سات ربڑی گیند


صرف تین روپے کی ہی تو آتی تھی مگر پھر بھی نجانے کیوں اماں مجھے نہیں دلواتی تھی۔ میں بہتیرا رویا بگڑا مگر اماں نے ایک نہ سنی۔ جب پورا دن میں نے کچھ کھایا نہ ہی کسی سے بات کی تو اماں نے ہار مان لی اور اپنے دوپٹے کے پلو کی گرہ کھولنے لگی۔ چند سکے پلو کی قید سے آزاد ہو کر ان کی ہتھیلی پہ چمکنے لگے، مگر یہ تو پورے تین سے شاید کچھ آنے کم تھے۔ پھر اماں نے دیوار میں جڑی پرانی لکڑی کی الماری کھولی اور مدت سے دھرے پیتل کے برتن کھنگالنے لگی۔ ایک برتن سے کچھ شور اٹھا تو میری قسمت کھل گئی، تین روپے پورے ہو گئے۔

اماں بازار گئی تو میں بھی ساتھ ہو لیا اور سیدھا اس دکان پہ لے گیا جہاں بہت سا کھیلوں کا سامان رکھا تھا اور ایک پلاسٹک کے ڈبے میں ہلکے سبز رنگ کی تین سات ربڑی گیندیں رکھی ہوئی تھیں۔ اماں نے ان میں سے ایک مجھے خرید کر دی تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اس دن مجھ پہ عجیب سی سرشاری کی کیفیت طاری تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ ہفت اقلیم کی بادشاہی مل گئی تھی۔ اسے دیوار پہ مارتا تو وہ تیزی سے واپس پلٹتی میں کیچ کرتا اور خوب ہنستا۔ اس دن تو میں خوب ہی کھیلا، اماں مجھے دیکھ کر مسکراتی رہی۔

اگلی صبح جلدی سے اٹھا، ناشتے کے بعد سکول جانے لگا تو سات ربڑی گیند کو بستے میں رکھ لیا۔ سکول کے میدان میں ہمجولیوں نے تعریف کی کیونکہ اصلی سات ربڑی گیند تھی۔ مجھے اور میرے ساتھ کھیلنے والے میرے دوستوں کو خبر ہی نہ ہوئی کہ سکول میں اسمبلی کی گھنٹی کب کی بج چکی تھی۔ اسی اثنا میں ماسٹر طالب حسین کی دبنگ آواز نے ہمارے طوطے اڑا دیے۔ وہ ہاتھ میں بید کی چھڑی لیے کھڑے تھے اور میری سات ربڑی گیند ان کے پاؤں میں پڑی تھی۔ ہم سب اپنی جان بچانے کے لیے اسمبلی کی طرف سر پٹ دوڑے۔ اسمبلی میں کھڑے میرے دوست ہنس رہے تھے کہ آج تو جان ہی بچ گئی مگر مجھے تو اپنی گیند کی فکر کھائے جا رہی تھی۔ میں سارا دن بہت افسردہ رہا اور گھر آ کر تو خوب ہی رویا۔ میری سات ربڑی گیند مجھ سے چھن چکی تھی۔

دنوں نے مہینوں اور مہینوں نے سالوں کی پوشاکیں بدل ڈالیں۔ پردیس آئے تو روٹی پاؤں کی زنجیر بن گئی کئی بار اڑنے کی کوشش کی مگر کٹے پروں سے کون اڑ سکتا تھا۔ مگر ان سارے حالات میں مجھے اماں کی دلوائی سات ربڑی گیند بھولی نہ ماسٹر طالب حسین۔ گھر لوٹا تو سب کچھ تھا مگر ماں نہ تھی۔ ویران آنگن سنسان کمروں میں ذرا جی نہیں لگتا تھا۔

گھر سے نکلا کہ کوئی پرانا ہمجولی مل جائے تو ذرا دلبری کی سبیل نکلے۔

دائیں گلی میں چاچا جمالو کی کریانے کی دکان اب بھی ویسی ہی تھی، بس لکڑی کے دروازے کی جگہ آہنی شٹر نے لے لی تھی اور چاچا جمالو جو کب کا آسودہ خاک ہو گیا تھا اس کے کاؤنٹر پہ اس کا جواں سال بیٹا بیٹھ گیا تھا۔ دکان کے باہر لکڑی کے سٹول پہ ایک بوڑھا دونوں ہاتھوں سے لاٹھی کا سہارا لے کر بیٹھا ہوا تھا جس کی نگاہیں زمین میں گڑی ہوئی تھی لیکن کبھی کبھی نظر اٹھا کر آنے جانے والوں کو دیکھ لیتا تھا۔ میں نے غور سے دیکھا تو اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں آیا کہ یہ تو ماسٹر طالب حسین تھے۔

کمر خمیدہ ہو چکی تھی، چہرے پہ جھریوں نے جال بن دیا تھا، سماعت اور بصارت کو ضعف نے گھیر لیا تھا، آواز کی کڑک ماند پڑ چکی تھی۔ مجھے وقت کی واردات پہ حیرت ہو رہی تھی۔ میں نے نہایت احترام سے سلام کیا اور خیر خیریت دریافت کی۔ ماسٹر جی مجھے پہچاننے کی پوری کوشش کر رہے تھے۔ موٹی عینک کے شیشوں کے پیچھے ان کی گدلی آنکھیں مجھے گیندوں کی طرح دکھائی دے رہی تھیں، ہو بہو سات ربڑی گیندوں کی طرح۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments