افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی اور عمران خان صاحب کی خوشیاں


بیس سال کی فوجی مہم جوئی کے بعد امریکہ کی فوجیں افغانستان سے رخصت ہو رہی ہیں۔ بلکہ بعض مقامات سے تو اتنے پر اسرار طریقہ پر رخصت ہوئیں کہ اتحادیوں کو بھی علم نہ ہوسکا۔ کیا یہ صرف ایک غیر ملکی افواج کی رخصتی کا معاملہ ہے یا اس کے ساتھ کوئی اور عمل بھی چل رہا ہے۔ یہ صرف امریکی افواج کی رخصتی نہیں ہو رہی بلکہ اس کے ساتھ افغان طالبان ایک کے بعد دوسرے مقامات پر قبضہ کر رہے ہیں۔ طالبان تو یہاں تک دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ افغانستان کے پچاسی فیصد علاقے پر قبضہ کر چکے ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ یہ ایک مبالغہ آمیز دعویٰ ہو لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ مختلف ممالک کے ساتھ سرحدوں پر واقع مقامات پر تیزی سے قبضہ کر رہے ہیں اور حکومتی افواج ان کے مقابل پر فرار کا راستہ اختیار کر رہی ہیں۔ طالبان کے دستے افغان سرزمین پر تو پیشقدمی کر رہے ہیں لیکن دوہا میں طالبان اور افغان حکومت کے مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی۔

بی بی سی سے انٹرویو کے دوران زلمے خلیل زاد صاحب سے پوچھا گیا کہ اگر امریکی افواج کے نکلنے کے بعد اگر طالبان نے کابل پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو امریکی رد عمل کیا ہو گا۔ اس پر انہوں نے کمال سادگی سے جواب دیا کہ یہ تو ایک فرضی سوال ہے۔ جیسا کہ انہیں یہ علم ہی نہیں کہ طالبان پہلے بھی کابل پر قبضہ کر چکے ہیں اور اب بھی ان کے یہی ارادے ہیں۔ اور ایک ہفتہ قبل وزیر اعظم عمران خان صاحب نے ایک بیان میں کہا کہ امریکی افواج کے نکلنے کے بعد افغانستان میں سب سے زیادہ نقصان ہندوستان کو اٹھانا پڑے گا کیونکہ اس نے افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔

ہمارے محترم وزیر اعظم مغرب کو تو خوب سمجھتے ہیں کیونکہ وہ وہاں پر کرکٹ کھیلتے رہے ہیں۔ لیکن مناسب ہوگا کہ ہم کسی والہانہ خوشی کے اظہار سے قبل کچھ اپنی تاریخ پر بھی نظر ڈال لیں۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحد ایسی سرحد نہیں کہ جس میں دہشت گردوں کو آنے جانے میں زیادہ دشواری کا سامنا کرنا پڑے۔ اور اگر طالبان افغانستان پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ پاکستان میں بھی ان کی سرگرمیاں تیز ہو جائیں گی۔ اس بات پر بغلیں بجانے سے پہلے کہ افغانستان میں بھارت کی سرمایہ کاری غارت ہو جائے گی، ہمیں یہ فکر کرنی چاہیے کہ ان واقعات کا پاکستان پر کیا اثر پڑے گا؟

اگر ہم ماضی قریب کی تاریخ پر ہی نظر ڈالنے کا تکلف کر لیں تو اظہار مسرت کی بجائے تشویش کا اظہار ہونا چاہیے۔ دہشت گردوں کے یہ گروہ خواہ کسی بھی نام سے سرگرم ہوں ان کی ذہنیت ایک جیسی ہوتی ہے۔ یہ تاریخ فراموش نہیں کی جا سکتی کہ ان شدت پسندوں کے نظریاتی لیڈروں نے پاکستان کی مختلف مذہبی شخصیات سے ملاقاتیں کر کے انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ پاکستان کی فوج کے کفر کا فتویٰ جاری کریں۔ ان میں ایک القاعدہ کے شیخ عیسیٰ المصری بھی تھے۔

انہوں لال مسجد کے عبد العزیز صاحب کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ اگر وہ پاکستان کی فوج کے خلاف فتویٰ نہیں دیں گے تو خدا انہیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔ چنانچہ لال مسجد سے یہ فتویٰ صادر کیا گیا کہ جو پاکستانی فوجی شمالی وزیرستان میں لڑتے ہوئے جائیں گے ان کا جنازہ جائز نہیں ہے اور یہ مناسب نہیں ہوگا کہ انہیں مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے۔ اس طرح لال مسجد کی بغاوت کا آغاز ہوا۔

(Inside Alqaeda and Taliban by Syed Saleem Shehzad p 160-162)

طالبان پاکستان میں مختلف مقامات میں ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں سوات میں ہونے والے واقعات ابھی لوگوں کی یاداشت سے محو نہیں ہوئے۔ 2004 میں سوات میں شدت پسندوں نے اپنا ریڈیو سٹیشن قائم کر کے اپنی نشریات نلکہ غیر قانونی نشریات شروع کیں۔ لوگوں کو باور کرایا گیا کہ پاکستان میں نظام عدل بہت سست رو ہے جب ہمارا نظام نافذ ہو گا تو سب کو فوری انصاف مہیا ہو گا۔ پاکستان کی حکومت حرکت میں نہیں آئی۔

نتیجہ یہ نکلا کہ ملا فضل اللہ نے 2007 میں حملہ کر کے سوات کے اہم مقامات پر قبضہ کر لیا۔ مقامی لیڈروں کو قتل کر دیا گیا اور حکومتی عہدیدار مقابلہ کرنے کی بجائے رو پوش ہو گئے۔ یہاں تک کہ فوج کو آپریشن کر کے اس علاقے پر طالبان کا قبضہ ختم کرانا پڑا۔ پھر اسی سوات میں لوگوں کو سزائے موت دے کر ان کی لاشوں کو بازاروں میں لٹکا چھوڑا گیا۔ عورتوں اور مردوں کو سر عام کوڑے لگائے گئے۔ لڑکیوں کے سکول سب سے زیادہ ان کے نشانے پر تھے۔ اس طرح ملک کا ایک خاطر خواہ حصہ حکومت کی عملداری سے نکل جاتا ہے اور پاکستان کا حکومتی نظام مفلوج نظر آتا ہے۔

یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کی جا سکتی کہ ایک وقت میں پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان کے ایک کمانڈر نے ایک اشتہار شائع کیا تھا کہ شیعہ احباب دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور وہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اب ان کے پاس تین راستے ہیں یا تو وہ اپنا مسلک چھوڑ دیں یا پھر جزیہ ادا کریں یا پھر ملک چھوڑ دیں۔ ورنہ ان کی املاک پر قبضہ کر لیا جائے اور ان کو غلام بنایا جائے گا۔ اور انہی پاکستانی طالبان نے یہ دھمکی بھی دی تھی کہ اگر ملازمت کرنے والی عورتیں بغیر پردہ کے نکلیں تو ان کے چہروں پر تیزاب پھینکا جائے گا۔

مالی منفعت کے لئے طالبان نے پاکستان میں اغوا برائے تاوان کا کاروبار شروع کیا۔ اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے لوگوں کو اغوا کر کے وزیرستان میں رکھا گیا اور ان کے گھر والوں سے بھاری رقوم کا مطالبہ کیا گیا۔

[پنجابی طالبان مصنفہ مجاہد حسین ص 102 تا 103 و 122 ]

ایسے گروہ اپنی بغاوت کا جواز پیدا کرنے کے لئے طالبان اور ان جیسے دوسرے گروہ پہلے یہ فتویٰ دیتے ہیں کہ حکومت اور اس کے تمام عہدیدار کافر ہو چکے ہیں۔ اس فتوے کے بعد یہ نتیجہ پیش کیا جاتا ہے کہ اب تو ان حکمرانوں سے جہاد فرض ہے۔ اور اس طرح اپنے پیروکاروں کو بغاوت پر آمادہ کیا جاتا ہے۔

اب تک طالبان جو عظیم خدمات سر انجام دے چکے ہیں یہ صرف ان کی چند مختصر جھلکیاں ہیں۔ ہم پاکستان کے ان ہزاروں شہیدوں کے خون کو فراموش نہیں کر سکتے جنہیں طالبان اور ان جیسے دوسرے گروہوں نے نے ظالمانہ طریق پر موت کی گھاٹ اتارا۔ ان حقائق کی موجودگی میں اگر وزیر اعظم صاحب اس بات پر خوشی محسوس کر رہے ہیں کہ طالبان کے عروج کے ساتھ بھارت کو مالی نقصان برداشت کرنا پڑے گا تو یہ خیال انہیں ہی مبارک ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر طالبان افغانستان پر قابض ہو گئے اور حسب سابق انہوں نے پاکستان میں بھی پاؤں جمانے شروع کر دیے تو اس کا نقصان نہ بھارت کو ہو گا اور نہ امریکہ کو ہوگا۔ اس کا خمیازہ افغانستان اور پاکستان کو بھگتنا پڑے گا۔ اور بڑی طاقتیں ایک محتاط فاصلے سے ان حالات کو دیکھتی رہیں گی۔ اور پھر ان بگڑے ہوئے حالات کو بہانہ بنا کر اس خطے میں مداخلت کے ایک نئے دور کا آغاز کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments