زائر حرمین۔ پارٹ الیون۔ فسوں ارض حرم


مسجد قبلتین سے ہوٹل واپسی کا قصد کیا کہ باقی زیارات شام میں کریں گے۔ راستے میں مسجد عنبریہ نظر آئی۔ بے حد پرکشش انداز میں تعمیر کردہ اس مسجد میں نماز متروک ہے کیونکہ اس مسجد کی سمت کعبۃ اللہ کی سمت سے مطابقت نہیں رکھتی۔ مدینہ میں جہاں مسجدوں کی اکثریت سفید رنگ کی ہے، وہاں گہرے سرمئی رنگ کی پروقار سی یہ مسجد ترکوں کی تعمیر کردہ ہے۔ بہت جی چاہا کہ اسے قریب سے دیکھا جائے، اس کے اندر جایا جائے لیکن مقفل ہونے کے اور وقت کی قلت کے باعث اس خیال کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔ یہ مسجد حجاز ریلوے میوزیم کے قریب ہی واقع ہے۔

سفر کا سلسلہ جہاں صبح منقطع کیا تھا، مغرب کے قریب قریب وہیں سے جوڑ دیا۔ صبح کی نسبت اس وقت موسم زیادہ خوشگوار تھا۔ ابو بکر صدیق روڈ، جو کہ اس سائٹ سینگ بس کا ایک اہم پوائنٹ ہے، مختلف بین الاقوامی برانڈز کی اشیائے ضرورت اور متعدد بین الاقوامی فوڈ چینز کا مرکز بھی ہے۔ اس وقت یہاں جگ مگ کرتی روشنیاں اور گہما گہمی تھی۔

جانے پہچانے راستوں سے ہوتے ہوئے بس اگلی منزلوں کی جانب رواں دواں تھی۔ رات کے اس پہر سفید رنگ کی مسجد قبلتین نور میں نہائی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ کچھ ہی دیر میں بس نے ہمیں جامع الخندق کے سامنے لا کھڑا کیا۔ یہ بھی سفید رنگ کی وسیع و عریض مسجد ہے۔ سفید رنگ پر سفید روشنیاں اور میناروں میں لگی ہرے رنگ کی روشنیاں عجب دلکش سا سماں پیدا کر رہی تھیں۔ ہمارے وہاں پہنچتے ہی عشاء کی اذان ہونے لگی۔ مسجد الحرام کے بعد جامع الخندق وہ دوسری مسجد تھی جہاں مؤذن کی آواز و انداز نے مجھے مسمرائیز کر دیا تھا۔ اس مسجد میں سجدہ کرتے ہوئے خیال آیا کہ جانے اس جگہ کس کس جلیل القدر ہستی نے سجدہ کیا ہو گا۔ انہی خیالات میں گم واپسی کو دوڑ لگائی کیونکہ بس کو اپنی اگلی منزل کی طرف جانا تھا۔

اگلی منزل مسجد قباء تھی۔ چھت میں نصب بڑے بڑے فانوسوں کی جھلملاتی روشنیوں اور سرخ قالینوں سے آراستہ یہ وسیع و عریض مسجد بھی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھی۔ مدینہ سے قریباً تین یا پانچ کلومیٹر دور یہ مسجد ایک قصبہ قبا میں مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر سے قبل تعمیر کی گئی تھی۔ اس مسجد کو تاریخ اسلام کی قدیم ترین اور اولین مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ نبی اکرام ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا اور روایات میں آتا ہے کہ اس مسجد میں دو رکعت نماز نفل پڑھنے کا ثواب ایک عمرے کے ثواب کے برابر ہے۔

دن کے اس وقت بس میں ایک سہولت رہی، جتنی دیر ہم ایک منزل پر قیام کرتے، قریباً اتنا ہی وقت بس بھی وہاں موجود رہتی۔ ہمارے فارغ ہوتے ہی بس کا ہارن بجتا سنائی دیتا۔ ہم دوڑ کر اس میں سوار ہو جاتے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ کم وقت میں زیادہ مقامات کی زیارت کر لی اور نقصان یہ ہوا کہ زیادہ غور و خوض کا وقت ملا، نہ ہی کوئی مسجد مکمل طور پر دیکھی جا سکی۔ سعودی عرب کے لوکل وقت کے مطابق رات ساڑھے نو بجے الازھری بس سٹیشن پر یہ سفر اپنے اختتام کو پہنچا۔

دن میں دوران سفر امی، بھائی اور بھابھی اس امر پر خیالات کا اظہار کر رہے تھے کہ سعودی عرب رہنے والے لوگ کتنے خوش نصیب ہوتے ہیں، جب چاہا مکہ مدینہ حاضری دے لی۔ کیا ہی اچھا ہو جو ہم بھی مستقل یہیں سکونت اختیار کر لیں۔ وہ تینوں اس معاملے میں ایک دوسرے کے ہم خیال تھے اور میں اس خیال سے کچھ نا متفق۔ جب انہوں نے میری رائے طلب کی تو میں نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ مجھے نہیں لگتا میں یہاں رہ سکوں گی، مجھے اسلام آباد بہت یاد آئے گا۔

میں اپنے پسندیدہ شہر سے دور نہیں رہ پاؤں گی۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مکمل قطع تعلقی کرنے کو کون کہہ رہا ہے۔ وہاں بھی جاتے رہیں گے۔ لیکن میرے خیال میں ایسا کرنے سے میرا آدھا وجود اسلام آباد میں ہی رہ جانا تھا۔ تب مجھے معلوم نہ تھا کہ تب آدھا وجود اسلام آباد میں رہتا، اب آدھا وجود وہاں رہ گیا ہے یا شاید وہ شہر، وہاں گزارا وقت میرے اندر رہ گیا ہے۔ یہ کیسا فسوں ہے اس شہر کا، جو اتنے سے دنوں میں اپنا اثر چھوڑ گیا ہے؟

! فسوں نہ ہوتا تو میں شاید یہ سب لکھ ہی نہ رہی ہوتی۔ یہ سب لکھنے کا میں نے وہاں سوچا بھی نہ تھا۔ سوچا ہوتا تو ممکن ہے وہاں موجود چیزوں کو، مقامات کو کسی لکھاری کی سی زیرک نظر سے دیکھا ہوتا۔ لیکن لکھاری کی نظر سے بھی تو تب ہی دیکھا جا سکتا ہے جب آپ لکھاری ہوں۔ یہ لکھنا تو بس ان تجربات و کیفیات کا بیان ہے جن سے اس سفر نے مجھے روشناس کرایا۔

یاد آتے ہیں ہم کو وہ شام و سحر
وہ سکون دل و جاں وہ روح و نظر
یہ انہی کا کرم ہے انہی کی عطا
ایک کیفیت دل نشیں رہ گئی​۔
۔

عروج احمد۔ کرکٹ، کمپیوٹر، سیاست، فوٹوگرافی اور سیاحت سے شغف ہے۔ کتابوں سے رشتہ بہت پرانا ہے۔ لکھنا شوق ہے اور فلیش فکشن میں طبع آزمائی کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ گاہے بہ گاہے بلاگ بھی لکھتی رہتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments