طالبان کے لیے آخر نرم گوشہ کس لیے؟



سال 2015 میں شمالی وزیرستان میں تحریک طالبان کے دہشتگردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا تو اس وقت کے حکومتی ادوار میں طالبان کے لیے عوام میں اچھا تاثر پیدا کرنے کے لیے اچھے اور برے طالبان کو بیانیہ مشہور کرنے کی کوشش کی گئی۔ اب یہ شوشہ چھوڑا تو گیا، پر اب تک ہم سب یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ طالبان اگر شدت پسندی، انتہاپسندی اور دہشتگردی کو فروغ دیتے آئے ہوئے ہیں تو وہ اچھے کیسے ہوئے، جب کہ اگر وہ کسی بھی مجرمانہ سفاک کارروائی سے بالکل دور تھے تو برے کیسے ہوئے؟

اچھے اور برے طالبان کے بیانیے کے ذریعے یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ سارے طالبان برے نہیں، ان میں اچھے بھی پائے جاتے ہیں۔ اب اچھے برے کی تفریق کن بنیادوں پر کی گئی، یہ واضح نہ کیا گیا، پر بظاہر عوام کو نظر آنے والے سارے طالبان ایک ہی قسم کے تھے۔ ساروں نے ہتھیار اٹھا رکھے تھے، سارے بم بارود کو عوامی مراکز پر استعمال کر چکے تھے، اور سارے ہی طالبان خواتین کے بنیادی حقوق، ان کی تعلیم و تربیت اور آزادی کے خلاف تھے۔

نہ صرف اتنا پر، یہی طالبان اپنا پیغام پہنچانے کے لیے لوگوں کو اغوا بھی کرتے، سر قلم بھی کرتے، اور ساتھ ہی اللہ اکبر کا نعرہ بھی ان کی زبانوں پہ تھا۔ پر وہ وقت اور تھا، ان دنوں امریکی حکومت پاکستان کے سہکار سے اس کی زمینی و ہوائی حدود استعمال کر کے افغانستان میں طالبان پہ ٹارگٹ حملے کر رہی تھی، اور کابل کے تخت پہ وہی سیاستدان حکومت قائم کرنے کے قابل رہتا، جس کو امریکی سپورٹ حاصل ہوتی۔ اب حالات مکمل طور پر بدل چکے ہیں، اور اس کے اثرات نہ صرف پاکستان، افغانستان بلکہ پورے ایشیا پہ پڑنے والے ہیں۔

امریکی حکومت نے جب یہ دیکھا کہ افغانستان میں جنگ کرنے سے سوائے جانی و مالی نقصانات کے ان کو باقی اہداف حاصل نہیں ہو رہے تو انہوں نے افغانستان سے اپنی افواج واپس بلانے کا فیصلہ طالبان سے مذاکرات کے بعد کیا۔ اور یہ فیصلہ ہونے کے لیے طالبان اور امریکی حکام کے مختلف جگہوں پر طویل مذاکرات ہوئے، اور آخر یہ معاملات طے پائے، کہ امریکا طالبان کے قید لوگ آزاد کرے گا، اور اپنی فوج واپس بلائے گا۔ اس پہ امریکا راضی ہو گیا، کیونکہ وہ جنگ کر کر کے تھک چکے تھے، اور اب ان کو آرام چاہیے تھا۔

اس پہ دونوں طرف سے رضامندی ہونے کے بعد مرحلہ وار فوجی انخلا کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ اس امریکی افغان جنگ میں پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوا، نہ صرف افغان مہاجرین پاکستان کی اندر آ بسے ہیں، پر انہوں نے بم بارود کو متعارف کروایا، اور نشہ آور چیزوں کو بھی عام کیا۔ اس جنگ میں جانی اور مالی نقصانات اٹھانے کے بعد بھی، یہ سن کر حیرت ہوئی کہ، اب بھی ہمارے حکمران طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، دل کا کوئی کونا اب بھی باقی ہے جو صرف ان کے لیے دھڑک رہا ہے، جو کسی نقصان کو، عیب کو اور دہشتگردی کو نہیں دیکھتا۔

وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی تو ان کی سادگی پر فدا ہوئے جا رہے ہیں، جس کو ان کا لباس بہت سادہ اور خوشگوار لگتا ہے، اور ان کی دماغ کی چالاکی کو بھی وہ مثبت انداز میں دیکھ رہے ہیں۔ اور طالبان کے دیے ہوئے وہ زخم بھول گئے، جو ناسور بن کر ملک کی رگ رگ میں آج بھی درد کر رہے ہیں۔ جو سانپ آپ کے بچے بڑے نگل جائے ان کی طرف دوبارہ رجوع نہیں کیا جاتا، پر یہاں تو ان کو سر آنکھوں پہ بٹھانے کی باتیں ہو رہی ہیں، جو سراسر غلط ہے۔

امریکی فوجی انخلا کے بعد ، طالبان کے مطابق انہوں نے بہت سے علاقے پر اپنا قبضہ جما لیا ہے، جس سے پاکستان کے لیے بہت سے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ طالبان وہ شرعی نظام لانے جا رہے ہیں، جہاں پہ عورت اور مرد دونوں کی شخصی آزادی ضبط ہو جائے گی۔ تبھی تو جن جن علاقوں میں طالبان قابض ہوئے ہیں، وہاں برقعوں کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ کیونکہ تمام خواتین ڈر کے مارے برقعے خرید رہی ہیں۔ ایسے خوف کے ماحول میں جو افغانی شہری خود کو ڈھال لیں گے وہ تو وہیں پر رہیں گے، پر کئی ایسے ہیں جو آزادی سے رہنے کی خواہش میں پاکستان کی حدود میں داخل ہوں گے، اور ایک بار جب وہ پاکستان میں داخل ہو گئے، تو سمجھو کہیں پر بھی جا سکتے ہیں۔

جیسے چالیس لاکھ سے زائد افغانی کراچی میں مقیم ہیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، اور اب پی ٹی آئی کی حکومت چل رہی ہے، پر کسی بھی سیاسی جماعت کو یہ جرات نہ ہوئی کہ وہ ان غیرقانونی بستے افغانیوں کو واپس اپنی سرزمین پر بھیج سکیں، کیونکہ ہمارے حکمرانوں کو اپنے ملک کے لوگوں سے زیادہ ان پر پیار آتا ہے، جنہوں نے کیے وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے، جن کی وجہ سے اپنے ملک کے لوگوں کو دشواریوں کا سامنا ہے۔

طالبان کے لیے پاکستان کے اندر کتنی ہمدردیاں ہیں، یہ وزیر داخلہ شیخ رشید اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے حالیہ بیانیات سے صاف عیاں ہے، اور اس سے ان لوگوں کو تقویت ملی گی، جو جنگجو گروہوں میں جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ جب اچھے اور برے طالبان کا بیانیہ سامنے لایا گیا تو دونوں کے بیچ میں بس فرق یہی دکھایا گیا، کہ جن لوگوں کے ہتھیار اٹھانے سے پاکستان کو فائدہ ہے وہ ہماری نظر میں اچھے کہلائیں گے یا جن کی وجہ سے پاکستان غیرملکی امداد بٹورنے میں کامیاب رہا ہے۔

برا صرف ان طالبان کو کہا گیا، جنہوں نے پاکستان کے اندر معصوم شہریوں پر بم دھماکے کیے، جنہوں نے آرمی پبلک اسکول میں بچوں کی، سیہون میں قلندر کی درگاہ پہ کیے زائرین کی، اور نہ جانے کن کن مقامات پر عوامی جانیں لیں، ٹارگٹ کلنگ کی اور کئی لوگوں کو بے سہارا، بے گھر، یتیم، بیوہ، معذور کر دیا۔ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث طالبان بھلے دنیا کے کسی بھی خطے میں رہتے ہوں، پر ان کے موقف کی تائید کرنا، اس کو سر عام سراہنا، کوئی خوش آئند بات نہیں ہے، کیونکہ جو دوسری انسان ذات کے لیے اتنا بے رحم ہوگا، وہ حالات بگڑنے پر یا بات نہ ماننے پر اپنے ہتھیاروں کا رخ آپ کی طرف بھی موڑ سکتا ہے، اور اس کے نتائج آپ دیکھ چکے ہیں۔

خدا بھلا کرے ہمارے سیاسی و فوجی قیادت کا، وہ یہ لکیر کھینچنے کو تیار ہی نہیں، جو دہشتگرد اور امن پسند طبقے میں تفریق کر سکے۔ یہ تو اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے، کہیں نہ کہیں خانہ جنگی کی بھی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں، جس کے نتائج انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں۔ تحریک طالبان نے کبھی القاعدہ سے گٹھ جوڑ کر کے، کبھی داعش کے ساتھ معاملات طے کر کے، صرف اور صرف بم، بارود کو ہی فروغ دیا ہے، جس سے دنیا بھر میں مسلمانوں کی رسوائی ہوئی ہے، کیونکہ وہ اپنی ظالمانہ کارروائیوں کے پیچھے مذہب اسلام کو ڈھال بناتے آئے ہیں، جو کسی بھی قسم کے فتنے، دہشت اور وحشت کو فروغ نہیں دیتا۔

اور کسی سے نہ سہی تو ہمارے حکمرانوں کو اپنے ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے، اور اس دفعہ طالبان سے کوئی ایسے دوستانہ رویے نہ رکھیں، کوئی ایسے وعدے نہ کریں جن کی وجہ سے آنے والے دنوں پہ عوام کی جان و مال کو خطرہ لاحق ہو۔ جس طرح ماضی میں ہم امریکا کی زبانی مخالفت کرنے کے باوجود ان کے نیٹو فورسز اور اسلحے کو اپنی حدود میں رسائی دیتے آ رہے ہیں، یہ غلطی پھر سے ہرگز نہ دہرائی جائے، اور افغانستان کے معاملے میں ایک نیوٹرل پالیسی ترتیب دیں، جس سے افغانستان کے بدلتے حالات کا کوئی منفی اثر پاکستان پہ نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments