کامیاب اینکر بننے کے سنہری اصول


کوئی بھی نیوز چینل لگا کر دیکھ لیں۔ ایک سی افراتفری نظر آئے گی۔ کسی بھی چینل پر رک جائیں وہ دوڑتا ہوا محسوس ہو گا، ۔ ایک سے ٹاک شوز میں ایک جیسا طوفان بپا ہوتا ہے، جسے دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید پھر نائن الیون جیسا کوئی واقعہ ہو گیا ہے لیکن ذرا غور کرنے پہ پتہ چلتا ہے کہ کسی شوخے نے پٹاخے چھوڑے تھے جس کی بریکنگ نیوز بن گئی۔ بات اتنی بھی نہیں ہوتی جتنی داستان بنا لیتے ہیں چینلز والے۔ اور اسی تکنیک سے ہی کامیاب ہوتے ہیں۔

درجنوں تفریحی چینلز ہیں۔ لیکن یہ اپنے ناظرین کو تفریح مہیا کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ اگر ناظرین صحیح معنوں میں انٹرٹین ہوتے ہیں تو وہ نیوز چینلز ہیں۔ نیوز چینلز پرائم ٹائم میں ٹاک شو کی صورت میں وہ سیاسی تھیٹر لگاتے ہیں کہ انٹرٹین کرنے والے چینلز دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ ہر کامیاب نیوز چینل کے پیچھے دس منٹ بعد کی بریکنگ نیوز اور کامیاب ٹاک شو کے پیچھے پروگرام کے میزبان اور مہمان کا ہاتھ ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک بھی ذرا سلجھا ہوا اور دھیمے مزاج کا ہو تو پروگرام کی ناکامی یقینی ہے۔

اگر آپ راتوں رات مشہور ہونا چاہتے ہیں تو کسی نیوز چینل سے منسلک ہوجائیں اور کسی سیاسی پروگرام کی میزبانی شروع کر دیں۔ تو بس پھر آپ کا حال اور حال دونوں بدل جائیں گے۔ ایک کامیاب اینکر بننے کے لیے آپ کو زیادہ محنت کرنے کی ضرورت نہیں۔ بس ذیل میں دیے گئے اصولوں کو یاد رکھیں، تو پھر کوئی بھی آپ کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔

سب سے پہلے جو بات ضروری ہے۔ وہ یہ کہ پروگرام کے میزبان کو بنا توقف بولنا آتا ہو۔ اس کے لیے ایک ہی سانس میں بولنے کی خوب مشق کیجئے۔ میزبان کے لیے تعلیمی قابلیت شرط نہیں، لیکن زبان کی قابلیت ضروری ہے۔ میزبان کو حاضر دماغ، موقع شناس اور جارحانہ مزاج کا ہونا چاہیے۔ کامیاب پروگرام کرنے کے لیے کوشش کی جائے کہ ایسے مہمان منتخب کیے جائیں جو انتہائی قادر الکلام ہوں اور غصے کے تیز ہوں، پارٹی کی ہر بے تکی بات کو ڈیفنڈ کرنے کے ماہر ہوں۔

بد لحاظ قسم کے مہمانوں کو پروگرام میں مدعو کرنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ پروگرام کے میزبان کو کچھ نہیں کرنا پڑتا۔ میزبان پر لازم ہے کہ وہ ایسا ماحول بنائے کہ ٹھنڈے سے ٹھنڈے مزاج کے مہمان کا پارہ بھی ساتویں آسمان کو چھونے لگے۔ پروگرام شروع کرنے سے پہلے میزبان اپنے مہمانوں کو سمجھائے کہ انھیں عملی طور پہ کچھ کام کرنے کی ضرورت نہیں۔ انھیں بس اپنی گفتار سے ثابت کرنا ہے کہ وہ بہت کچھ کر چکے ہیں۔ اس سے نہ صرف وہ عوام میں مقبول ہوں گے بلکہ پارٹی لیڈر کے دل میں بھی ان کے لیے خاص جگہ پیدا ہوگی۔

میزبان مہمان کو یہ ہدایات اچھی طرح ذہن نشین کروا دے کہ کثیر تعداد یہ ٹاک شو دیکھ رہی ہے، لاکھوں لوگوں کی نظریں ان پر جمی ہیں۔ اس لیے دفاعی پوزیشن سے کسی قیمت پیچھے نہیں ہٹنا، خود کو منوا کر اٹھنا ہے۔ ہر پارٹی کو آپ جیسے ”کھرے بندے“ کی ضرورت رہتی ہے۔ ہو سکتا ہے کل کوئی اس سے بہتر پارٹی آپ کی منتظر ہو۔ لہذا آپ پارٹی بے شک روز بدلیں، لیکن زبان آپ کی ایک ہی رہنی چاہیے۔ لیکن میزبان یہ ساری ہدایات دونوں مہمانوں کو الگ الگ کر کے سمجھائے۔

پروگرام کے میزبان کی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ اگر کوئی مہمان تہذیب کے دائرے سے باہر نکلے تو اس کو روکے نہیں، بدتہذیبی دکھانے دے۔ مہمان اگر ذاتیات پہ اتر آئیں اور ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے لگیں تو ایک اچھا میزبان ہونے کے ناتے میزبان پر لازم ہے کہ وہ خود کو ٹھنڈا رکھے۔ بلکہ دل پہ ہاتھ رکھتے ہوئے عامر خان کے سٹائل میں آنکھیں بند کر کے دو بار دہرائے آل از ویل۔ اس دوران مہمانوں کے بیچ اگر گالم گلوچ شروع ہو جائے تب بھی ان کو ہر گز نہ ٹوکے۔

چاہے بپ کی آواز کتنی بار ہی لگانی پڑے لیکن پروگرام آن ائر جانے دے۔ شورو غل بڑھ کر ہاتھا پائی تک پہنچے تو دونوں مہمانوں سے اس طرح لا تعلق ہو جائے جس طرح عالمی ضمیر کشمیریوں سے ہے۔ یہی وہ سنہری موقع ہے جس پہ میزبان کے مستقبل کا فیصلہ ہوگا۔ اگر ایسا موقع آتا ہے تو وہ جان لے کہ اس کے پروگرام کے مقبول ہونے میں قدرت اس کا ساتھ دے رہی ہے۔ ایسے مواقع روز روز نہیں آتے، لہذا میزبان ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے مہمانوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع دے۔ البتہ حفاظتی تدابیر کے تحت خود چند قدم پیچھے ہٹ جائے۔ موضوع کوئی بھی ہو پروگرام ایسے شروع کرے کہ دیکھنے والوں کو لگے کہ بس آج تو میزبان کشمیر لے کر اٹھے گا۔ لیکن ٹھیک پچاس منٹ بعد مسکراتے ہوئے پروگرام کا وقت ختم ہوا، کل تک کے لیے اجازت دیں، کہہ کر غائب ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments