کان کے فلمی میلے میں اداکارہ کے زیورات چوری: بڑی وارداتیں کرنے والا ‘پنک پینتھرز گینگ’ کون ہے؟


برطانوی اداکارہ جوڈی ٹرنر اسمتھ پہلی مرتبہ اپنی نئی فلم ‘آفٹر یانگ’ کی افتتاحی تقریب میں معروف برینڈ کے تیار کردہ زیورات پہن کر شریک ہوئی تھیں۔
ویب ڈیسک — فرانس کے پُر فضا مقام کان میں سجنے والے فلمی میلے کو عالمی شہرت حاصل ہے اور اس میں دنیا بھر سے فلم نگری کی ممتاز شخصیات جمع ہوتی ہیں۔ لیکن اس میلے کا نام زیورات کی چوری کی بڑی وارداتوں کے ساتھ بھی جڑ گیا ہے۔

رواں برس کان کا یہ فلمی میلہ چھ سے 17 جولائی تک ہو رہا ہے اور اس بار چوروں نے ہالی وڈ اسٹار جوڈی ٹرنر اسمتھ کے زیورات پر ہاتھ صاف کیے ہیں۔

برطانوی اداکارہ جوڈی ٹرنر اسمتھ پہلی مرتبہ فیسٹول میں شریک ہو رہی تھیں۔ گزشتہ ہفتے جمعرات کو وہ اپنی نئی فلم ‘آفٹر یانگ’ کی افتتاحی تقریب میں معروف برینڈ گوچی کے تیار کردہ زیورات پہن کر شریک ہوئی تھیں۔

اس کے اگلے ہی روز جب وہ اپنی ایک برس کی بیٹی کے ساتھ ناشتہ کرنے کے لیے ہوٹل کے کمرے سے باہر گئی ہوئی تھیں تو ان کے زیورات چوری ہو گئے۔

پولیس نے خبررساں ادارے ‘اے ایف پی’ کو بتایا کہ چوری کی اس واردات کی تحقیقات جاری ہیں لیکن یہ واضح نہیں کہ جوڈی ٹرنر کے گوچی کے وہ زیورات چوری ہوئے ہیں جو انہیں برینڈ نے تقریب کے لیے مستعار دیے تھے یا چوری ہونے والے زیورات ان کی ملکیت تھے۔

واضح رہے کہ اکثر زیورات تیار کرنے والے مشہور برینڈ بڑی تقریبات کے لیے اداکاروں کو زیورات مستعار دیتے ہیں۔

ٹرنر اسمتھ کے زیورات کے بارے میں پولیس کا کہنا ہے کہ ان کی مالیت ہزاروں یورو نہیں جیسا کہ ان کے بارے میں تصور کیا جا رہا تھا۔

البتہ کان فلم فیسٹیول میں زیورات کی چوری کا یہ واقعہ نیا نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی لاکھوں ڈالر کے زیورات اس میلے میں چوری ہو چکے ہیں۔

ان وارداتوں میں بیش قیمت زیورات اور ہیروں کی چوری سے جڑے ایک پُراسرار گروہ کا نام بھی آتا ہے۔

زیورات کی چوری اور ’پنک پینتھرز گینگ‘

‘اے ایف پی’ کے مطابق فلمی میلے کی میزبانی کرنے والا فرانس کا یہ پُرفضا مقام کان بیش قیمت زیورات اور جواہر چرانے والے نقب زنوں کے بدنام زمانہ بین الاقوامی گروہ ‘پنک پینتھرز گینگ’ کی شکار گاہ بن چکا ہے۔

سن 2013 میں کان کے کارٹن ہوٹل سے 13 کروڑ ڈالر کے جواہرات چوری ہوئے تھے۔ اس واردات کا شبہہ بھی پنک پینتھرز گینگ پر کیا جاتا ہے۔

اس کے بعد 2013 ہی میں کان فلم فیسٹیول کے دوران 16 لاکھ یورو کا قیمتی ہار اور کچھ جواہرات بھی غائب ہوئے تھے۔

اس سال کان فلم فیسٹول 6 سے 15 جولائی تک جاری رہے گا۔
اس سال کان فلم فیسٹول 6 سے 15 جولائی تک جاری رہے گا۔

اسی طرح 2015 میں مقامی پولیس کو ایک بار پھر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا جب فیسٹیول کے آغاز سے کچھ ہی روز قبل کان میں زیورات کی ایک بڑی دکان سے ایک کروڑ 75 لاکھ یورو کی خطیر مالیت کے زیورات چوری ہو گئے تھے۔

پیرس میں 2015 میں ہالی وڈ کی معروف اداکارہ اور ماڈل کم کارڈیشن کے ہوٹل کے کمرے میں ہونے والی زیورات کی ڈرامائی ڈکیتی میں بھی ‘پنک پینتھرز گینگ’ کے ملوث ہونے کا شبہہ ظاہر کیا گیا تھا۔

دنیا کے 188 ملکوں کی پولیس

کان فیسٹول میں زیورات کی ہونے والی حالیہ چوری کی واردات میں جس پنک پینتھرز گینگ کا نام سامنے آ رہا ہے اس کی وارداتوں کا دائرہ یورپ، مشرقِ وسطیٰ، ایشیا اور امریکہ تک پھیلا ہوا ہے۔

دنیا کے مختلف خطوں میں اس گروہ کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے 2007 میں انٹرنیشنل کرمنل پولیس آرگنائزیشن (انٹرپول) نے اس کے خلاف اپنی بین الاقوامی مہم کے لیے ‘پنک پینتھرز پراجیکٹ’ کا آغاز کیا تھا۔

انٹرپول کی ویب سائٹ کے مطابق اس پراجیکٹ کا مقصد تنظیم کے 188 ممالک میں اس گینگ کے خلاف انٹیلی جنس کے تبادلے اور اس میں شامل افراد کو حراست میں لینے کے لیے کارروائیوں کے لیے باہمی تعاون بڑھانا تھا۔

اس پراجیکٹ کے تحت اب تک کا سب سے بڑا اجلاس 2010 میں سوئٹزرلینڈ کے شہر برن میں ہوا تھا جس میں 23 ممالک کے 80 پولیس افسران شریک ہوئے تھے۔

گینگ کی سرگرمیوں اور اس میں شامل افراد کی تعداد اور ان کے چرائے گئے زیورات کی مالیت کے بارے میں حیرت انگیز اعداد و شمار سامنے آتے رہے ہیں۔ انٹرپول کے مطابق اس گینگ میں سیکڑوں افراد شامل ہیں۔

زیورات کی صنعت کے ایک آسٹریلوی جریدے ‘جیولر میگزین’ میں 2019 میں گینگ سے متعلق شائع ہونے والی تفصیلی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اس کے زیادہ تر کارندے سابق فوجی ہیں۔

ان میں سے اکثر کا تعلق سربیا، مونٹینیگرو اور دیگر سابق یوگوسلاویائی ریاستوں سے یے۔ بوسنیا کی جنگ کے بعد انہوں نے اپنی فوجی تربیت کے بل پر دولت کمانے کے لیے جرائم کا راستہ اختیار کیا تھا۔

اس گینگ کی سر گرمیاں 1999 کے بعد شروع ہو گئی تھیں لیکن 2003 میں یہ بین الاقوامی سطح پر شہ سرخیوں میں آیا جب اس کے کارندوں نے لندن میں زیورات کے ایک بڑے اسٹور ‘جیولر سیلون’ میں برطانوی تاریخ کی سب سے بڑی ڈکیتی کی تھی۔

اس ایک واردات میں گینگ کے کارندے دو کروڑ 30 لاکھ پاؤنڈ مالیت کی جیولری لے اُڑے تھے۔

جریدے کے مطابق گینگ میں شامل افراد کی تعداد کے بارے میں مصدقہ معلومات دستیاب نہیں ہے۔ انٹرپول کے نزدیک اس میں 800 افراد شامل ہیں لیکن بین الاقوامی سطح پر اس گینگ کی کارروائیوں کو دیکھا جائے تو یہ بھی محض ایک اندازہ ہی معلوم ہوتا ہے۔

‘جیولر’ کے مطابق پنک پینتھرز گینگ چوروں کا ایک بڑا نیٹ ورک ہے جو دہشت گردوں سے بھی روابط رکھتا ہے۔ ان کے ‘سیل’ بھی مختلف ممالک میں موجود ہیں جو معلومات ملنے پر متحرک ہو جاتے ہیں۔

جریدے کے مطابق پنک پینتھرز گینگ اب تک تقریباً ایک ارب ڈالر کے زیورات چوری کر چکا ہے اور بین الاقوامی سطح پر یہ زیورات کی صنعت کے لیے خوف کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

نام کیسے پڑا؟

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق لندن میں ایک بڑی کارروائی کے بعد برطانوی پولیس نے اس گینگ کو 1960 کی دہائی میں ہیرے کی چوری پر بننے والی ایک فلم کی مناسبت سے ‘پنک پینتھرز’ کہنا شروع کیا جو بعد میں اس کا نام بن گیا۔

جریدے ‘جیولر’ کے مطابق 2003 میں لندن میں ہونے والی زیورات کی چوری کی بڑی واردات کی تحقیقات کے دوران انٹرپول نے اس میں ملوث دو ملزمان کو گرفتار کیا تھا۔

تلاشی کے دوران حکام نے چہرے پر لگانے والی کریم کی ایک ٹیوب سے چوری شدہ قیمتی انگوٹھی برآمد کی تھی۔

فلم پنک پینتھرز میں بھی چوری کیے گئے زیورات کو چھپانے کے لیے ایسی ہی ایک ترکیب آزمائی گئی تھی۔

قتل کا الزام نہیں

پنک پینتھرز گینگ کے لوگ زیورات کی چوری یا ڈکیتی کے وقت ہتھیار بھی ساتھ رکھتے ہیں لیکن ان پر کبھی کسی کو قتل کرنے کا الزام سامنے نہیں آیا ہے۔

‘رائٹرز’ کے مطابق 2003 میں انٹرپول کے ڈپٹی ڈائریکٹر کرمنل افیئرز کا کہنا تھا کہ اس گروپ کے لوگ جارح مزاج ہیں۔ وہ اگر کسی مشکل میں پھنسیں گے تو کسی کو قتل کرنے میں ہچکچائیں گے نہیں۔

یہ گینگ اپنی کارروائیوں کے لیے باریک بینی سے کی گئی منصوبہ بندی کی وجہ سے بھی شہرت رکھتا ہے۔

برطانوی اخبار ‘گارجین’ کے مطابق اس گینگ کے کارندے وقت اور حالات کے مطابق پانی کی کشتی سے لے کر اسکوٹر یا سائیکل سمیت کسی بھی ذریعے کا استعمال کر سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ وہ دستاویزات کی جعل سازی کے بھی ماہر ہیں اور یورپ میں بلقان کے خطے میں رشوت خور افسران کی مدد سے با آسانی اپنے ٹھکانے بنا لیتے ہیں۔

گینگ کی کارروائی، تاریخ اور اس کے طریقہ واردات سے متعلق 2013 میں ‘اسمیش اینڈ گریب: دی اسٹوری آف پنک پینتھرز’ کے نام سے ایک دستاویزی فلم بھی بنائی گئی تھی۔

کارروائیوں میں کمی

انٹرپول کے مطابق عالمی سطح پر اس گینگ کے کئی کارندے گرفتار کیے جا چکے ہیں۔

مئی 2010 میں اس گینگ سے تعلق کے شبہے میں مونٹینیگرو سے سربین باشندے بوجان وکووچ کو گرفتار کیا تھا۔ وکووچ پر ویانا میں 2008 میں ہونے والی زیورات کی ڈکیتی میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔

مونٹینیگرو سے مئی 2010 ہی میں ایک اور مقامی باشندے رادوان کو گرفتار کیا گیا۔ اس کی گرفتاری کے لیے انٹرپول ریڈ نوٹس جاری کر چکی تھی اور اس پر پنک پینتھرز گروپ کا کارندہ ہونے کا شبہہ تھا۔

رادوان پر ٹوکیو میں 2007 میں ہونے والی زیورات کی ڈکیتی میں ملوث ہونے کا الزام تھا اور اس سے ایک جعلی پاسپورٹ بھی برآمد ہوا تھا۔

اس کے علاوہ بلقان خطے میں شامل ممالک میں اس گینگ سے تعلق رکھنے والے مشتبہ افراد کی گرفتاریاں ہوتی رہی ہیں۔

جریدے ‘جیولر’ کے مطابق جرائم کے سراغ لگانے اور سیکیورٹی کے لیے ٹیکنالوجی میں آنے والی جدت کے باعث ماضی میں بڑی مالیت کی چوریاں کرنے والے اس گروہ کی کارروائیوں میں کمی آئی ہے۔

واضح رہے کہ انٹرپول نے 2016 کے آغاز میں پنک پینتھرز پراجیکٹ بھی ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments