سفری  زندگی: کالونیل ہندوستان سے ایک بے دھڑک آپ بیتی…


پروفیسر ڈاکٹر ساجد علی نے اپنے دادا جی بابو غلام محمد مظفر پوری کی آپ بیتی “سفری زندگی” شائع کی تو اس کا غلغلہ اٹھا۔ انتہائی محبت سے شائع کی گئی اس کتاب کے بعض حصے “ہم سب” پر اور فیس بک پوسٹوں کی صورت میں سامنے آتے رہے اس لیے اس میں کوئی سسپنس تو نہیں رہا لیکن کتابی شکل میں اس کے یکجا مطالعے کا پہلا امپریشن کئی دن سے ذہن پر ہجوم کیے ہوئے ہے۔ یہ بہترین وقت ہے کہ اس مطالعے کا حاصل لکھ کر احباب کو اس میں شریک کر لیا جائے۔

بابو صاحب کی خود نوشت سوانح ایک عملی انسان کی بے دھڑک تحریر ہے جس میں کوئی بناوٹی واقعہ یا ادبی صنائع بدائع نہیں ملتے اور نہ کوئی ایسی ادبی تکنیک ملتی ہے جو مطالعے (Readability) میں اضافے کے لیے استعمال کی جاتی ہو لیکن پھر بھی واقعات کا تنوع، منظر نگاری، سماجی حالات اور پیشہ ورانہ مصروفیات کا بیان ایسا ہے کہ قاری مصنف کی گرفت سے آزاد نہیں ہوتا۔ جو چند اشعار بابو صاحب نے اپنی تحریر میں ٹانکے ہیں وہ برمحل ضرور ہیں لیکن ان سے تحریر میں کوئی خطیبانہ جوش پیدا نہیں ہوتا۔ یہ کتاب کالونیل برصغیر کے کروڑوں باشندوں میں سے ایک عام ہندوستانی کی داستان حیات ہے جو کبھی فارغ نہیں بیٹھا اور اور جو واجبی رسمی تعلیم کے باوجود سول انجینئرنگ میں ریلوے لائن بچھانے اور نہری تہہ بچھانے کے کام میں کمال مہارت حاصل کر گیا اور اس اہلیت کی بنیاد پر ملکوں ملکوں ملازمت کے لیے بلایا جاتا رہا۔ بابو صاحب عام محنتی لوگوں کو رول ماڈل کے طور پر ذکر کرتے ہیں، اور یہ اس کتاب کی نہایت ممتاز خوبی ہے۔

بابو صاحب نے ہندوستان کے بارہ صوبوں میں اور برما، عراق، ایران، یوگنڈا اور کینیا میں ملازمت کی اور مدتوں باہر مقیم رہے لیکن اس کے باوجود ان میں گھریلو، خاندانی اور علاقائی ذمہ داریوں سے لاپروائی والی ایک بھی بات نہیں ملتی۔ حیرت ہوتی ہے کہ وہ کس طرح بیرون ملک نوکری کرنے کے باوجود علاقائی سیاست اور مختلف سماجی کمیٹیوں میں انتہائی فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت، خاندان کے بچوں کی شادیوں اور ان کے عائلی و خانگی مسائل نبٹانے وغیرہ میں مستقل مصروف نظر آتے ہیں، اور جو لوگ ایسا نہیں کرتے ان پر وہ سخت متاسف ہوتے ہیں۔ انھوں نے اپنی سوانح کا اختتام مشرقی افریقہ میں جا آباد ہونے والے ان ہندوستانیوں کی اسی بری عادت کے تذکرے پر کیا ہے۔ لکھتے ہیں: “بعض انسان تو ایسے ہیں کہ وہ اپنے پس ماندگان اور وطن سے تعلق داروں کو بالکل بھول گئے ہیں۔” مزید لکھتے ہیں کہ: “مشرقی افریقہ میں قیام یا ملازمت کا سلسلہ محض عارضی ہے اور ہر ایک نے ایک نہ ایک دن اپنے وطن کو ضرور واپس جانا ہے اور وہاں پر وہی سابقہ زندگی اور کاروبار ہوگا اور آپس میں مل جل کر رہنا ہے۔ ان کو چند عارضی خداؤں کے زیر اثر آکر ایک دوسرے سے بگاڑ پیدا نہیں کرنا چاہیے جو بعد ازاں رخنہ اندازی اور بے اتفاقی کا موجب ہوگا۔” اس قسم کے خیالات سے یہ پوری خود نوشت بھری پڑی ہے اور بابو صاحب قوم کی معاشی بہتری اور معاشرتی سکون کے لیے بہت سنجیدہ نکات بیان کرتے ہیں۔

اس سوانح کا سب سے اہم پہلو معاشی سرگرمی پیدا کرنا اور اس میں لوگوں کو کھپانا ہے۔ معاشی سرگرمی پیدا کرنے کے پہلو سے اس کا مطالعہ کیا جائے تو نظر آتا ہے  کہ سارے ہندوستان کا چپہ چپہ دیکھنے اور 30 برس ملکوں ملکوں میں ملازمت کرنے والے بابو صاحب نے جہاں بھی کام کیا، ان کا ہر ایمپلائر انگریز تھا۔ بھلے یہ ملازمت ایران و عراق جیسے دارالاسلاموں میں ہو یا ہندوستان جیسے دارالحرب میں۔ جتنی دنیا بابو صاحب نے پھری، وہاں پر لوگوں کو ملازمت صرف انگریز دے رہا تھا۔ آپ بے شک یوں کہہ لیجیے کہ انگریز اپنی نوآبادیوں کے لوگوں کا استحصال کر رہا تھا لیکن یہ حقیقت نہیں چھپ سکتی کہ یہی انگریز غریب پروری کر رہا تھا اور بے ہنر ہندوستانیوں کو کارآمد ہنر سکھا رہا اور باعزت روزگار دے رہا تھا۔

بابو غلام محمد مظفر پوری

نوآبادیات قائم کرنے والے انگریز کی استحصالی نفسیات کا ذکر بھی بابو صاحب نے اس طرح کیا ہے کہ لاٹھی نہ ٹوٹے یعنی غریب ہندوستانیوں کے لیے ملازمتوں کا جو دروازہ خدا نے رحم کھا کر کھولا ہے کہیں وہ بند نہ ہو جائے۔ عراق میں مقامی عربوں کے ترک حاکموں کے خلاف فسادات اور انھیں برا بھلا کہنے کا منظر انھوں نے دیکھا اور انھیں یہ اندازہ کرنے میں دیر نہیں لگی کہ انگریزوں نے عربوں کو ترکوں کے خلاف کافی سے زیادہ روپیہ پیسہ دے کر ورغلایا ہوا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب گورنمنٹ انگلشیہ پورے طور پر وہاں جم گئی تو سرکار نے کھجوروں اور عربوں کی دیگر مالیت پر ٹیکس لگانے شروع کیے تب عربوں کی آنکھیں کھلیں اور وہ ہوش میں آئے۔ پھر یہ عرب انگریزوں کو کافر اور برا بھلا کہنے لگے اور ترکوں کو یاد کرکے پچھتایا کرتے تھے۔

بابو صاحب ارائیں ہیں اور اپنی قوم اور علاقے کے دوسرے لوگوں کے لیے انھوں نے قابل قدر عملی سیاسی کام کیے۔ اپنی سوانح میں وہ کئی جگہ پر قومیت کا تقابل کرتے نظر آتے ہیں لیکن یہ اس قدر دلسوزی اور علاقے کے لوگوں کی سیاسی و معاشی بھلائی سے مملو ہوتا ہے کہ اس میں نسلی تعصب نام کو نہیں ہوتا۔ اپنے بھائیوں کے لیے شاملات کے بندوبست میں انھوں نے بہت سا عملی کام کیا اور سماج میں عزت پائی۔

بابو صاحب کی ایک اہم صفت عزیز رشتہ داروں اور اپنے علاقے کے لوگوں کو ملازمت کرنے کے لائق ہنر سکھانا اور ملازمت کے لیے دور دراز مقامات پر اپنے ساتھ لے جانا یا بھجوا دینا ہے۔ انھیں کاہلی اور بیکاری بیروزگاری سے نفرت ہے اور وہ لوگوں کو کام سے لگائے رکھنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ وہ ووٹ مانگنے کے لیے آنے والے سر شاہنواز سے باقاعدہ سوال کرتے ہیں کہ کیا انھوں نے ان کے علاقے سے کسی کو تحصیل دار یا پولیس میں سب انسپکٹر بھرتی کرایا ہے۔ جن لوگوں کو سر شاہنواز کی حیثیت کا علم ہے وہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ کس قدر جرات کا کام تھا۔

بابو صاحب نے مذاہب میں شامل ہونے والی غیر مذہبی رسوم اور عقائد پر جگہ جگہ بڑی پتے کی باتیں کی ہیں اور مزارات کو مکروہ کمائی کا اڈہ بنانے کے واقعات تفصیل سے لکھے ہیں۔ وہ درگاہوں پر نذرانے چڑھانے سے ہونے والی آمدنی کے نظام سے واقف ہونے کے بعد غریب عورتوں کی پونجی لوٹ لینے والے گدی نشینوں مجاوروں کی خوب خبر لیتے ہیں۔ وہ دوسرے فرقوں کی کمیوں کا ذکر بھی کرتے ہیں تاہم یہ ایسے انداز میں کیا گیا ہے کہ گراں باری نہیں ہوتی۔ بابو صاحب جہاں جاتے ہیں وہاں قرآن پڑھتے اور پابندی سے نماز ادا کرتے ہیں لیکن اپنے ہم وطن اور ہم کار انسانوں سے خالص انسانی یعنی سیکولر بنیاد پر معاملہ کرتے ہیں۔ سیکولر کا لفظ ناگوار ہو تو وسیع المشرب کہہ لیجیے۔

Prof. Sajid Ali

بابو صاحب نے چونکہ صرف اپنی سوانح لکھی ہے اور چونکہ اس میں صرف 1945 تک کے واقعات کا ذکر ہے اس لیے کتاب میں نہ تو تقسیم ہند کا تذکرہ ہے اور نہ تقسیم کے وقت کے مرکزی ناموران کا۔ تقسیم سے پہلے کے واقعات میں بھی انگریز کا ذکر جگہ جگہ ہے اور اس کی چالاکیوں اور نالائقیوں کا بھی تذکرہ ہے لیکن یہ سب کا سب صرف نوکری اور براہ راست واسطہ پڑنے والے واقعات ہیں۔ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ بابو صاحب نے آپ بیتی لکھی ہے نہ کہ جگ بیتی۔ تاہم کچھ واقعات انھوں ایسے ضرور لکھے ہیں جو جگ بیتی کے زمرے میں آ جاتے ہیں۔ مثال لیجیے کہ شاہ ایران رضا خان کا واقعہ اور اس کی شیخ خزعل سے کشمکش۔ لیکن شیخ خزعل کو ہتھکڑی لگا کر قید کرکے تہران بھجوانے والے واقعے سے وطن عزیز میں پیش آنے والے ایک ایسے ہی واقعے سے قریبی مماثلت کی وجہ سے کتاب کا یہ حصہ بہت دلچسپ ہوگیا ہے۔

بابو صاحب کی سوانح کا اسلوب بنیادی طور پر لوگوں کی تفہیم والا ہے۔ وہ جہاں جاتے ہیں وہاں کے لوگوں اور موسم کے حالات نیز وہاں ملازمت وغیرہ کے مواقع کا تفصیلی ذکر کرتے ہیں تاکہ کوئی اگر ان کی تحریر پڑھے تو اسے مناسب عملی آگاہی مل جائے۔ وہ بڑی عمارتوں اور اس قسم کی اشیا و افراد کا ذکر نہیں کرتے بلکہ صرف ان چیزوں کے بیان سے سروکار رکھتے ہیں جو عام لوگوں کے کام آتی ہوں۔ چنانچہ ان کی یہ تحریر خواص پسند نہیں بلکہ عوامی اور معاشرتی حالات اور حقائق کا مرقع بنی ہے۔ قلم برداشتہ اس تحریر میں لفظیات اور محاورہ بھی بہت بے ساختہ ہے اور بعض کہاوتوں کی عوامی صورت لکھی گئی ہے نہ کہ خالص ادبی۔ یہ بہت اہم خوبی ہے کہ ضروری بات کو عام فہم انداز میں لکھا جائے نہ اس میں لسانی باریکیاں چھانٹی جائیں۔ اردو اور پنجابی کا بہت سا روزمرہ، لغات سماعیہ (Collocation) نیز ریلوے اور مساحت کے شعبوں کی بہت سی اصطلاحات کے اردو متبادل بھی اس کتاب میں محفوظ ہو گئے ہیں؛ یہ سب اصطلاحات دفتری بابوؤوں کی بنائی ہوئی میکانکی لفظیات نہیں بلکہ شعبے کے لوگوں کی بنائی ہوئی عملی لفظیات ہے جس میں اجتماعی عوامی دانش (Collective Common Wisdom) بھی کارفرما ہے۔

آخر میں چند ملاحظات۔ اس خود نوشت کا زمانہ چونکہ قریب قریب ایک صدی پرانا ہے اس لیے اس میں بعض علاقوں، اداروں اور دیگر بعض چیزوں کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ ڈاکٹر ساجد علی صاحب نے اس ضرورت کو محسوس کرکے اس کو پورا کیا ہے لیکن اگر ایسا کر لیا جائے کہ یہ وضاحت، خصوصًا بعض اداروں کے انگریزی نام اور مخففات، آخر کتاب میں الفبائی فہرست بنا کر شامل ہوجائیں تو اچھا رہے۔ نیز ناموں اور اعلام کا اشاریہ بھی ضروری محسوس ہوتا ہے۔ امید ہے کہ ان گزارشات پر توجہ کی جا سکے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments