کی بہت ضرورت ہے۔

ہمیں تاریخ سے یہ سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ جہاں جس پیشے سے منسلک محنت کش خود اپنے حقوق کے لیے نہیں بولتا وہاں اس کے حقوق کے لیے کوئی کام نہیں کیا جاتا۔ ہم خود کو محنت کش، معاشرے کا مصلح اور پتا نہیں کیا کیا کہتے ضرور ہیں لیکن یہ صرف مکالمہ بازی کی حد تک ہی رہ جاتا ہے۔ ہم خود کو ایک ایسے پیشے سے منسلک تصور نہیں کرتے جس کے لیے کوئی باقاعدہ قانون سازی کی جانی چاہیے۔

لیکن اس سطح تک پہنچنے کے لیے ہمیں اپنی ان پرانی روایات پہ نظر ثانی کی ضرورت ہے جو بنیادی طور پہ طبقاتی نظام کی دین تھیں۔ جن کا مقصد مثبت مکالمہ نہیں تھا۔ فرمانبرداری کے نام پہ کمزور کو دبا کے رکھنا مقصود تھا۔ کیوں کہ جو طاقتور بن چکا ہے وہ نہ بطور نقاد خاموش رہتا ہے نہ بطور تخلیق کار۔

ہمیں سائنس میں مکالمہ اور جوابی مکالمہ کی جو روایت نظر آتی ہے اس نے تنقید کرنے والوں پہ بھی ایک اہم ذمہ داری ڈال دی ہے۔ سائنٹیفک سوسائٹیز ایسے دلائل کو خاطر میں نہیں لاتیں جہاں اختلاف برائے اختلاف ہو۔ وہاں تحریر پیش کرنے والے کو جوابی مکالمے کا حق ہوتا ہے۔ جو طریقہ ادب میں بھی ایم فل اور پی ایچ ڈی لیول پہ اپنا تھیسز پیش کرتے ہوئے اپنایا جاتا ہے۔ پھر ادبی نشستیں اس عمدہ اصول سے محروم کیوں ہیں؟

اگر مکالمہ اور جوابی مکالمہ تکنیکی محاسن کے گرد رہے گا اور فریقین کو اس ذمہ داری کا احساس ہوگا تو کسی کی آزادیٔ اظہار اور اپنی ذاتی تشخص کے تحفظ کے لیے کچھ بول سکنے کی آزادی کا بہتر طور پہ استعمال ہو سکتا ہے۔

میں فیس بک پہ ایسے گروپس بھی دیکھ رہی ہوں جو ادب کے نام پہ قائم کیے گئے ہیں لیکن وہاں تنقید کا کوئی تصور ہی نہیں۔ بے وزن شاعری، سطحی سوچ پہ لکھی ہوئی بے ربط تحاریر پہ تعریفوں کے انبار ہوتے ہیں۔ وہاں کئی تحاریر بہت عمدہ خیالات پہ مبنی بھی دیکھی ہیں لیکن وہ باقی غیر معیاری تحاریر کے انبار میں گم ہوجاتی ہیں۔ کیوں کہ ان کو بھی وہی بہت خوب بہت عمدہ والی رائے مل رہی ہوتی ہے جو نامعقول تحاریر کو ملتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان گروپس اور سنجیدہ ادبی پلیٹ فارمز کے بیچ میں شعوری اعتبار سے کئی سو نوری سال کا فاصلہ ہے۔ ان گروپس سے کوئی ترقی کر کے سنجیدہ ادب کی دنیا کا حصہ نہیں بن پاتا کیوں کہ پہلی ہی چند تحاریر میں اس کی تخلیقیت اور ذات کے پرخچے اڑا دیے جائیں گے اور وہ دوبارہ انہی گروپس میں پہنچ جائے گا۔ اور میرا جیسا کوئی Muggle پہنچ بھی گیا تو اسے یہ روایات چبھتی رہیں گی۔

یقیناً کئی ادیب و نقاد ان نکات سے متفق نہیں ہوں گے۔ لیکن میں پہلے ہی کہہ چکی ہوں میرے لیے ادب کی دنیا کچھ نئی ہے۔ میں یہاں کے اصولوں کو سائنس اور معاشرتی پیمانوں پہ بھی پرکھتی ہوں اور بطور ماہر نفسیات یہ مشاہدہ بھی کرتی ہوں کہ کس طرح یہ ادبی روایات ادیب کی نفسیاتی و جذباتی صحت پہ اثر انداز ہو رہی ہیں۔ اور درخواست کرتی ہوں کہ پرانی روایات پہ نظر ثانی کی جانی چاہیے۔

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments