ناروے میں سوشل میڈیا پر فلٹرز کا استعمال کرنے والوں کو اس کا اعتراف بھی کرنا پڑے گا


سپاٹ پیٹ، بڑے ہونٹ اور ملائم جلد۔ ہم سبھی سوشل میڈیا پر براؤزنگ کرتے ہوئے یہ سب کچھ دیکھتے ہیں اور کئی بار یہ جاننا مشکل ہو سکتا ہے کہ ان تصاویر میں کیا چیز تبدیل کی گئی ہے۔

چنانچہ ہم اکثر و بیشتر اپنے بارے میں احساسِ کمتری کے شکار ہو جاتے ہیں۔

پر اگر سوشل میڈیا پر موجود تصاویر کے ساتھ لکھ دیا جائے کہ یہ ایڈٹ کی گئی ہیں یا ان پر فلٹر لگایا گیا ہے، تو کیا اس سے لوگوں کا اپنے جسم اور چہروں کے بارے میں اطمینان بہتر ہو سکتا ہے؟

ناروے میں ایک نیا قانون نافذ ہونے جا رہا ہے جس کے مطابق سوشل میڈیا انفلوئنسرز ایڈٹ شدہ تصاویر بغیر اعتراف کیے پوسٹ نہیں کر سکتے۔

ان قواعد کا اطلاق سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر سپانسرڈ مواد پر ہوگا۔

حکومت یہ چاہتی ہے کہ نوجوانوں میں اپنے جسم کے متعلق موجود دباؤ کو کم کیا جا سکے۔

‘ہمیں اس قانون کی ضرورت ہے’

میڈیلین پیٹرسن 26 سال کی ہیں اور ناروے سے تعلق رکھنے والی سوشل میڈیا انفلوئنسر ہیں۔ اُنھوں نے بی بی سی ریڈیو 1 نیوز بیٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قوانین تبدیل کرنے کا وقت آ گیا ہے اور اُنھیں اُمید ہے کہ اس قانون کے بعد لوگ سوشل میڈیا پر موجود غیر حقیقی تصاویر سے اپنا موازنہ کرنا بند کریں گے۔

‘ہم میں سے بہت سے لوگ اپنے جسم یا اپنے چہروں کے بارے میں پراعتماد نہیں ہیں۔ مجھے پہلے انسٹاگرام کی وجہ سے اپنے جسم کے بارے میں مسائل تھے۔ سب سے بری بات یہ ہے کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ لڑکیوں نے اپنی تصاویر ایڈٹ کر رکھی ہیں یا نہیں۔ اس لیے ہم سب کو جواب چاہییں۔ ہمیں اس قانون کی ضرورت ہے۔’

میڈیلین کو نہیں لگتا کہ اُنھیں اپنی تصاویر میں کچھ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اُن کی پوسٹس 90 ہزار سے زائد لوگوں تک پہنچتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ان تصاویر میں روشنی، کنٹراسٹ یا شارپنس ٹھیک نہیں کرتیں۔

مگر اُن کا کہنا ہے کہ وہ اُن کے چہرے یا جسم کی ساخت میں تبدیلی کرنے والی کسی ایپلیکشن کا استعمال نہیں کرتیں۔

یہ نئے ضوابط نارویجیئن مارکیٹنگ ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے منظور کیے گئے ہیں اور بادشاہ یہ فیصلہ کریں گے کہ نیا قانون کب نافذ العمل ہوگا۔

حکومت کی ویب سائٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کا مقصد سماج پر موجود اس دباؤ کو کم کرنا ہے جس کا سامنا وہ اشتہارات میں بالکل ‘پرفیکٹ’ نظر آنے والے لوگوں کی وجہ سے کرتے ہیں۔

اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ: ‘دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ یہ تجویز بھی دی جا رہی ہے کہ اشتہارات پر لیبل لگایا جائے کہ کون سی تصاویر کو ایسے ایڈٹ کیا گیا ہے کہ اُن میں جسم کی ساخت، جسامت اور رنگت تبدیل ہوئی ہے۔’

یہ قانون سنیپ چیٹ جیسی ایپس میں موجود فلٹرز پر بھی نافذ ہوگا۔

اس میں وہ تمام لوگ شامل ہوں گے جو سوشل میڈیا پر سپانسرڈ پوسٹ کرتے ہیں، مثلاً انفلوئنسرز، اداکار اور گلوکار۔

میڈیلین کا خیال ہے کہ نئے ضوابط کا مطلب ہے کہ ناروے میں کم ہی لوگ اپنی تصاویر ایڈٹ کریں گے۔ ‘وہ اس کا اعتراف کرنے میں شرم محسوس کریں گے چنانچہ ایڈٹنگ کم کریں گے۔

وہ کہتی ہیں: ‘آپ خوبصورت ہیں۔ کچھ مزید لائکس کے لیے اسے مت کھوئیں۔ یہ حقیقی زندگی نہیں ہے۔’

ناروے کے شہر برگن سے تعلق رکھنے والی 26 سالہ انفلوئنسر آئرین کرسچنسن اس سے متفق ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ نیا قانون ‘درست سمت میں قدم’ ہے مگر وہ کہتی ہیں کہ اس پر اچھی طرح غور نہیں کیا گیا ہے۔

‘میرے نزدیک یہ ایک شارٹ کٹ کی طرح ہے اور اس سے تبدیلی نہیں آئے گی۔ ذہنی صحت کے مسائل کی وجہ صرف تبدیل شدہ تصاویر نہیں ہیں اور میرا خیال ہے کہ اشتہاری تصاویر پر لیبل سے لڑکوں اور لڑکیوں کا اپنے بارے میں احساس تبدیل نہیں ہوگا۔’

گذشتہ سال برطانوی ارکانِ پارلیمان کے ایک مطالعے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ 18 سال سے کم عمر زیادہ تر افراد نے کہا کہ سوشل میڈیا پر موجود تصاویر اپنے جسم کے بارے میں اُن کے نظریات پر ‘انتہائی اثرانداز’ ہو رہی ہیں۔

اسی سروے میں 18 سال سے کم عمر صرف پانچ فیصد افراد نے کہا کہ وہ ڈائٹنگ یا سرجری کے ذریعے اپنی جسمانی وضع قطع میں تبدیلی نہیں کروانا چاہیں گے۔

آئرین کہتی ہیں کہ وہ اپنی تصاویر میں اپنے آپ کو تبدیل کر کے نہیں دکھاتیں بلکہ صرف ‘روشنی اور رنگوں’ سے کھیلتی ہیں تاکہ اپنا ‘موڈ’ لوگوں تک پہنچا سکیں۔

‘مجھے لگتا ہے کہ ہمیں زیادہ توجہ اس چیز پر کرنی چاہیے کہ ہم سوشل میڈیا پر نظر آنے والی چیزوں کو کیسے دیکھتے ہیں اور یہ سیکھنا چاہیے کہ سوشل میڈیا کیسے کام کرتا ہے۔’

یہ بھی پڑھیے

ہر 40 سیکنڈ میں ایک مرد خودکشی کرتا ہے۔۔۔

’گندے گندے کمنٹس دیکھ کر آپ ڈر اور تھک جاتے ہیں‘

’بچوں سے ان کے سوشل میڈیا استعمال کے بارے میں پوچھیں‘

لندن سے تعلق رکھنے والی ایم کلارکسن بھی اس سے اتفاق کرتی ہیں کہ ہمیں سوشل میڈیا پر موجود مواد کو دیکھنے میں سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

یہ 26 سالہ انفلوئنسر اکثر اپنی بغیر ایڈٹ کی گئی تصاویر پوسٹ کرتی ہیں اور فلٹرز اور ایڈٹنگ ایپس کی وجہ سے ہونے والے نقصانات پر بات کرتی ہیں۔

مگر ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔

‘جب میں 16 سال کی تھی تو میں نے فوٹوشاپ ڈاؤن لوڈ کیا اور اسے چلانا سیکھا تاکہ میں فیس بک پر اپنی بکینی میں تصویر پوسٹ کر سکوں۔ میں جانتی ہوں کہ جب میں اپنے جسم سے خوش نہیں تھی، اگر اس وقت یہ ایپس موجود ہوتیں تو میں نے انھیں استعمال کیا ہوتا۔ آپ نے بھی کیا ہوتا۔’

وہ جب چھوٹی تھیں تو ایم کہتی ہیں کہ اُن کے لیے خود کا میگزین کوورز پر موجود خواتین سے موازنہ کرنا مشکل تھا کیونکہ وہ ہفتے میں صرف دو مرتبہ ہی آتے تھے۔

آج وہ اُن نوجوان لڑکے لڑکیوں کے لیے پریشان ہیں جو انسٹاگرام استعمال کرتے ہیں اور روزانہ ’50 سے 100′ ایڈٹ شدہ تصاویر دیکھتے ہیں۔

برطانوی ارکانِ پارلیمان نے بھی ایک بل متعارف کروایا تھا کہ لوگ اپنی ایڈٹ کی گئی تصاویر کے ساتھ اعتراف شائع کریں مگر یہ کبھی منظور نہیں ہوا۔

کلارکسن کہتی ہیں کہ برطانوی حکومت کو اسے ‘زیادہ سنجیدگی’ سے دیکھنا چاہیے اور ناروے کی طرح کا قانون متعارف کروانا چاہیے۔

‘اس حوالے سے تمام اشارے موجود ہیں کہ ذہنی صحت کے مسائل، اینگزائٹی اور خوراک کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔’

برطانوی حکومت کی ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ‘منصفانہ، ذمہ دار اور اخلاقی آن لائن تشہیر’ کو فروغ دینا چاہتے ہیں جو سب کے لیے فائدہ مند ہوں اور 2019 میں متعارف کروائے گئے آن لائن ایڈورٹائزنگ پروگرام پر گفت و شنید میں ایڈٹ شدہ تصاویر کا معاملہ بھی اٹھائیں گے۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘میں بہت خوش قسمت ہوں کہ میں نے خود کو انسٹاگرام پر انتہائی مثبت ماحول میں پایا ہے مگر انٹرنیٹ کی بڑی اکثریت کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔’

‘ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کے لیے ہمارا کچھ ضوابط پر متفق ہونا ضروری ہے اور میرا خیال ہے کہ ناروے کا قانون واقعی ایک اچھا آغاز ہے۔ ہم لوگوں کو ایڈٹنگ کرنے سے نہیں روک سکتے۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ مگر ہم اُنھیں کہہ سکتے ہیں کہ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ کو اس کا اعتراف کرنا ہوگا۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32487 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp