افغانستان کی پیچیدہ صورتحال


افغانستان کی صورتحال پیچیدہ اور مشکل بنتی جا رہی ہے۔ بدقسمتی سے امریکہ، اس کی اتحادی افواج، افغان حکومت اور افغان طالبان کسی بھی بڑے سیاسی تصفیہ پر متفق نظر نہیں آرہے۔ امریکہ کے بقول امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ اور داخلی امن کی ضمانت ہم نہیں بلکہ یہ فیصلہ افغان حکومت اور طالبان کو مل کر کرنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ فیصلہ ان ہی دو فریقوں نے مل کر ہی کرنا ہے تو پھر کئی دہائیوں تک امریکہ افغانستان میں کیوں رہا اور کیوں وہ یہاں سیاسی مداخلت سمیت طاقت کا استعمال کرتا رہا ہے۔

سب سے بڑا مسئلہ خود افغان حکومت ہے جو بنیادی طور پر امریکہ کی کٹھ پتلی حکومت ہے، لیکن اسے آج بھی اپنی سیاسی، قانونی اور انتظامی رٹ سمیت ساکھ کا بڑا بحران ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اب نئی صورتحال میں افغان حکومت کا بڑا بھروسا امریکہ کے مقابلے میں پاکستان پر بڑھ گیا ہے۔ اس کے بقول پاکستان افغان طالبان کے خلاف ہماری مدد کرے اور طالبان کو مجبور کرے کہ وہ مذاکرات کا راستہ اختیار کرے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ایک طرف افغان حکومت پاکستان سے سیاسی مدد کی طلب گار ہے تو دوسری طرف پاکستان پر دباو بڑھانے کے لیے وہ مسلسل الزام تراشی اور مخالفت پر مبنی مہم کو بنیاد بنا کر پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کی بجائے بگاڑ رہا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس اہم موڑ پر افغان حکومت اور پاکستان کے درمیان بھی اعتماد سازی کا بحران ہے۔ ماضی میں امریکہ نے افغانستان میں کسی بڑے سیاسی تصفیہ کے بغیر جانے کی جو غلطی کی تھی اس کا امریکہ سمیت ان کے تھنک ٹینک ہمیشہ اعتراف کرتے اور دعوی کرتے کہ مستقبل میں یا آج امریکہ یہ غلطی کسی صورت نہیں کرے گا۔

لیکن آج امریکہ پھر وہی غلطی دہرا رہا ہے کہ فوجیوں کے انخلا سے قبل بغیر کسی سیاسی تصفیہ کے جانا نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان سمیت پورے خطہ کو عدم استحکام کرنے کے مترادف ہے۔ یہ امریکہ کی سیاسی، انتظامی اور عسکری ناکامی ہے یا وہ یہ سب کچھ اس ملک میں ایک بڑی حکمت عملی ”خطہ میں عدم استحکام کو برقرار رکھنا“ کے طور پر کر رہا ہے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ اس اہم اور نازک مرحلہ پر جو اعتماد سازی امریکہ، افغان حکومت، طالبان اور پاکستان کے درمیان ہونی چاہیے تھی اس کا ہر سطح پر فقدان دیکھنے کو مل رہا ہے۔ پاکستان جس نے ایک قدم آگے بڑھ کر افغان امن کی سیاسی میز کو سجایا اور یہ میز پاکستان کی حمایت اور مدد کے بغیر ممکن نہیں تھی، اسے بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ افغان حکومت میں ایسے شدت پسند لوگ ہیں جو پاکستان کی حمایت کو یقینی بنانے کی بجائے اس بیانیہ کو تقویت دے رہے ہیں کہ طالبان نے جو نئی سیاسی طاقت حاصل کی ہے اس کی بڑی وجہ خود پاکستان ہے جو عملاً افغان حکومت کے مقابلے میں افغان طالبان کے پیچھے کھڑا ہے۔

جبکہ پاکستان عملاً پانچ بنیادی باتیں پیش کرچکا ہے۔ اول اگر افغانستان میں امن نہیں ہوتا اور بدامنی سمیت دہشت گردی یا تشدد کی سیاست نے ہی آگے بڑھنا ہے تو اس کا نقصان محض افغانستان کو ہی نہیں بلکہ اس کا براہ راست نشانہ پاکستان ہوگا۔ اس لیے افغانستان کا امن پاکستان کی بنیادی ترجیح ہے جو پاکستان سمیت اس پورے خطہ کے امن اور معاشی ترقی کے عمل سے جڑا ہے۔ دوئم افغانستان کا حل طاقت کا استعمال نہ پہلے کبھی تھا اور نہ اب ہے۔

اس مسئلہ کا حل تمام فریقین کی مدد اور حمایت کے ساتھ ایک بڑا ”سیاسی تصفیہ یا اتفاق رائے“ سے جڑا ہوا ہے۔ مسئلہ کسی ایک فریق کا کابل کو فتح کرنا نہیں بلکہ تمام فریقوں کی مدد سے ایک ایسی حکومت کی تشکیل جو وہاں امن کو نئی طاقت فراہم کرسکے۔ سوئم افغانستان کی داخلی صورتحال کے بگاڑ اور افغان امن کو خراب کرنے میں خود بھارت اہم فریق ہے جو حالات کو درست کرنے کی بجائے بگاڑ کی پالیسی کا حصہ ہے اور افغان حکومت میں کئی ایسے کردار ہیں جو براہ راست بھارت کے ایجنڈے کے ساتھ کھڑے ہیں۔

چہارم امریکی یا اتحادی افواج کا انخلا ذمہ دارانہ ہونا چاہیے اور اگر امریکہ بغیر کسی سمجھوتے کے جاتا ہے تو یہ ایک غیر ذمہ دارانہ فعل ہوگا۔ پنجم اب پاکستان افغانستان میں کسی کی پراکسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا اور نہ ہی اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت دے گا اور نہ ہم کسی ایک فریق کا حصہ بن کر خود کو متنازعہ بنانے کی کوشش کریں گے، ہم سہولت کار ہیں او راب ہماری شراکت داری امن کے لیے ہوگی نہ کہ جنگ کے لیے۔

یہ سوال بھی خارجہ یا علاقائی پالیسی کے ماہرین کے سامنے زیر بحث ہے کہ کیا وجہ ہے کہ امریکہ دو دہائیوں کی محنت اور کاوشوں سمیت افغان زمین پر اپنی موجودگی کے بعد افغانستان کو عدم استحکام کی حالت میں چھوڑ کر کیوں جا رہا ہے، یہ بات واقعی سمجھ سے بالاتر ہے۔ اسی طرح امریکہ اور افغان حکومت کی جانب سے پاکستان پر ڈو مور کا دباو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے حصہ کا کردار ادا کرنے میں ناکام ہوئے ہیں اور ان کی توجہ کا مرکز پاکستان پر دباو ڈالنا یا اس سوچ کو آگے بڑھانا کہ ناکامی کی وجہ ہم نہیں بلکہ خود پاکستان ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو پارلیمنٹ میں کہنا پڑا کہ ہمارے معاملات کو سمجھے بغیر اور ہم پر اعتماد کیے بغیر ڈومور کا مطالبہ نہ صرف غلط ہے بلکہ اس کا شدید ردعمل خود ہماری داخلی سیاست اور فیصلہ سازی میں پیدا ہوا ہے۔ اس لیے امریکہ اور افغان حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ وہ پاکستان کی سہولت کاری سے فائدہ اٹھائے نہ کہ اس پر بداعتمادی پیدا کرے پورے خطہ کو سنگین خطرات میں دھکیلے۔ کیونکہ پاکستان کی تجویز کہ خانہ جنگی سے بچنے کے لیے وہ ہر فریق کو شراکت اقتدار کی تجویز دیں گے، یہ ہی مسئلہ کا حل ہے اور سب فریق اسی پر توجہ دیں۔

ایک بڑا مسئلہ افغان حکومت کی اپنی داخلی ناکامی کا بھی ہے۔ کئی برسوں تک امریکہ کی حمایت یافتہ اور مددگار حکومت کے باوجود افغانستان کی یہ حکومت نہ تو امن و امان کو کنٹرول کر سکی اور نہ ہی اپنی سیاسی ساکھ قائم کر سکی۔ اس کے پاس بھی افغان بحران کا حل نہیں اور یہ خود کو بالادست رکھ کر مسئلہ کا حل چاہتی ہے جو ممکن نہیں۔ اس وقت افغان حکومت ایک سیاسی بوجھ ہے اور امریکہ کو بھی یہ اندازہ ہوا ہے کہ مسئلہ افغانستان کی اس حکومت کے کنٹرول میں نہیں۔

البتہ ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ افغان طالبان نے کہا ہے کہ ہم پر یہ الزام کہ ہم محض طاقت یا جنگ کو بنیاد بنا کر کابل کا کنٹرول چاہتے ہیں جو ہم کر بھی سکتے ہیں، مگر ایسا نہیں ہم آج بھی افغان حکومت سے سیاسی تصفیہ چاہتے ہیں اور یہ تاثر درست نہیں کہ ہم مذاکرات کے عمل کو خراب کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ کیونکہ طالبان کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ اگر اس نے کابل پر حکومت کو یقینی بنانا ہے تو اسے بین الا اقوامی قوتوں کو اپنے ساتھ ملانا ہوگا۔ سیاسی تنہائی میں حکومت ممکن نہیں او ر یہ ہی وجہ ہے کہ ان کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ ہم دنیا کے قابل قبول نظام اور معاہدہ لائیں گے اور جو خطرات یا خدشات ہمارے بارے میں پیش کیے جا رہے ہیں وہ درست نہیں، ہم بھی دنیا کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں۔

امریکہ کو یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ اب وہ محض ڈکٹیشن یا دباو کی پالیسی اختیار کر کے نہ تو افغان بحران کا حل نکال سکتا ہے اور نہ ہی پاکستان سے یا دیگر ممالک سے اس کے تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کی بظاہر پالیسی اب علاقائی سطح پر جیو معیشت یعنی ”معاشی ترقی اور نئے معاشی امکانات کو پیدا کرنا اور فائدہ اٹھانے“ سے جڑی ہے۔ اس لیے امریکہ کا یہ دباو کہ پاکستان ایک مخصوص بلاک کا حصہ بنے درست نہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان بھی بداعتمادی کی بجائے اعتماد سازی، ایک دوسرے کے معاملات کو سمجھنا، بلاوجہ کا دباو ڈالنے یا محض الزام تراشیوں سے گریز پر مبنی ہونا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments