ناراض بلوچوں کو منانے سے پہلے راضی بلوچوں کو تو سن لیں



وزیراعظم پاکستان عمران خان سوچ رہا ہے کہ ناراض بلوچوں سے مذاکرات کریں۔ مگر میرے خیال میں وزیراعظم صاحب نے اس معاملہ پر ملک کے اصل حکمرانوں سے مشاورت نہیں کی ہے۔ کیونکہ بلوچستان کے نامور صحافی اور لکھاری انور ساجدی نے دو سال پہلے جب صدر پاکستان عارف علوی سے پوچھا تھا کہ بلوچستان کے حوالے سے بات چیت اور گفت شنید کی گنجائش نکالی جائے گی یا طاقت کا استعمال جاری رہے گا۔ اس پر پاکستانی صدر نے کہا کہ سیکورٹی اداروں کا خیال ہے کہ جو ان کی حکمت عملی ہے وہ موثر ہے اور اس کے ذریعے حالات کو معمول پر لایا جائے گا۔

پچھلے کئی عشروں تک یہ رواج چل پڑا تھا کہ وفاق میں جب کوئی نئی حکومت آتی تھی تو یہ بیان ضرور جاری کرتی تھی کہ بلوچستان کے ساتھ بہت نا انصافیاں ہوئی ہیں اور ہم ان نا انصافیوں اور محرومیوں کا ازالہ کر لیں گے۔ مگر وعدوں کے بعد بھی محرومیاں بڑھتی گئی۔ شاید عمران حکومت یہ تبدیلی لانے میں کامیاب ہو جائے کہ اب مستقبل میں آنے والی حکومتیں بلوچستان کی محرومیوں پر رونے یا معافی مانگنے والے بیان جاری کرنے کی بجائے ناراض بلوچوں سے مذاکرات کرنے کے بیان جاری کریں گے۔

کیونکہ بلوچ کو پتہ ہے پہلے محرومیوں کا ازالہ کرنے کے بیان اور اب مذاکرات کرنے کے بیان صرف بیان دینے کی حد تک ہیں۔ ان پر سنجیدگی سے عمل کرنے کی کوئی کمزور سا ارادہ بھی نہیں ہے۔ اگر وفاق اور ریاست اس معاملہ پر سنجیدہ ہوتے تو بلوچستان کے سابق وزیراعلی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے دور حکومت میں یہ معاملہ بڑی پیش رفت کرتا کیونکہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی حکومت نے بلوچستان کے مسئلہ کو مذاکرات سے حل کرنے کے لئے سنجیدہ اور نتیجہ خیز کوششیں کی تھی مگر عسکری قیادت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ معاملہ آگے نہیں بڑھ سکا۔

تاریخ کے اوراق میں درج ہے کہ مذاکرات کے نام پر بلوچوں کو ہمیشہ کچلا گیا۔ 1958 میں نواب نوروز خان اور ان کے مزاحمت کار ساتھیوں کو مذاکرات کے نام پر غیر مسلح کروا کر پہاڑوں سے اتارا اور پھر پھانسیوں پر چڑھا دیا۔ 2006 میں مشرف حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے چوہدری شجاعت حسین اور مشاہد حسین نواب اکبر بگٹی سے مذاکرات کو نتیجہ خیز بنا سکتے تھے مگر جنرل مشرف بلوچوں کو مذاکرات سے نہیں بلکہ طاقت کی زبان سے سبق سکھانا چاہتے تھے اور طاقت استعمال کر کے دیکھ بھی لیا۔

حالیہ مزاحمتی تحریک جس کے ذمہ داروں سے عمران خان بات کرنے کی خواہش رکھتا ہے یہ تحریک 1948، 1958، 1962 اور 1971 کے تحریکوں سے مختلف ہے۔ گزشتہ تحریکوں کی قیادت نواب اور سردار کر رہے تھے جو ایک خاص مدت کے بعد کمزور پڑ گئے تھے۔ لیکن 2006 میں اکبر خان بگٹی کے شہادت کے بعد شروع ہونے والی تحریک گزشتہ تحریکوں سے نہ صرف طویل تر ہے بلکہ اس تحریک کی قیادت بھی عام بلوچ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے۔ ان ناراض بلوچوں سے مذاکرات کرنے سے پہلے بلوچستان کے مسئلہ کی نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ مگر اب تک اسلام آباد کا یہ رویہ رہا ہے کہ بلوچوں کے خدشات کو سننے اور سمجھنے کی بجائے ان ہی کو را کا ایجنٹ قرار دے کر حقیقت سے منہ موڑا ہے۔

ناراض بلوچوں کو چھوڑ دیں راضی بلوچ جو پاکستان کے آئینی اور جمہوری دائرہ کار میں رہ کر اپنے غضب شدہ حقوق حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان کا ماننا ہے کہ وفاق کو بلوچستان کے ساحل و وسائل سے دلچسپی ہے مگر اس سر زمین پر بسنے والے انسانوں کی فلاح و ترقی سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہے۔ اس بات کی واضح مثال سی پیک کا مرکز گوادر شہر ہے جہاں غیر ملکی اور دوسرے صوبوں سے آنے والے شہریوں کے لئے خاص انتظامات موجود ہیں مگر گوادر کے اصل اور قدیم شہری آج بھی دو بوند پانی اور کچھ گھنٹوں کی بجلی کے لئے گوادر کی سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔

حکومت ناراض بلوچوں سے بات کرنے سے پہلے یہاں کے راضی سیاسی کارکنوں کی خدشات کو سنیں۔ بلوچ جانتا ہے کہ بلوچستان اپنے خاص جیوپولیٹیکل محل وقوع کے باعث عالمی سرمایہ دار طاقتوں کے لئے اسٹریٹیجک طور پر اہم ہے اس لئے ریاست اور وفاق بلوچستان کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتے۔ مگر بلوچستان کے باشندوں کو حق حاکمیت، ساحل و وسائل پر اختیار اور سیاسی آزادی دینے کے حق میں نہیں ہیں۔ بلوچ اور وفاق کے مابین فاصلے اس وقت بڑھنا شروع ہوئے جب بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی پہلی منتخب حکومت کا خاتمہ کیا گیا اور بلوچستان کے سیاسی رہنماء حیدرآباد سازش کیس میں جیل کی کالی کوٹریوں میں بند کر دیے گئے۔ اس وقت کے بعد آج تک وفاق نے بلوچوں کے خدشات سننے کی کوشش نہیں کی۔ اور جس نے بلوچستان کے آئینی حق و حقوق کے لئے آواز بلند کی ہے ان کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔

وفاق اگر ناراض بلوچوں سے بات کرنے سے پہلے راضی بلوچوں کے خدشات کو سنیں اور مسائل کو حل کردیں تو شاید بلوچستان کے حالات بہتری کی طرف جائیں۔

ناراض بلوچ یہ دیکھ رہے ہوں گے کہ سبین محمود، پروفیسر صبا دشتیاری سمیت سینکڑوں اساتذہ اور انسانی حقوق کے علمبردار کارکن سرعام اس لئے قتل کیے گئے کیونکہ وہ پاکستان کے آئینی دائرہ میں رہ کر جمہوری اور پرامن طریقوں سے بلوچ کی مظلومیت کو بیان کرتے تھے۔ پاکستان کے محب وطن صحافی حامد میر کے جسم میں چھ گولیاں اس لئے پیوست کی گئی کیونکہ وہ بلوچستان کے راضی باشندوں کے آئینی اور انسانی حقوق کی بات کرتا ہے۔ بلوچستان کے ہزاروں سیاسی کارکن طالب علم اساتذہ صحافی اس لئے لاپتہ کر دیے جاتے ہیں کیونکہ وہ اپنے آئینی حقوق کی تلاش میں رہتے ہیں۔

باہر بیٹھے ناراض بلوچ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے کے درد ناک مناظر دیکھ رہے ہوں گے جہاں لاپتہ ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی بانک سمی بلوچ، اسٹوڈنٹ لیڈر ذاکر مجید کی بوڑھی والدہ سمیت کئی لاپتہ افراد کے اہلخانہ کئی سالوں سے بیٹھے وفاق اور ریاستی اداروں سے یہ التجا کر رہے ہیں کہ ہمارے پیاروں سے کوئی جرم سرزد ہوا ہے تو ان کو منظرعام پر لاکر پاکستان کے طے کردہ آئین و قانون کے مطابق جیلوں میں رکھ کر سزا دیں۔

پہاڑوں پر بیٹھے مسلح ناراض بلوچ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کی پارلیمانی سیاست پر یقین رکھنے والے سیاسی کارکنوں اور عام بلوچوں کے فیصلہ کو تسلیم کرنے کی بجائے یہاں ایسی سیاسی قیادت کو مسلط کردی جاتی ہے جو بلوچ اور بلوچستان کے مسائل سے بے خبر ہو کر ان قوتوں کی حکم پر چلتی ہے جنہوں نے ان کو بلوچوں پر مسلط کیا ہے۔

ایک ناراض بلوچ نوجوان یہ دیکھ رہا ہے کہ بلوچستان کے طلبا جو کیمپس کی سیاست میں سرگرم ہوتے ہیں وہ رات کی تاریکیوں میں ہاسٹل کے کمروں سے غائب کر دیے جاتے ہیں اور بعد میں ان کی لاشیں کسی ویرانے سے مل جاتی ہیں۔ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ریکوڈیک سینڈک، سوئی گیس، گڈانی گوادر جیونی کے ساحل اور سی پیک سے وفاق نے کھربوں روپے کمائے مگر بلوچستان کی قسمت میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں آئی لیکن ان وسائل اور منصوبوں سے پنجاب اور دیگر صوبے خوب مستفید ہو رہے ہیں۔

ناراض بلوچ سیاسی کارکن یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ریاست کے بڑے قومی اداروں میں آج بھی بلوچ کی موجودگی اور نمائندگی نہیں ہے۔ بلوچستان کی ہی سرزمین وہاں کی حقیقی سیاسی کارکنوں کے لئے بہت تنگ کیا گیا ہے۔

ناراض تعلیم یافتہ بلوچ نوجوان اپنے آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ سی پیک سمیت بلوچستان کے دیگر بڑے منصوبوں کے چیرمین سے لے کر خاکروب تک دوسرے صوبوں سے تعینات ہوتے ہیں اور وفاق کے کوٹہ میں بلوچستان کے لئے مختص ملازمتوں پر بھی غیر بلوچوں کا قبضہ ہے۔ اور پاکستان سے راضی اور آئین سے وفادار بلوچ نوجوان بیروزگار ہو کر دربدر کی زندگی گزار رہے ہیں۔

بلوچستان کے ناہموار حالات سے بھاگ کر یورپ میں پناہ لینے والے ناراض بلوچ صحافی یہ دیکھ رہے ہیں کہ بلوچستان میں پاکستان کی قومی میڈیا مکمل بلیک آؤٹ ہے اور حق و سچ کی بات کہنے اور لکھنے والوں کی لاشیں مل جاتے ہیں اور کسی کو خبر تک نہیں ہوتی۔

بلوچستان کے ناراض بلوچ ریاست اور وفاق کی استبدادی اور استحصالی پالیسیز کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔ تو جناب ان ناراض بلوچوں سے مذاکرات کرنے سے پہلے ان بلوچوں کو مطمئن کیجئے جو پاکستان سے راضی ہیں اور پاکستان کے آئین و قانون کے مطابق چل رہے ہیں۔ پہلے ان کو آئینی و قانونی حق اور حیثیت دے کر ان کو برابر کے شہری تسلیم کر لیں۔ ناراض بلوچوں سے بات کرنے سے پہلے ان بوڑھی ماؤں کے بچوں کو بازیاب کریں جو روز آپ سے فریاد کرتی ہیں کہ ان کے لاپتہ پیاروں کو منظر عام پر لائیں اور ان پر جرم ثابت کر کے پاکستان کے آئین و قانون کے مطابق سزا دیں۔

ناراض بلوچوں سے بات کرنے سے پہلے یہاں کے راضی بلوچ سیاسی کارکنوں، اساتذہ وکلا صحافیوں کو تخفظ دیں۔ یہاں کے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار دیں۔ سیاسی کارکنوں کو سیاست کرنے کی آزادی دیں۔ فی الحال صرف اتنا کچھ کریں کہ راضی بلوچ آپ سے ناراض نہ ہوجائیں۔ باقی بعد میں دیکھ لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments