8 جولائی، 2021ء:  عبدالستار ایدھی صاحب کی پانچویں برسی 


رہنما وہ ہوتا ہے جو اپنی زندگی مخلصی سے عملاً انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دے۔ پاکستان میں اس کی سنہری مثال عبدالستار ایدھی تھے جن کے پائے کی انسان دوست شخصیت ملک میں پیدا ہی نہیں ہوئی ہے۔ آپ کی زندگی اس محاورے کی خوب صورت عملی عکاسی ہے ”نیت صاف۔ منزل آسان“ ۔

انسانیت کو تکالیف میں دیکھ کر کراچی کے علاقے میٹھادر میں واقع ایک چھوٹے سے کمرے میں جب انہوں نے خدمت خلق کا آغاز کیا تو اس وقت مالی اعتبار سے ایدھی فاؤنڈیشن کی حالت اچھی نہ تھی۔ ان کو حکومت اور اداروں سے مدد لینا گوارا نہ تھا۔ وہ ہمیشہ عوام کے پاس مدد کے لیے جایا کرتے تھے۔ یہ ان کا بہترین اخلاق اور اپنے نفس کو قابو میں رکھنا ہی تھا کہ عوام ان پر اندھا اعتماد کرتے تھے اور دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے انہیں بھاری رقوم دے جایا کرتے تھے عوام کے اس اعتماد کو انہوں نے اپنے انتقال تک برقرار رکھا۔

مسیحا انسانیت نے اربوں روپے پاس ہوتے ہوئے بھی دو جوڑے ملیشیا کے کرتے پاجامے اور دو پٹی کی چپل میں ساری زندگی گزاری۔ ان کے آفس میں ائر کنڈیشنڈ تک نہ تھا، وہ سادہ غذا کھاتے اور دھیمے، نرم لہجے میں گفتگو کرتے تھے باوجود اس کے کہ عوام انہیں خود آ کر چندہ دیا کرتے تھے انہوں نے کبھی اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آخر دم تک عوام میں جا کر اپنے ہاتھوں سے چندہ جمع کرتے اور بے سہارا انسانوں کی مدد کرتے رہے۔

دنیا بھر میں انسانیت جہاں بھی تکلیف میں آئی وہ اپنے رضا کاروں کے ہمراہ وہاں پہنچ کر خدمت میں مصروف ہو جایا کرتے تھے۔ ایدھی فاؤنڈیشن کی جانب سے ہزاروں نفسیاتی مریضوں کا علاج کیا گیا، ہزاروں بے سہارا خواتین اور بچوں کو رہنے کے لیے چھت فراہم کی گئی، خصوصاً کراچی جہاں موت سستی قبر مہنگی ہے میں ہزاروں لاوارث لاشوں کو انہوں نے غسل، کفن دیا اور ان کی تدفین بھی کی جن میں وہ لاشیں بھی شامل ہیں جو گلی سڑی ہوتی تھیں جن کی شناخت ہونے پر بھی رشتے دار اس کی غسل، کفن اور تدفین نہیں کرتے تھے۔

ایدھی صاحب پر وقتاً فوقتاً حکمرانوں اور غیر سیاسی قوتوں نے اپنے اپنے مفادات کے تحت دباؤ ڈالنے کی کوششیں کیں جن کو انہوں نے قبول نہیں کیا جیسا کہ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے بتا یا تھا کہ 1990 ء کی دہائی میں ایک جماعت کی حکومت کو گرانے کے لئے ان پر دباؤ ڈالا گیا تھا لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اخلاقی طور پر جرات مند شخص بھی تھے۔ یاد رکھیے کسی کو انکار کرنا بہت بڑی اخلاقی جرات ہوتی ہے۔ عبدالستار ایدھی نے کچھ وقت کے لیے ملک بھی چھوڑنا گوارا کیا لیکن جبر کے آگے سر نہیں جھکایا اور اپنا مقصد جاری رکھا۔

انسان تو انسان جانوروں کے لئے بھی ان کے دل میں بے پناہ درد تھا جس کی خاطر انہوں نے جانوروں کے لئے بھی شیلٹر ہوم بنا یا تھا۔ ان کی زندگی ہی میں ایدھی فاؤنڈیشن دنیا بھر میں ایمبولینس کے سب سے بڑے نیٹ ورک کے طور پر پہچانی گئی۔

وہ نوبل انعام کے حقدار تھے لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر انہیں نوبل انعام نہیں مل سکا۔ اگر نوبل انعام انہیں مل بھی جاتا تو وہ ان کی شخصیت کے آگے چھوٹا ہوتا۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں اقوام متحدہ نے ان کا مجسمہ نصب کیا، ان کی برسی پر سرچ انجن ”گوگل“ نے ان کا تصویری لوگو اپنی ویب سائٹ پر لگا کر انہیں خراج تحسین پیش کیا اس کے علاوہ دنیا کے بیشتر ممالک نے ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں دنیا کی دس بڑی شخصیات میں شمار کیا ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ان کو جتنے اعزازات غیر ممالک سے ملے اس کے آدھے بھی ہمارے حکمرانوں نے انہیں نہیں دیے اور بے حسی کا یہ عالم ہے کہ سرکاری سطح پر ان کی پیدائش اور برسی کا دن تک نہیں منایا جاتا ہے۔

ان کی انسان دوستی کے لیے فکر مندی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے لیے کفن تک نہیں خریدا تھا اور وصیت کی تھی کہ جو لباس وہ پہنے ہوئے ہوں ان کی تدفین اسی میں کی جائے۔ ایدھی صاحب دنیا سے رخصت ہو کر بھی اپنی آنکھیں دو ضرورت مندوں کو دے کر ان کی دنیا روشن کر گئے ان کے انتقال پر بھی ایدھی فاؤنڈیشن کی سروس بند نہیں ہوئی۔

نگاہ برق نہیں چہرہ آفتاب نہیں
وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments