آصف علی زرداری اور نواز شریف


آصف علی زرداری وہیل چیئر پر بیٹھ کر عدالت تک پہنچنا چاہتے ہیں، میاں نواز شریف فی الحال ملک واپس آ کر عدالت نہیں جانا چاہتے۔ یہاں دونوں شخصیات کا موازنہ نہیں، مگر دونوں کے انداز سیاست میں امتیاز کا اظہار ضرور ہے۔ آصف علی زرداری کافی کمزور ہو چکے ہیں اور چلنے پھرنے میں دقت محسوس کرتے ہیں، میاں نواز شریف صحت مند ہیں اور سیر و تفریح کرتے پائے جاتے ہیں۔ آصف علی زرداری ملک میں رہ کر سیاست کرنا چاہتے ہیں اور موجودہ سیاسی نظام میں رہ کراس کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں، جبکہ میاں نواز شریف ملک سے باہر بیٹھ کر سیاسی جدوجہد کرنا چاہتے ہیں۔

لیکن دونوں بزرگ سیاست دان فی الحال کلی طور پر فیصلوں کا اختیار اپنی اگلی نسل مریم اور بلاول کو سونپنا نہیں چاہتے۔ آصف علی زرداری نے گزشتہ دنوں لاہور میں چند ایک سیاست دانوں سے ملاقاتیں کیں اور میاں نواز شریف لندن سے بیٹھ کر پارٹی کو چلاتے پائے جاتے ہیں۔ اگرچہ مریم اور بلاول ملکی سیاسی منظر نامے میں اپنی موجودگی کے نقوش گہرے کر چکے ہیں۔ ملک کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کے یہ نئے چہرے اپنے اپنے انداز سے سیاست کر رہے ہیں۔

مریم نواز پر آزادانہ سیاست کے کئی پہرے ہیں۔ میاں نواز شریف کے حکم کے بغیر مریم نواز کوئی قدم نہیں اٹھا سکتیں، اسی طرح شہباز شریف کی موجودگی، ان کے سیاسی کردار کو محدود کر دیتی ہے۔ البتہ بلاول بھٹو پر زیادہ پہرے نہیں ہیں۔ آصف علی زرداری کے علاوہ کوئی ایسی شخصیت نہیں جو بلاول کو حکم دے سکتی ہو۔ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کی سیاست جس طرح مختلف رنگ اور ڈھنگ کی ہے، اسی طرح مریم اور بلاول کی سیاست کا انداز بھی مختلف ہے۔

بلاول بھٹو کا لب ولہجہ فی الحال ایسا نہیں ہوتا کہ جس پر غیر سیاسی قوتوں کی جانب سے کوئی دباؤ آ سکے یا پارٹی کے اندر سے مسائل پیدا ہو سکیں، لیکن مریم نواز کا انداز قطعیت کا حامل ہوتا ہے۔ اسی انداز کی وجہ سے مریم کو ”طویل خاموشی“ اختیار کرنا پڑ جاتی ہے۔ مذکورہ طویل خاموشی کی وجوہات دیگر بھی ہیں، جیسا کہ شہباز شریف کا مفاہمتی انداز۔ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف، ہر دو شخصیات کو اپنے بچوں کو سیاسی میدان میں آزادانہ اختیارات کے ساتھ اتارنا پڑے گا، ورنہ آمدہ انتخابات میں مریم اور بلاول کی قبولیت سماجی سطح پر زیادہ نہیں ہو پائے گی۔

اسی طرح مریم اور بلاول کو روح عصر کو سمجھنا پڑے گا۔ وزیر اعظم عمران خان ایسے سیاست دان ہیں جو روح عصر سے مکمل طور پر منہ موڑے ہوئے ہیں، اس کا فائدہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی نوجوان قیادت اٹھا سکتی ہے، لیکن مقام افسوس ہے کہ دونوں یہ فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں، جس کی وجہ، ان کے بزرگوں کے انداز سیاست کا ان پر سایہ ہے۔ مریم نواز کا معاملہ تھوڑا مختلف ہے۔ یہ مقدمات میں الجھی ہوئی ہے، ان کے والد تاحیات نا اہل قرار پا چکے ہیں، چچا اور فیملی کے دیگر لوگ بھی عدالتوں کے چکر لگاتے پائے جاتے ہیں، پارٹی کے کئی سرکردہ رہنما بھی مختلف نوعیت کے مقدمات کے زیر اثر ہیں۔

مریم نواز کو مصلحت کی چادر اوڑھنا پڑ جاتی ہے۔ ایسا ہی کچھ معاملہ بلاول بھٹو کا ہے، مگر انفرادی سطح پر بلاول کو ان مسائل کا سامنا نہیں، جن کا سامنا مریم کو کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن مریم کی طویل خاموشی کے بعد کا ایک بیان، سیاسی بحث کا رخ موڑ کر رکھ دیتا ہے۔ مریم نواز کی سیاسی آواز بے پناہ طاقت کی حامل ہے۔ یہ طاقت سیاسی منظر نامے کو یکسر بدل کر رکھ سکتی ہے۔ اسی طرح اگر بلاول پنجاب میں اپنے پارٹی کے نئے امکانات پر توجہ دیں اور نئے سرے سے تنظیم سازی کریں اور اپنے نعروں اور لب و لہجے میں ندرت لائیں تو پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔

آصف علی زرداری ہزار کوششیں کر لیں، مگر آمدہ انتخابات کی فضا کا فیصلہ مختلف ہوگا۔ آمدہ انتخابات، پنجاب کی حد تک مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی کے مابین معرکہ آرائی ہوگی۔ پیپلز پارٹی بہت سارے حلقوں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔ اس کے لیے بلاول بھٹو کو فوکس کرنا پڑے گا۔ پیپلز پارٹی کے پاس پنجاب میں اگرچہ چند قدآور شخصیات ہیں، مگر وہ سب کی سب آصف علی زرداری کی مرہون منت رہتی ہیں اور ان قائدانہ صلاحیتوں سے محروم ہیں، جس کی بنیاد پر وہ پنجاب کے سیاسی گھرانوں پر اثر انداز ہو سکیں، پنجاب کی حد تک پیپلز پارٹی کا یہ المیہ ہے۔

لہٰذا پنجاب میں پیپلز پارٹی کو ایک بار پھر جڑیں بنانے کے لیے بلاول بھٹو کا سہارا لینا پڑے گا۔ یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، چودھری منظور، قمر زماں کائرہ اور مخدوم احمد محمود سیاسی طور پر بڑے نام ہیں، مگر پنجاب کے موجودہ منظر نامے میں یہ اپنے حلقوں تک محدود ہوچکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو پنجاب میں ایک جہانگیر ترین کی ضرورت ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ نون کے پاس پنجاب میں کئی اہم شخصیات ہیں لیکن دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات کے نتائج سامنے ہیں۔

دو ہزار اٹھارہ کی طرح دو ہزار تئیس کے انتخابات میں میاں نواز شریف اور مریم نواز کا کردار نہ رہا تو مسلم لیگ نون کو شدید خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کا آزادانہ کردار اگلے انتخابات کے نتائج کو بدل سکتا ہے۔ اب یہ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف پر منحصر ہے کہ وہ کیسا سوچتے ہیں۔ موجودہ تناظر میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی سیاست میں بنیادی فرق یہ ہے کہ پیپلز پارٹی، نون لیگ کی طرح تذبذب کا شکار ہو کر وقت ضائع نہیں کر رہی۔

چیزیں تیزی سے بدل رہی ہیں، حالات و واقعات میں تبدیلی کے لیے لمبی پلاننگ کی ضرورت کے دن نہیں رہے۔ وقت کا انتظار کرنے کا رویہ بھی فرسودہ ہو چکا۔ مگر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف وقت کا انتظار کر کے پی ٹی آئی کے لیے سپیس پیدا کر رہے ہیں، اس کا نقصان دو ہزار تئیس کے انتخابات میں اٹھانا پڑ سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments