خلا کے گہرے سمندر میں کبھی تیر سکے گا؟



؎ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ اقبال

یہ میری خوش بختی ہے کہ میرا اپنے بچپن کے دوست سہیل زبیری سے ’جو اب ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ سائنسدان بن چکے ہیں‘ میرا متواتر مکالمہ ہوتا رہتا ہے اور ہم سائنس اور نفسیات کے مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کرتے رہتے ہیں۔ وہ خارجی دنیا کے راز مجھ سے اور میں داخلی دنیا کے راز ان سے شیر کرتا ہوں۔ ہم دونوں کی خواہش ہے کہ ہم سائنس اور نفسیات کے علوم عام فہم زبان میں عوام تک پہنچائیں۔ میں نے سہیل زبیری کے ایک مضمون کا ’ہم سب‘ کے قارئین کے لیے ترجمہ کیا تھا اب میں ایک اور مضمون کا ترجمہ اور اس مضمون کے ساتھ ساتھ اپنے چند شاعرانہ تاثرات پیش کرنا چاہتا ہوں۔

پہلے کالم کا تعلق روشنی کے رازوں سے تھا۔
دوسرے کالم کا تعلق خلا کے رازوں سے ہے۔

سہیل زبیری فرماتے ہیں کہ ایک دن وہ اپنے دفتر میں سائنسی کام کر رہے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی۔ جن صاحب نے فون کیا تھا ان کا نام EDGAR MITCHELL تھا۔ ہو سکتا ہے بہت سے قارئین اس نام سے ناواقف ہوں اس لیے بتاتا چلوں کہ وہ ان بارہ خوش قسمت انسانوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے چاند کی زمین پر قدم رکھا۔

ایڈگر مچل اس خلائی جہازAPPOLO 14 کے پائلٹ تھے جس نے پہلی بار چاند کے ہائی لینڈ پر فروری 1971 میں قدم رکھا تھا اور ان کا نام ساری دنیا کے اخباروں کی شہ سرخیوں میں شامل ہو گیا تھا۔

چاند کی سیر کے بعد ایڈگر مچل یہ سوچنے لگے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ انسان خلا کے گہرے سمندر میں تیر سکے۔ جو لوگ راقم الحروف کی طرح خلا کی سائنس سے قدرے کم واقف ہیں وہ یہ جان لیں کہ سائنسدان DEEP SPACE اس خلا کو کہتے ہیں جو نظام شمسی سے بھی دور کا خلا ہے

ایڈگر مچل نے اس امکان پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے سہیل زبیری کو فون کیا تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ سہیل زبیری QUANTUM OPTICS پر دو کتابیں رقم کر چکے ہیں ایک عوام کے لیے اور ایک خواص کے لیے اور کائنات کے چند ایسے رازوں سے واقف ہیں جن سے اکثر عوام ہی نہیں بہت سے سائنسدان بھی ناواقف ہیں۔

ایڈگر مچل سہیل زبیری سے یہ پوچھنا چاہتے تھے کہ کیا خلائی جہاز اس خلا میں سفر کر سکتا ہے جہاں توانائی کا کوئی منبع نہیں ہے۔

جب ہم انسانی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ نجانے کب سے انسان جب آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کے چاند ستارے اور سیارے دیکھتا تھا تو اس کے دل کے نہاں خانوں میں انہیں قریب سے دیکھنے کی خواہش انگڑائیاں لیتی تھی۔

خلا میں سفر کرنا سینکڑوں سالوں سے انسانوں کا خواب رہا ہے۔ اس نے چاند تک پہنچنے کی بہت کوششیں کیں آخر کار وہ خواب بیسویں صدی میں شرمندہ تعبیر ہوا۔ اردو کے نجانے کتنے شاعروں نے نجانے کتنے اشعار اپنی محبوبہ اور چاند کے بارے میں لکھے

؎ چاند کہنا تجھے نہیں بے جا
استعارہ مگر پرانا ہے۔ عارف عبدالمتین

انسان اس حوالے سے بھی متجسس رہا ہے کہ کیا کرہ ارض کی طرح کسی اور سیارے یا ستارے پر بھی زندگی موجود ہے اور اگر ہے تو وہ زمین پر موجود زندگی سے کیسے مختلف ہے؟ اگر انسان نے کسی اور سیارے پر زندگی تلاش کر لی تو یہ شاید اس کی سب بڑی دریافت ہوگی۔ اگر ایسا ہو گیا تو اس طرح کرہ ارض کے انسان کی کائناتی احساس تنہائی میں کمی آ سکے گی۔

جولائی 1969 میں جب پہلے انسان نے چاند کی زمین پر قدم رکھا تو اسے انسان کی سائنسی سوچ کی معراج سمجھا گیا۔ اس کے بعد کئی اور خلائی جہاز چاند پر اترے اور جن بارہ انسانوں نے چاند کو بہت قریب سے دیکھا ان میں سے ایک ایڈگر مچل تھے۔

ان بارہ لوگوں کے بعد چاند کا سفر منقطع کر دیا گیا کیونکہ اس پر بہت زیادہ خرچ آتا تھا
؎ بستیاں چاند ستاروں پہ بسانے والو
کرہ ارض پہ بجھتے چلتے جاتے ہیں چراغ۔ احمد فراز

چاند کا سفر تو ختم ہوا لیکن انسان کا دوسرے سیاروں پر خلائی جہاز بھیجنے کا سلسلہ ختم نہ ہوا۔ اسی لیے اب وہ خلائی جہاز مریخ تک پہنچ چکے ہیں۔

سائنسدانوں کے لیے ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا کبھی انسان نظام شمسی سے دور خلا کے گہرے سمندر میں تیر سکے گا یا نہیں؟ اس سفر میں سب سے بڑی رکاوٹ رفتار ہے۔ انسان نے اب تک کائنات کے جو راز دریافت کیے ہیں ان میں سے ایک راز یہ ہے کوئی شے روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز سفر نہیں کر سکتی اور روشنی کی رفتار 386,000 میل فی سیکنڈ ہے۔ ویسے تو یہ رفتار بہت تیز محسوس ہوتی ہے لیکن جب ہم مختلف سیاروں اور ستاروں سے زمین کے فاصلے کے بارے میں سوچتے ہیں تو یہ رفتار کم محسوس ہوتی ہے۔ ایک خلائی جہاز اگر روشنی کی رفتار سے سفر کرے اور روشنی کے ایک سال میں چھ ٹریلین میل طے کرے تو پھر بھی اسے نظام شمسی سے باہر کے قریب ترین سیاروں تک پہنچنے میں روشنی کے کئی سال لگ جائیں۔

خلا کے گہرے سمندر میں تیرنے کی دوسری اہم دشواری توانائی کی فراہمی ہے۔ خلا میں جب کوئی خلائی جہاز ایک مخصوص رفتار سے کسی مخصوص راستے پر کسی مخصوص منزل کی طرف سفر کرتا ہے تو توانائی خرچ نہیں ہوتی لیکن جب وہ جہاز راستہ بدلتا ہے تو بہت سی توانائی کی ضرورت پڑتی ہے اور اگر ہم اس خلائی جہاز میں کیمرے لگاتے ہیں اور خلائی تصویریں کھینچتے ہیں تو اس کے لیے بھی توانائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ نظام شمسی میں سفر کے دوران تو توانائی کا ممکن منبع سورج ہو سکتا ہے لیکن جب خلائی جہاز سورج سے بہت دور ہوجاتا ہے تو وہ سورج سے توانائی حاصل نہیں کر سکتا اور اپنا سفر جاری نہیں رکھ سکتا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو چیز آج ممکن نہیں کیا وہ آج سے پانچ سو سال ممکن ہوگی؟ اسی طرح جیسے آج سائنس کی ترقی سے بہت سی ایسی چیزیں ممکن ہو گئی ہیں جن کا آج سے پانچ سو سال پہلے کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ عین ممکن ہے کہ مستقبل قریب یا بعید میں سائنسدان ایسے نئے قوانین فطرت دریافت کر لیں جن سے نظام شمسی سے پرے خلا کے گہرے سمندر میں انسان کا تیرنا ممکن ہو جائے۔

1925 کی QUANTUM MECHANICSکی دریافت سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ خلا بالکل خالی ہے اس میں نہ روشنی ہے نہ حرکت ہے نہ توانائی ہے اسی لیے اس کا نام خلا رکھا گیا تھا لیکن سائنس کی جدید تحقیق سے انسان نے یہ نیا راز جانا کہ خلا بھی بالکل خالی نہیں ہے اس میں بھی لامتناہی توانائی ہے ایسی توانائی جس سے ہم پہلے واقف نہ تھے۔ میری ایک تین مصرعوں کی نظم ہے

خلا
خلا اتنا نہیں خالی کہ جتنا ہم سمجھتے تھے
خلا کی کوکھ ان دیکھی توانائی کا منبع ہے
خلا کا راز پراسرار دانائی کا مرکز ہے

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان اس لامتناہی توانائی پر قابو پا سکتا ہے اور اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ اگر مستقبل میں اس نے ایسا کرنا سیکھ لیا تو عین ممکن ہے کہ وہ اپنے خلائی سفر کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں کامیاب ہو سکے لیکن سائنس کی موجودہ ترقی تک ایسا ممکن نہیں ہے۔

سہیل زبیری نے ایڈگر مچل سے اپنے مکالمے میں جدید سائنس کے ان خیالات اور امکانات سے انہیں آگاہ کیا۔ یہ دو سائنس کے پرستاروں کا مستقبل کے انسان کے خلائی سفر کے بارے میں مکالمہ تھا۔

سائنسدانوں کا کائنات کے رازوں کو جاننے کا۔ سچ کی تلاش کا۔ خلا میں توانائی کی تلاش کا اور اس توانائی کو کسی جگہ مرکوز کرنے کا اور اس توانائی سے خلا کے گہرے سمندر میں تیرنے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کا سفر جاری ہے۔

ان معلومات اور امکانات کو جاننے کے بعد اب آپ خلا کے سفر کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ مرزا غالب تو ایک صدی پہلے فرما گئے

؎ ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ سائنسدان کے تخیل اور شاعر کے تصور میں کیا مشترک ہے اور داخلی اور خارجی دنیا کے خلا میں کیا فرق ہے؟

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments