بلوچستان کا قومی ڈائیلاگ


بلوچستان کا مسئلہ محض ایک صوبائی مسئلہ نہیں بلکہ اس کی حیثیت ایک قومی مسئلہ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ کیونکہ مسئلہ امن و امان سے زیادہ قومی سیکورٹی کا ہے اور بلوچستان کے اس بحران کو حل کیے بغیر قومی سلامتی اور سیکورٹی کا معاملہ بھی پیچیدہ رہے گا۔ بالخصوص جب اس صوبہ بلوچستان میں ہمیں بھارت سمیت دیگر ممالک کی مداخلت کے معاملات کو دیکھنا پڑتا ہے تو ایسی صورت میں ہماری ریاستی اور حکومتی پالیسی میں بلوچستان کے مسئلہ کو اہم ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔

کیونکہ وہ ممالک جو ہمیں عملی طور پر غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں ان کی یہ پوری کوشش ہوگی کہ وہ ہمارے داخلی مسائل بالخصوص بلوچستان کو بنیاد بنا کر اپنے ایجنڈے کی تکمیل کریں۔ پاکستان کی موجودہ اور سابقہ حکومتیں سمیت ریاستی ادارے بھی بلوچستان میں غیر ملکی مداخلت اور بالخصوص بھارتی طرز عمل پر شواہد کی بنیاد پر اقوام متحدہ سمیت دیگر ممالک اور اداروں کو اپنا مقدمہ پیش کرتے رہے ہیں، مگر کوئی بھی شنوائی نہیں ہو سکی۔

حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان نے گوادر میں بلوچستان میں موجود ناراض بلوچ مزاحمت کاروں سے ملاقات کا عندیہ دیا ہے او ران کے بقول ہم ان ناراض بلوچ راہنماؤں سے مذاکرات بھی کریں گے اور ان کو قومی دھارے میں بھی لانے کی کوشش کریں گے۔ ملک کے سیاسی پنڈت حکومتی تجویز کو مثبت طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اسی طرح فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے زور دے کر اس نکتہ کو پیش کیا ہے کہ اس وقت سیاسی قومی قیادت سمیت فوج کی مکمل توجہ بلوچستان کے امن، ترقی اور استحکام سے جڑا ہوا ہے۔

ان کے بقول موجودہ خطرات میں جامع قومی ردعمل ضروری ہے اور بلوچستان میں سماجی، اقتصادی ترقی کا عمل تیز کرنا ہوگا۔ لیکن یہ کام سیاسی تنہائی میں نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے ریاستی اداروں سے مل کر صوبہ کی ترقی کے کوشش کرنی ہوگی۔ آرمی چیف نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ ہم بطور قوم بلوچستان اور ملک یعنی پاکستان کے دشمنوں کو شکست دیں گے۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کی یہ گفتگو ساتویں بلوچستان نیشنل ورکشاپ کے شرکا جن میں مختلف شعبہ جات کے افراد یا ماہرین شامل تھے سے ہوئی ہے اور اس ورکشاپ کا مقصد مستقبل کی قیادت کو بلوچستان سمیت قومی اور صوبائی معاملات کے بارے میں بہتر آگاہی فراہم کرنا ہے۔ اگر وزیر اعظم اور آرمی چیف کی بات کو تسلیم کیا جائے تو یہ اچھی بات ہے کہ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت بلوچستان کے بارے میں نہ صرف حساس ہے بلکہ کچھ کرنے یا بہتری لانے کا عزم رکھتی ہے۔

کیونکہ مسئلہ محض بیان بازی یا نعرے بازی یا معاملات کو خوش فہمی کی بنیاد پر ٹالنے کا نہیں ہونا چاہیے۔ بلوچستان کی صورتحال ریاستی و حکومتی سطح پرایک بڑے عملی اقدامات کا تقاضا کرتا ہے اور ایسے عملی اقدامات جو نہ صرف عملاً بلوچستان کے تمام لوگوں سمیت ناراض بلوچ مزاحمت کاروں کو بھی مطمئن کرسکے اور یہ عمل قومی سطح پر واضح طور پر صاف اور شفاف انداز میں دیکھا بھی جاسکے۔

کیونکہ ماضی میں بلوچستان کے لوگوں سے بہت سے وعدے کیے گئے اور ناراض بلوچ لوگوں کو قومی دھارے میں لانے کی باتیں بھی ہماری قومی سیاست کا حصہ ہے، لیکن عملی طور پر آج بھی بلوچستان کی صورتحال ریاستی بحران کے تناظر میں اہمیت رکھتی ہے اور ریاستی سطح پر صوبہ بلوچستان پر غیر سنجیدگی کا عمل قومی نقصان کے زمرے میں آئے گا۔ بلوچستان کے بحران کے حل میں دو طرح کے لوگ وہاں موجود ہیں جن میں اول وہ لوگ جو قومی اور صوبائی سیاست سمیت پارلیمان سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔

ان کی سیاسی جدوجہد جمہوری اور قانونی یا آئینی فریم ورک میں جاری ہے۔ جبکہ دوسرا گروہ وہ ہے جو بلوچ مزاحمت کاروں کے نام سے موجود ہے جو پارلیمانی سیاست کی بجائے طاقت کی بنیاد پر اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے دعوے دار ہیں۔ ان کے دونوں گروہوں کے ساتھ علیحدہ علیحدہ سیاسی حکمت عملی درکار ہے او راس کا مقصد ان تمام لوگوں کو یکجا کرنا اور قومی دھارنے میں لانا مقصود ہونا چاہیے۔

بلوچستان سے جڑا اصل اور حقیقی مسئلہ وہاں پر موجود غربت، پس ماندگی، سیاسی، سماجی اور معاشی محرومی سمیت بنیادی حقوق کے حوالے سے انسانی حقوق اور انصاف کی فراہمی کا عمل ہے۔ لاپتہ یا گمشدہ افراد، مقامی لوگوں پر تشدد یا انسانی حقوق کی پامالی، ناکوں پر مقامی لوگوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات بھی اہم ہیں۔ مقامی لوگوں کی تعلیم اور صحت سمیت روزگار کے مسائل بھی اہم ہیں اور کمزور انتظامی ڈھانچہ بھی عملاً لوگوں میں ردعمل کی سیاست کو پیدا کرتا ہے۔ ریاست، حکومت اور شہریوں کے درمیان خلیج، بداعتمادی بھی خود ایک بڑا چیلنج ہے اور اس کا بڑا حل اسلام آباد اور بلوچستان میں بڑھتے ہوئے فاصلوں کو کم کرنا ہونا چاہیے۔

18 ویں ترمیم کے بعد اب پاکستان میں صوبہ ماضی کے صوبوں سے کافی مختلف ہیں۔ ان صوبوں کو سیاسی، انتظامی او رمالی طور پر ماضی کے مقابلے میں زیادہ خود مختاری بھی حاصل ہے۔ اسی طرح اب گورننس یا اچھی حکمرانی اور مقامی لوگوں کے روزمرہ کے مسائل، معاملات او ران کا حل بھی وفاقی حکومت سے زیادہ صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری کے زمرے میں آتا ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں بھی کافی مالی وسائل ترقیاتی فنڈز کے نام پر بلوچستان کے منتخب لوگوں کو ملے تھے، مگر کرپشن، بدعنوانی، کمزور نگرانی اور کمزور احتساب سمیت عدم ترجیحات کی بنیاد پر صوبائی وسائل پر بدترین کرپشن کی گئی او راس کی بھاری قیمت مقامی سطح پر عام لوگوں کو ادا کرنا پڑی جو بدترین حکمرانی کی وجہ سے بنیادی سطح کے مسائل میں جکڑے رہے۔

یہ بات بھی ریاست اور حکومت کے لیے تشویش کا پہلو ہے کہ غیر ملکی طاقتیں جن میں بھارت پیش پیش ہے وہ بلوچستان کے مسئلہ کو بنیاد بنا کر ہمیں کمزور کرنا چاہتا ہے۔ بدقسمتی سے ناراض بلوچ مزاحمت کار بھی کہیں نہ کہیں ان غیر ملکی مداخلتوں کو بنیاد بنا کر ایسے کھیل کا حصہ بن رہے ہیں جو پاکستان کو داخلی بنیادوں پر کمزور کر رہا ہے۔ اسی طرح یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ بلوچ مزاحمت کار کس حد تک وزیر اعظم عمران خان اور فوج کے سربراہ جنرل باجوہ کی مذاکراتی پیش کش پر کیا جواب دیتے ہیں۔

کیونکہ یہ تاثر بھی موجود ہے کہ بہت سے مزاحمت کار اسلام آباد سے کسی بھی قسم کے مذاکرات کے حامی نہیں اور انہوں نے مذاکرات کا دروازہ بند رکھا ہوا ہے جو خود ریاست کے لیے بھی چیلنج بنا ہوا ہے۔ اصولی طور پر تو بلوچستان کی وہ قیادت جو پارلیمانی سیاست پر یقین رکھتی ہے ان ہی کو آگے بڑھ کر ان مزاحمت کاروں اور اسلام آباد کے درمیان ایک بڑے پل کا کردار ادا کرنا ہوگا اور یہ ہی لوگ ایک بڑے ایجنڈے یا روڈ میپ کو سامنے لانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسی طرح اس صوبہ بلوچستان میں مقامی حکومتوں کے نظام کی عدم موجودگی اور مقامی سطح پر عام لوگوں کو سیاسی، انتظامی او رمالی اختیارات نہ دے کر بھی ہم مقامی حکمرانی کے نظام کو تباہ و برباد کر رہے ہیں۔

بلوچستان کی صوبائی قیادت چاہے وہ پارلیمانی سیاست سے جڑے ہوں یا مزاحمت کار ہوں جو بھی حقیقی معنوں میں بلوچستان کے مسائل کا حل چاہتے ہیں ان کو واقعی قومی دھارے کا حصہ بن کر مذاکرات کا راستہ ہی اختیار کرنا ہوگا۔ جو لوگ مذاکرات سے انکاری ہیں اور طاقت کو بنیاد بنا کر اپنا مقدمہ لڑنا چاہتے ہیں ان کو ہم سب کو مل کر سیاسی طور پر تنہا کرنا ہوگا او ران کے خلاف مشترکہ حکمت عملی درکار ہوگی۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس وقت ہمارے دشمن بلوچستان کو بنیاد بنا کر ہمیں داخلی طور پر غیر مستحکم کرنے کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔

اس لیے وزیر اعظم اور آرمی چیف کو مذاکرات اور مفاہمت کے راستے کو اختیار کر کے سیاسی لیڈ لینی ہوگی اور بلوچستان کو یہ باور کروانا ہوگا کہ اسلام آباد واقعی مسائل کے حل میں سنجیدہ ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے لوگ بھی آگے بڑھیں تاکہ دوطرفہ تعاون، نئے امکانات اور مواقع کو بنیاد بنا کر ہم بلوچ لوگوں کو قومی دھارے کی سیاست کا حصہ بنا سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments