غیرت کے بھنور میں پھنسی افغان قوم


افغان ایک بہادر اور غیرت مند قوم ہے۔ اس قوم نے سکندر مقدونی سے لے کر امریکی طاقت کا غرور خاک میں ملایا۔ افغانستان کی تاریخ کا باب جب بھی کوئی چھیڑتا ہے۔ تو اوپر ذکر کردہ دو لائنوں میں پورے پانچ ہزار سالہ تاریخ سمو دیتے ہیں۔

دراصل یہ تاثر بنایا گیا ہے کہ افغانستان کی تاریخ جنگ و جدل سے بھری پڑی ہے اور یہی وہ ان کی حقیقی تاریخ ہے۔ یہ ایک طرح کی حقیقت بھی ہے لیکن افغانستان کے دوسرے پہلو پر اتنی تحقیق نہیں ہوئی ہے اگر ہوئی بھی ہے تو وہ تاریخ کے نچوڑ سے نکلے لفظ غیرت میں کہیں کھو سی گئی ہے۔

رواں ماہ سے افغان قوم کی غیرت پھر سے خبروں میں ہے۔ اس کی وجہ ایک اور عالمی طاقت کا افغانستان سے نکلنا ہے۔ لیکن اب اس بابت رائے منقسم ہے۔ ایک رائے اس کو غیرت کے پیرائے میں دیکھتے ہیں اور ان کے مطابق امریکا کا انخلا طالبان کا اس کے خلاف جنگ ہے۔ اور اس کاری جنگ کی وجہ سے امریکا مزید اس قابل نہیں رہا کہ وہ افغانستان میں قیام کرے۔ جبکہ امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ امریکہ جنگ جیت چکا ہے۔ وہ جس مقصد کے لئے افغانستان میں وارد ہوئے تھے وہ مقصد انہوں نے حاصل کر لیا۔

اس کے علاوہ ایک طبقے کی رائے یہ ہے کہ یہ جنگ افغانیوں کی نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کی ہے۔ اور انہی طاقتوں نے افغانستان کو جنگ کا میدان بنایا ہے۔

جنگ کس نے جیتی اور کس کو ہوئی شکست موضوع زیر بحث ہے۔ لیکن اس جنگ میں جو جیت اور ہار کے درمیان اور غیرت کے پاؤں کے نیچے مسل رہا ہے۔ اور جو اس کی قیمت ادا کر رہا ہے اس پر بہت ہی کم بحث کی جاتی ہے۔

یاد رہے افغانستان میں گزشتہ چالیس سال سے مسلسل بغیر کسی وقفے کے جنگ کا تسلسل جاری ہے۔ اور اس جنگ میں لاکھوں افغان اپنی زندگیوں سے محروم ہوچکے ہیں۔ اس کے ساتھ ستر ملین کے قریب افغانیوں نے جنگ کی اثرات سے محفوظ رہنے کے لئے اپنی زمین چھوڑ کر دیگر ممالک میں پناہ کے لئے ہجرت کی ہے۔ موجودہ جنگ میں 2019 تک ایک رپورٹ کے مطابق پانچ سے چھ لاکھ خواتین بیوہ ہو چکی ہیں۔ اور اس کے ساتھ سیو دی چلڈرن کے ایک رپورٹ کے مطابق 2005 سے 2019 تک 26025 بچے یا تو مارے گئے یا معذور ہوئے ہیں۔

چالیس سالہ جنگ میں افغانستان کا انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ جس میں ہر شعبہ شامل ہے۔ کوئٹہ سول ہسپتال کے شعبہ ڈائیلاسس کے سربراہ ڈاکٹر لیاقت تابان کے مطابق جنگ نے افغانستان کے شعبہ صحت کو مکمل تباہ کر دیا۔ اس دوران ہزاروں مریضوں کو بغیر کسی ٹیسٹ کا خون لگایا گیا جو مختلف متعدی بیماریوں کا باعث بنا جس میں ہیپاٹائٹس اور ایڈز شامل ہے۔ اب بھی سالانہ سینکڑوں مریض صحت کے مراکز نہ ہونے کی وجہ سے اپنے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

ڈیٹا جمع کرنے والے ویب سائٹ اور ورلڈ ان ڈیٹا کے مطابق 2127 میں 4300 خواتین دوران زچگی جان کی بازی ہار گئیں۔ اور اس کے ساتھ پانچ سال تک بچوں کی شرح اموات بھی زیادہ ہے سال 2017 میں 27522 بچے فوت ہوئے۔ مذکورہ ویب سائٹ کے مطابق اسی دوران 1441 بچے افغانستان میں خوراک کی کمی کے باعث موت کی منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ 5978 ذیابطیس کے مریضوں نے موت کو گلے لگایا۔ کینسر سے 16670 مریض جان کی بازی ہار گئے تھے۔

اس کے ساتھ افغانستان میں صرف اینگزائیٹی کے مریض 2017 میں ایک ملین سے زائد تھے۔ دیگر ذہنی امراض جس میں شیزوفرنیا اور ڈپریشن اس کے علاوہ ہے۔ انہی ذہنی بیماریوں کی باعث افغانستان میں 1726 افغانیوں نے زندگی سے تنگ افراد نے خودکشیاں کر کے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کر دیا تھا۔ یاد رہے یہ تمام ڈیٹا دو ہزار سترہ کا ہے اور اس میں چند بیماریوں کا ذکر گیا ہے اور یہ وہ تعداد ہے جو رپورٹ ہوا اصل تعداد اس سے کہی زیادہ ہے۔

موت کا رقص صرف صحت تک محدود نہیں ہے بلکہ سڑکوں کی دگرگوں حالت کی وجہ سے 7692 ہلاکتیں صرف 2017 میں ہوئی ہے۔ اور دہشتگردی کے شکار افراد 6092 ہے اور یہ وہ تعداد ہے جو بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے ہیں۔ اس میں بمباری اور جنگ میں کام آنے والوں کی تعداد شامل نہیں ہے اور نہ جنگ میں شامل گروپوں کے سپاہیوں کا ذکر ہے۔ یہ وہ صورتحال ہے جس سے غیرت کی ایک تاریخ رقم ہوئی ہے۔ اور آج بھی یہ تسلسل جاری ہے ہر طرف شکست اور ہار کی شادیانے بجائے جا رہے ہیں اور ایک دوسرے کی ہلاکتوں پر خوش منائی جا رہی ہے۔

ویسے موجودہ صورتحال سے یہی لگ رہا ہے کہ غیرت کی یہ جنگ 2001 پر جہاں رکی تھی وہاں سے پھر شروع ہو رہی ہے اور خانہ جنگی ایک بار پھر افغانستان کی مقدر ہوگی اور افغان قوم غیرت کے بھنور میں پھنسی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments