کرپٹو کرنسی، بینکاری نظام اور حکومتیں


انسان لین دین کے لیے ہمیشہ سے ہی کسی ایسی چیز کی تلاش میں رہا ہے جو بطور آلہ مبادلہ، ذخیرہ قدر، اور قبولیت عامہ کی صلاحیت رکھتی ہو۔ نمک، گھونگے، قیمتی دھاتوں سے کاغذی زر کا سفر انسان نے بڑی تیزی سے طے کیا۔ اور ابھی بھی انسان ایسی چیز کی تلاش میں ہے جو اسے ادائیگیوں میں سہولت دے سکے۔ بینک کارڈز اور ای بنکنگ کی جدت نے ادائیگیوں کو نا صرف آسان کر دیا بلکہ ہفتوں مہینوں میں ہونے والی ادائیگیوں کو چند کلکس تک محدود کر دیا۔ اس سب کے باوجود بھی انسان کی تسکین نہیں ہوئی وہ ابھی بھی کسی ایسی چیز کی تلاش میں ہے جو اس کو رقم کی ادائیگیوں میں نا صرف سہولت دے بلکہ اس کی پرائیویسی کو بھی ملحوظ خاطر رکھے۔

جدید ٹیکنالوجی کے دور میں کرپٹوگرافی نے پرائیویسی جیسی چیز کو اینڈ۔ ٹو۔ اینڈ انکرپشن کے ذریعے یقینی بنایا۔ ہے۔ سوشل میڈیا سے لے کر ہر طرح کی ایپلیکیشنز اب کرپٹوگرافی کے ذریعے اپنے صارفین کا ڈیٹا اور ان کی پرائیویسی کو یقینی بنا رہی ہیں۔ اور صارفین کے لیے یہی چیز بہت اہم ہے۔ عام آدمی سے بزنس مین تک ہر شخص اپنی رقم کی ایک جگہ سے دوسری جگہ آسان اور پرائیویسی سے منتقلی چاہتا ہے جو یقیناً بینکس کی ذریعے ممکن نہیں ہے۔

اس مسئلے کا حل ٹیکنالوجی ایکسپرٹس نے ایک دہائی قبل ڈھونڈا اور اسے کرپٹوکرنسی کا نام دیا۔ کرپٹو کرنسی اینڈ ٹو اینڈ ان کرپشن کے ذریعے ڈیجیٹل کوائن ایک جگہ سے دوسری جگہ بغیر کسی تھرڈ پارٹی کو شامل کیے ٹرانسفر کرتی ہے اور یہ کرپٹو کے لیے بنائے گئے ایکسچینج کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس وقت کرپٹوکرنسی میں تقریباً آٹھ ہزار سے زیادہ ڈیجیٹل کوائنز ہیں جن میں اب تک مشہور بٹ کوائن رہا ہے۔ اس کے علاوہ ایتھیریم، بنانس، ڈوج، اور دیگر ہزاروں کوائنز ہیں۔ کوئی بھی کرپٹو گرافی اور بلاک چین سسٹم کا ایکسپرٹ اپنا کوائن لانچ کر سکتا ہے جو کرپٹو کی دنیا میں ایک نئے اضافے کہ طور پر سامنے آنے کے ساتھ ان کی رسد کی زیادتی کی وجہ سے ان کی ساکھ پر سوالیہ نشان ہے۔

عالمی بینک کی 2018 میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق 3.8 ارب لوگوں کا پوری دنیا میں بینک اکاؤنٹ ہے۔ اور کروڑوں خاندانوں کا بینکوں سے روزگار وابستہ ہے۔ بینکس رقوم کی ادائیگیوں میں بطور تھرڈ پارٹی کام کرتے ہیں۔ مگر کرپٹوکرنسی میں تھرڈ پارٹی کا تصور ہی ممکن نہیں ہے۔ کیا دنیا بینکنگ سیکٹر کو یکسر ختم کرنے کے لیے تیار ہوگی؟ اس کا جواب ہر ایک کہ دماغ میں ایک جیسا ہوگا اور وہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ اس لیے دنیا اس صدی میں اس کو شاید قبول کرنے کے لیے تیار نا ہو۔ کیونکہ کرپٹو بینکاری نظام کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

دوسری طرف اگر حکومت کی بات کی جائے تو جب کرپٹوکرنسی میں تھرڈ پارٹی کو معلومات دیے بغیر لین دین کیا جا رہا ہوگا تو حکومتیں ایک باقاعدہ نظام کے ذریعے ٹیکس کولیکشن کر پائیں گی؟ یہ حکومتوں کے لیے بہت بڑا چیلنج ہوگا کیونکہ تھرڈ ورلڈ ملکوں کے علاوہ جدید ترین ملکوں میں بھی ٹیکس کولیکشن ایک بڑا چیلنج ہے۔ انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش جیسی بڑی آبادی کے ملک میں جہاں نارمل حالات میں ٹیکس وصولی ہر سال ایک مشکل کام ہوتا ہے ایسے میں کرپٹو کرنسی کی موجودگی میں حکومتوں کی ٹیکس وصولی ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ اور ٹیکس سے پیسہ اکٹھا کرنے میں ناکام حکومتوں کے کیسے حالات ہوتے ہیں یہ ہر ذی شعور انسان جانتا ہے۔

اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ آنے والے دور میں حکومتیں ماحول کو بہتر بنانے کے لیے کاغذی کرنسی سے چھٹکارا حاصل کریں اور ماحول دوست کرپٹوکرنسی کی طرف جائیں گی۔ ممکن ہے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے عالمی برادری کی طرف سے اس پر کوپن ہیگن جیسا کوئی معاہدہ بھی سامنے آئے۔ مگر ابھی دنیا اس کو قبول کرنے اور کوئی قانونی حیثیت دینے کے لیے تیار نہیں بلکہ کئی ملکوں نے اسے بین کیا ہوا ہے۔ اور کرپٹو میں لین دین کرنے والوں کو عدالتی و قانونی دائرے میں لایا جاتا ہے۔

فی الحال کچھ یوٹیوبرز کا اس پر اپنی رائے دینے سے کاروبار گرم ہے۔ کچھ پاکستانی یوٹیوبرز بھی اس پر مسلسل ویڈیوز بنا کر عوام کو اس کے متعلق اپنی رائے دیتے رہتے ہیں۔ کچھ کا تو دعوی ہے کہ وہ اس سے پاکستان کا قرضہ چکا سکتے ہیں۔ حالانکہ وہ زر کی رسد کہ بنیادی اصولوں سے ناواقف نظر آتے ہیں۔ کرپٹو کسی بھی فرد یا ملک کے لیے تب تک فائدہ مند نہیں ہوگی جب تک دنیا اسے قانونی حیثیت اور زر کا متبادل نا سمجھے۔ کیونکہ جب تک یہ زر کہ متبادل کے طور پر کسی ریاست کی طرف سے قانونی حیثیت اختیار نہیں کرتی تب تک اس کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ ممکن ہے کچھ کمپنیاں آپسی لین دین میں کرپٹو کوائن استعمال کریں یا چند کمپنیاں اپنی پراڈکٹ کی قیمت ڈیجیٹل کوائن میں بھی وصول کرنے لگیں مگر اس سب کے باوجود جب تک عالمی معاشی طاقتیں اسے عوام الناس کے لیے قانونی درجہ نہیں دیتیں اس کا مستقبل غیر یقینی ہے۔

اگر اسے قانونی حیثیت مل بھی جائے تو اس کی مارکیٹ بھی کرنسی ایکسچینج مارکیٹ سے مختلف نا ہوگی۔ ہر ملک ممکنہ طور پر ریاستی سرپرستی میں اپنے ڈیجیٹل کوائن لانچ کرے گا اور یہ اس طرح قبولیت عامہ حاصل کرے گی۔ مگر اس سب کے ہونے میں ایک لمبا عرصہ درکار ہے۔ فی الحال عوام کو راتوں رات امیر بننے کے چکر سے نکل کر اس غیر یقینی سسٹم میں اپنی جمع پونجی نہیں جھونکنی چاہیے۔ کیونکہ چند بڑے انوسٹرز جنہیں وہیلز کہا جاتا ہے وہ اس مارکیٹ کو جب چاہیں جس سمت چاہیں موڑ دیتے ہیں اور ایسے میں نقصان عام آدمی کا ہوتا ہے جس نے اپنی جمع پونجی میں سے پیسہ لگایا ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments