ڈیڈی! میں سائنٹسٹ بنوں گا


کھلونوں سے کھیلتے ہوئے بغیر سر اٹھائے میرے پانچ سالہ بیٹے نے پوچھا ڈیڈی تجربے کون لوگ کرتے ہیں۔ میں نے جواب دیا۔ Scientists پھر وہ بے اختیار بول پڑا ڈیڈی میں سائنٹسٹ بنوں گا۔ میں نے ایک لمحے کو کافی کا مگ سائیڈ پر رکھا اور سوچ میں پڑ گیا۔ پوری دنیا میں اس وقت 70,00000 سائنس دان زندہ ہیں جو کہ اب تک جتنے بھی سائنسدان گزرے ہیں ان کا ٪ 90 بنتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آج پوری دنیا میں سب سے زیادہ سائنسدان موجود ہیں۔ انسانی تاریخ میں اتنی بڑی تعداد میں سائنسدان کبھی بھی نہیں رہے ہیں۔ دنیا بھر میں ٪ 30 خواتین سائنسدان ہیں یا سائنس کے میدان سے وابستہ ہیں۔ جبکہ جنوبی ایشیا اور بالخصوص پاکستان میں یہ شرع بہت کم ہے۔

ہماری قوم میں ڈاکٹر اور انجینئر بننے کے بعد جو تیسری چوائس رہ جاتی ہے وہ سائنسدان بننے کی ہی ہے۔ یہ سائنسدان ہی ہیں جنہوں نے آج دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جو بھی ترقی ہوئی ہے وہ انہیں کی مرہون منت ہے۔ ہمارے ہاتھ میں جو موبائل فون ہے اس کی شکل و صورت ایسی کیوں ہے اس کی شکل مچھلی کی طرح کیوں نہیں ہے۔ یا ایک کنگھے کی طرح کیوں نہیں جس سے ہم بالوں کو بھی ٹھیک کر لیتے۔ ہمارے ہاتھ میں جو کمپیوٹر کا ماؤس ہے اس کی جسامت ایسی کیوں ہے یہ بھی کسی ماہر ڈیزائنر کا کمال ہے۔ ہمارے ہاتھ میں جو قلم ہے وہ بھی کسی محقق نے اپنی Theory پیش کر کے پہلے ثابت کیا ہوگا۔ یہ جتنے بھی کیوں ہیں ان کا جواب کسی ریسرچر نے دیا ہوتا ہے۔ غرض ہماری زندگی میں آج جتنے بھی سکون ہیں یہ کسی نہ کسی تحقیق کی مرہون منت ہیں۔

یقین کریں یہ سائنٹسٹ ہی وہ جادوگر ہیں جو کسی نابینا کو آنکھیں لگا دیتے ہیں۔ یہ وہی ماہر حیاتیات ہیں جو کئی صدیاں پہلے مصنوعی دل لگا چکے ہیں۔ یہ وہ ماہر طبیعیات ہی ہیں جنہوں نے بجلی ایجاد کر کے پوری دنیا کو قیامت تک کے لئے روشن کر دیا۔ Artificial Intelligenceکا باوا آدم John McCarthy کی وجہ سے گھر بیٹھے آپریشن تک ہو جاتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت سے چلنے والا کمپیوٹر شطرنج کے عالمی چمپئن کو ہرا چکا ہے۔ یہ جفاکش کیمیادان کی تحقیق ہی تھی جس نے 1928 کو Penicillin ایجاد کر کے 20 کروڑ لوگوں کی جانیں بچائی ہیں۔

یہ بلی بار ہی تھا جو امریکہ کی رنگین زندگی چھوڑ کر جنگلوں میں بیس سال صرف یہ دریافت کرنے کے لیے رہا کہ ماحول دن بدن گرم ہو رہا ہے۔ یہ پولینڈ سے تعلق رکھنے والی شرمیلی سی لڑکی مادام کیوری ہی تھی جس نے ریڈیم ایجاد کر کے کینسر سے مرتے لاکھوں لوگوں کو بچا لیا۔ یہ اڈیسن کی انتھک تحقیق ہی تھی جس نے 1093 ایجادات کر کے زندگی کا دھارا ہی بدل دیا۔ دنیا کا سب سے بڑا سائنسدان اسحاق نیوٹن تھا جس نے فزکس کے تین قوانین پیش کر کے ایٹمی دھماکہ کر دیا۔

یہ دسویں صدی کا مسلم سائنسدان ابن ہیشم ہی تھا جس نے کیمرا بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ عباس ابن فرناس ہی تھا جس نے دنیا کا پہلا پیراشوٹ بنایا تھا۔ یہ وہ ماہر ایرانی کیمیادان جابر بن حیان ہی تھا جس نے مشہور تین تیزاب بنائے جس سے آج بھی سیکڑوں کیمیکلز بنائے جاتے ہیں۔ یہ وہی مشہور الجزاری ہی تھا جس نے دنیا کا پہلا پانی سے چلنے والا کلاک بنایا اور والو و پسٹن کے قوانین دریافت کیے۔

یہ وہی مسلم سرجن الزہروی تھا جس کے بنائے ہوئے آلات جراحی آج بھی اسی طرح استعمال ہو رہے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب یہ بجلی سے چلتے ہیں۔ دنیا کی پہلی ہوائی پن چکی Wind Mill سن 634 میں مسلم محقق بنا چکے تھے جس سے یورپ پانچ سو سال بعد آشنا ہوا۔ ویکسین بھی سب سے پہلے جنز اور پاسچر نے نہیں بلکہ ترکی کے ماہرین نے بنائی تھی جو کہ Smallpox کے لیے تھی اور پچاس سال بعد یورپ پہنچی تھی۔ Fountain Pen بھی اس وقت کے سلطان آف مصر نے 953 میں بنوایا تھا۔

یہ گنتی کرنے کا طریقہ جو آج عربی رسم الخط ہے دراصل ہندوستان کا ایجاد کردہ ہے۔ الجبرا سب سے پہلے ایرانی ریاضی دان الخورزمی نے 825 میں ایجاد کیا تھا جبکہ الگورتھم بھی اسی کی ایجاد ہے۔ نویں صدی میں گلیلیو سے پانچ سو سال قبل مسلم محقق بتا چکے تھے کہ زمین گول ہے۔ پندھرویں صدی تک راکٹ بنانے والے بھی مسلم سائنسدان ہی تھے۔

اب آ جائیں عالمی تحقیقات کی طرف۔ 2018 تک سالانہ چھپنے والے ریسرچ پیپرز کی تعداد 25,00000 تک پہنچ چکی ہے اور اس میں چین امریکہ کو مات دے چکا ہے۔ بھارت کا تیسرا نمبر ہے۔ ایران کا پندھرواں اور پاکستان کا 38 نمبر ہے۔ صرف 2013 تک پوری دنیا میں ریسرچ پر ڈیڑھ ٹریلین ڈالر خرچ ہوئے تھے۔ پوری دنیا میں پی ایچ ڈی کرنے والے افراد کی تعداد میں سن 2000 کے بعد بہت تیزی سے اضافہ ہوا جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ ان ممالک میں بھارت اور امریکہ سرفہرست ہیں۔ جبکہ دریافتوں کو پیٹنٹ کروانے کی تعداد میں بھی ٪ 90 اضافہ ہوا ہے ان میں امریکہ، روس، جاپان سرفہرست ہیں۔ ریسرچ کی امداد میں بھی ٪ 100 اضافہ ہوا ہے۔ کسی بھی ملک کی آبادی کے تناسب کے لحاظ سے سب سے زیادہ سائنسدان اسرائیل، جاپان اور امریکہ میں ہیں۔

اب ذرا ہمارے ملک کی طرف نظر دوڑائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے دیگر اسلامی ممالک سے زیادہ سائنسی میدان میں ترقی کی ہے۔ خاص طور پر عسکری و جوہری طور پر پاکستان دیگر مسلم ممالک پر واضح برتری رکھتا ہے۔ ہمارے ملک کے پاس جدید لڑاکا طیارے، ایٹمی میزائل، خودکار ڈرون اور دیگر اسلحہ شامل ہے۔ ناظرین دنیا جس تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اس کے مطابق ہمیں بھی جلدی سے تبدیل ہونا ہے۔ ہماری حکومتوں کو چاہیے کہ خود کچھ نہ کریں مگر دیگر ملکی اور غیر ملکی ریسرچ و ٹیکنالوجی کے اداروں کو مراعات و ترغیبات دے کر بلا لیں۔ باقی کا کام وہ خود کر لیں گے جیسا کہ یورپ میں ہوتا ہے کیونکہ وہاں حکومت خود کچھ نہیں کرتی بلکہ ایسی ہی کمپنیاں کرتی ہیں حکومت صرف ان کو مانیٹر کرتی ہے۔ یہ جلد ترقی کرنے کا شارٹ کٹ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments