ٹرین مسافر کی ڈائری



ساتھی کزن نے ایک بار پھر پوچھا کیا تم واقعی ٹرین پر سفر کرو گے اور یہ تمہارا پہلا ٹرین کا سفر ہے؟ ، ہاں سفر تو پہلا ہے، لیکن تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، ٹرین پہلے اور آخری سفر کے درمیان بچھی ہوئی سیاہ پٹڑیوں پر چلتی ہے، جو کبھی جدا نہیں ہوتیں سفر جتنا بھی طویل ہو پٹڑیاں ہمیشہ ایک ساتھ چلتی ہیں، پنڈی کے مصروف ترین بازار میں نسوانی کردار زندگی میں اس قدر محو تھے کہ انہیں خبر ہی نہ تھی کہ کوئی پردیسی ان کے شہر سے جا رہا ہے، زندگی کی ریس میں دوڑتے ہوئے انسانی کرداروں کو اگر آپ آنکھوں سے دیکھنا چاہیں تو بازار سے بہتر کوئی جگہ نہیں ہے، ایک جگہ سکون سے بیٹھ کر چاروں طرف نظر دوڑا کر دیکھیں ایسا لگے گا یہ تو گھوڑوں سے بھی بدتر بھاگ رہے ہیں، بے لگام، بے مقصد اور بے معنی ڈور کا فاتح یقیناً انسان بننا چاہتا ہے لیکن یہاں سے ہی تو انسان شکست شروع ہوتی ہے، میں ہمیشہ ایسی جگہ سے گزرتے ہوئے سوچتا ہوں اور خود کو کوستا ہوں، اگر ایسا نہ ہو تو بازار سے گزرتے ہوئے ہزاروں نسوانی کردار ایک جھلک میں دیکھتے ہوئے عموماً ایسا بھی لگتا ہے کہ محبت سی ہو گئی ہے، اور یہ احساس ہر کردار کو دیکھ کر محسوس ہو جاتا ہے، لیکن دین صرف چار کی اجازت دیتا ہے۔

یہی سوچتے سوچتے کہ چار تو بہت کم ہیں، پنڈی شہر کا تاریخی ریلوے اسٹیشن ہمارے سامنے کھڑا تھا، کزن نے ایک آخری بار پھر میرے حیران کن منہ کی طرف دیکھا، یہ چھوٹے شہروں کے رہنے والے بڑے شہروں میں حیران و پریشاں ہی نظر ہیں، ہر چیز کو بہکی بہکی نظروں سے دیکھتے ہیں، فقیر کو بھی ایسے دیکھتے ہیں جیسے یہ بڑے شہر کا نامور اور امیر فقیر ہے، ہاں آب کیا کرنا ہے؟ جانا ہے یا میں جاؤں؟ ، کزن کے سوال پر چونکا ہاں ہاں جانا ہے، ارد گرد نگاہ ڈالتے ہوئے کہا آخر یہاں رکوں بھی تو کس کے لئے؟

ٹھیک ہے پھر میں چلتا ہوں، راستے میں کوئی مسئلہ ہوا تو رابطہ کر لینا، کیوں تم یہاں سے بیٹھ کر زنجیر کھینچ لو گے؟ ، اوہ ہو میرا مطلب بتا دینا میں شناخت کے لئے تو آ ہی سکتا ہوں، کس کی پہچان؟ ، پریشان نہ ہونا یہ سب تو ٹرین کے ساتھ لازم و ملزوم کی طرح جڑا ہوا ہے، کزن کو الوداع کہا اور گیٹ کے اندر داخل ہو گیا، اسٹیشن کی عمارت ہمارے مرشدوں کے دور کی ہے، اور میں ایک بار پھر سوچ رہا تھا کہ آخر ہم غلامی کی علامتوں سے کب تک پیچھا چھڑا لیں گے؟ ، آب یہ سوال اتنا ہی پیچیدہ ہے جتنا کہ ہمارا ملک اس لئے اگے بڑھتے ہیں۔

بھیڑ معمول سے کچھ زیادہ محسوس ہو رہی تھی، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ معمول ہی ہو بہرحال بھیڑ جیسی بھی ہو داخل ہوتے ساتھ ہی لوگوں کی بھیڑ میں گم ہو کر میں بھی بھیڑ کا حصہ بن گیا، ٹرین پر ابھی بھی قوم کا اعتماد دیکھ کر میں حیران تھا، ہو سکتا ہے ابھی بھی یہ اعتماد انگریز کی ایجاد پر ہو ورنہ ہمارے ڈرائیوروں نے تو کوئی کسر نہ چھوڑی تھی، تین تکون والی عمارت کسی بھی خوبصورت دوشیزہ سے کم نہیں لگ رہی تھی، باہر ایک پرانا اسٹیم انجن بھی رکھا گیا تھا، جو اسٹیشن کے ماحول کو ماضی پرستوں کے لئے اور بھی زیادہ حسین بنا رہا تھا، کچھ لمحوں کو تو میں بھی ماضی کے دریچوں میں گم ہو کر رہ گیا، ایسا انجن ہم نے کچی کی اردو نصابی کتابوں میں ہی دیکھا تھا، جہاں بچوں کو ”ر سے ریل گاڑی“ پڑھائی جاتی تھی، ایسے پرانے انجن آب پٹری پر تو کم ہی نظر آتے ہیں ہاں البتہ ریلوے کے محکمے میں ایسے بہت سے انجن دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔

سوچا ٹرین کا پہلا پہلا سفر ہے ٹکٹ ہی لے لوں، حالانکہ مغرب میں ٹکٹ صرف ایسی ”ٹرینوں“ کو دیکھنے کے لئے لیا جاتا ہے، ٹرین کی سیٹی بج رہی تھی، شاید ٹرین پلیٹ فارم پر پہنچ چکی تھی، ٹکٹ دینے والے نے ٹکٹ ایسے دیا جیسے وہ میرے اوپر احسان کر رہا ہو حالانکہ ایسا تو میں کر رہا تھا، جلدی جلدی تین تکون والی عمارت سے ہوتے ہوئے میں باہر ریلوے ٹریک پر نکل گیا۔

ٹرین کے ساتھ میر ایک عجیب رشتہ ہے، خونی رشتے سے بھی گہرا اور مضبوط وجہ ہجر اور وصل کی داستانیں ہیں یا پھر کچھ اور لیکن ٹرین کا ذکر ہر جگہ ملتا ہے، یہ ایک ایسی ایجاد ہے جس کے ساتھ دل جڑے ہوئے ہیں، ٹرین کی سیٹی بھی بہت سی پرانی نایاب آوازوں جیسی محبت رکھتی ہے، جو بہت پرانی ہو چکی ہے لیکن آج بھی سنیں تو دل میں چبھتی ہے، بھٹکا ہوا دھیان واپس کسی نقطے پر مرکوز ہو جاتا ہے، وقت تو شام ڈھلنے کا ہو رہا تھا لیکن سورج ابھی لوٹا نہیں تھا، اور یہ واپس لوٹنا ہمیشہ ہی مشکل ہوتا ہے، چہل قدمی کرتے ہوئے ایک دم خیال آیا کہ ٹرین کی آمد کے بارے میں معلوم کر لینا چاہیے، کیونکہ وقت ہو چکا تھا اور وہ ابھی آئی نہیں تھی، یقین مانیں میں ٹرین کی ہی بات کر رہا ہوں، یہ ہزارہ ایکسپریس کہاں کھڑی ہے؟

، ہلکی سی دھیمی آواز میں ایک قلی نے جواب دیا پلیٹ فارم نمبر پانچ پر کھڑی ہو گی، اور آب تو شاید جانے والی بھی ہو، قلیوں کی ایک عادت مجھے بڑی اچھی لگتی ہے وہ مسافروں کی طرف نہیں دیکھتے ہمیشہ ان کے سامان کی طرف دیکھتے ہے، شکریہ کہتے ہوئے میں ٹرین کی آواز کی طرف متوجہ ہوا اور تقریباً دوڑتے ہوئے ٹرین میں سوار ہوا، جلدی جلدی میں کوئی خاطر خواہ اچھا چہرہ بھی نہ دیکھ سکا۔

برتھ کے نیچے والی لمبی سیٹ پر یوں ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ گیا، جیسے گھر کی چارپائی ہو، ٹرین کی حالت زار کا اندازہ لگانے کے لئے نظر دوڑائی تو سوچا جہاں محبتیں ہوں وہاں ناکارہ پن تو ہوتا ہی ہے، ایک بار پھر ماضی کے مداح ہونے کے ناتے مجھے تو ٹرین اچھی خاصی خوبصورت لگ رہی تھی، اور ویسے بھی ہمیں انگریزوں کی بنائی گئی زیادہ تر چیزیں اچھی ہی لگتی ہیں، مسافروں کی آمد و رفت جاری تھی، جہاں میں بیٹھا تھا، یہ جگہ ٹرین کے درمیان میں پڑتی تھی، اس بوگی میں فی الحال میں ہی بیٹھا تھا، یہاں بیٹھنے کو کوئی نہیں آ رہا تھا شاید سب ہی تنہائی پسند تھے، یا پھر ٹکٹ کے بغیر والے کیونکہ وہ بھیڑ کا فائدہ اٹھاتے ہیں، اکیلا تو کتا بھی ہو پھنس جاتا ہے۔

ٹرین نے قدم اٹھانا شروع کیے ، میں کھڑکی کے قریب بیٹھا باہر پلیٹ فارم پر لوگوں کے چہرے پڑھنے لگا، حالانکہ یہ کام مجھے بڑا مشکل لگتا ہے، کیونکہ انسان کا چہرے پڑھنا تو سقراط اور ارسطو کے لئے بھی شاید ناممکن ہی ہو، لیکن پھر بھی مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ ہر چہرے کی ایک اپنی الگ ہی کہانی ہے، جس کا ولن وہ خود ہے، سب کی زندگیوں میں ہی مسائل ہیں، لیکن چہرے سے بڑا کوئی اداکار نہیں، ہر وقت ہر لمحے سین بدلتا رہتا ہے، تاکہ وہ خود خوش رہ سکے، خود کو تسلیاں دیتا ہے، لیکن یہاں سب مسافر ہیں، سب کی ایک نہ ایک منزل ہے، کسی کا استقبال ہو رہا ہے، تو اسی لمحے کسی کو الوداع کیا جا رہا ہے، لیکن ٹرین وہیں کی وہیں ہے، اسے کوئی فرق نہیں پڑتا، ہر اسٹیشن پر کوئی نہ کوئی اتر جاتا ہے اور کوئی سوار ہو جاتا ہے، اور وہ آگے چل پڑتی ہے، یہ تو انسان کی غلط فہمیاں ہیں، وہ سمجھتا ہے کہ اس کے اترتے ہی ٹرین پٹری سے اتر جائے گی۔

ٹرین کے آہستہ آہستہ اٹھتے قدم آب تیز ہو رہے تھے، زندگی بھی ایسا ہی کرتی ہے، یہ آپس کی مماثلتیں بھی انسان کو سمجھانے کے لئے ہیں، ورنہ تو لوگوں کو ٹرین اور زندگی کے فلسفے سے کیا لینا دینا، یہ تو ہم جیسے سوچنے والوں کی باتیں ہیں، لوگوں کو کیا پتا کہ ایسا کرنے سے سفر نامہ لمبا ہو جائے گا، جس نے کسی پیارے کو خود سے جدا کیا تھا وہ ابھی تک دل کی دھڑکن کو تھامے کھڑے تھے کہ ہو سکتا ہے، اس کا ارادہ بدل جائے، یا ہو سکتا ہے ٹرین کا ارادہ بدل جائے، اور ان کی یہی امیدیں ہر دفعہ انہیں جذبات سے ابھرتی ہیں، اور ٹرین کے نظروں سے اوجھل ہونے تک قائم رہتی ہیں۔

آب ٹرین شہر کے بیچوں بیچ کھچا کھچ کرتی ہوئی گزر رہی تھی، میں ابھی بھی کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا، پتا نہیں کیوں ایسا لگ رہا تھا کہ کچھ بھول کر جا رہا ہوں، اسٹیشن یا پھر پنڈی کے بازاروں میں کسی گمنام کے بچھڑنے کا ڈر واپس کھینچ رہا تھا، لیکن یہ نظروں کا دھوکا بھی تو ہو سکتا ہے، آب ٹرین ایک پل سے گزر رہی تھی، نیچے جہاں تک نظر جا رہی تھی، فخر محسوس کر رہا تھا، ”اسلام و علیکم“ میرے سامنے بیٹھتے ہوئے ایک میرے ہی ہم عمر نے سلام کیا، میں چونکا، ٹرین میں شور کی وجہ سے عموماً قدموں کی آہٹ کھوئے ہوئے شخص کو محسوس نہیں ہوتی۔

”وعلیکم السلام“ اجنبی نظروں سے میں نے سلام کا جواب دیا، وہ بھی خاموشی سے میرے سامنے کھڑی کے ساتھ بیٹھ گیا، گفتگو کا آغاز میں نے کیا، معلوم ہوا موصوف جھنگ کے مسافر ہیں، ٹرین کو پہلا گرین سگنل سہالہ کے پلیٹ فارم پر دکھایا گیا، گرین سگنل کا مطلب ”سب ٹھیک ہے“ اور لال کا مطلب ”سب خراب“ ہوتا ہے، ہو سکتا ہے ہمارے ہاں خراب حالات میں بھی ہری جھنڈی دکھائی جائے، لیکن اس صورت حال میں لال جھنڈی دکھائی جاتی ہے، جس کو کبھی سنجیدہ نہیں لیا جاتا، یہ عمل بھی ہمارے ہاں رائج ہے ورنہ دنیا تو بولٹ ٹرین کا سفر طے کر رہی ہے، جس کو جھنڈی دکھاتے دکھاتے شاید سرگودھا آ جائے۔

ڈیجیٹل لائبریری کو کھولا تو سب سے پہلے سوچا ٹرین کے بارے میں پڑھا جائے، انیسویں صدی میں پہلی بار ٹرین کو برصغیر میں پٹری پر چلایا گیا، اور آج تک وہی ٹرینیں اور پٹڑیاں ہمارا مقدر ہیں، ہم ماضی کو بھولنا نہیں چاہتے کیونکہ ہمارا ماضی ایک شاندار غلامانہ ذہنیت کا ماضی تھا، جس کی روشنیوں سے نکالنا مشکل ہے، چکلالہ ریلوے اسٹیشن پر ٹرین نے پہلا پڑاؤ ڈالا، کھڑکی سے ذرا باہر کی اور نکل کل سارے اسٹیشن کو ایک نظر میں دیکھا، اسٹیشن کی خوبصورتی شاید قلم بند نہ ہو پائے، اور ویسے بھی اسٹیشن کی خوبصورتی ناقابل بیان ہے، محبت کرنے والے اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں، چکلالہ کسی زمانے میں ایک جنگل ہوا کرتا تھا، آج بھی ویسا ہی نظر آ رہا ہے، لیکن زمانے کی گردشوں نے ترقی کا تھوڑا بہت زیور پہنا دیا ہے، جس سے اصل خوبصورتی کہیں چھپ گئی ہے، بوڑھے اسٹیشن پر چہل قدمی کر رہے تھے، کہ شاید عمر کے چند دن اور بڑھ جائیں، بچے پتنگوں کے پیچھے بھاگ رہے تھے، اور نوجوان اپنے آپ میں کھوئے ہوئے منظر سے اوجھل نظر آ رہے تھے، اتنے میں ٹرین کی سیٹی بجی اور ٹرین اپنی مخصوص آواز سے چل پڑی۔

یہ راستوں میں رکنا اور پھر چل پڑنا بھی زندگی کا ایک حصہ ہے، کبھی کبھار انسان بھی زندگی کے کسی گمنام اسٹیشن پر رک جاتا ہے، سفر اسے تھکا دیتا ہے، وہ گھڑی بھر کے لئے رک کر آرام کرنا چاہتا ہے، ناکامیاں اسے اندر سے توڑ کر کھوکھلا کر دیتی ہیں، جس طرح ٹرین کی آواز میں اس کا کھوکھلا پن سنائی دیتا ہے ناں اسی

طرح انسان کی آواز میں بھی کبھی کبھار کھوکھلا پن زوروں سے سنائی دیتا ہے، لیکن انسان سمجھتا ہے کہ وہ اس کمزوری کو چھپا لے گا، حالانکہ ایسا صرف سمجھا جا سکتا ہے۔

ٹرین آب مختلف گمنام و نامور قصبوں، شہروں اور بستیوں کو پیچھے چھوڑتی منزلیں طے کر رہی تھی، آب میری بوگی میں دو اور مسافروں کا اضافہ ہوا، آپس کی گفتگو سے سندھی لگ رہے تھے، لیکن شکل سے دور دور تک سندھی نہیں لگ رہے تھے، چار مسافروں کی بوگی ہو اور خاموشی میں ڈوبی ہوئی ہو یہ کہاں کا ٹرین کے سفر سے محبت کا اظہار ہے، لیکن یہی تو عشق ہے، کوئی ٹرین سے گفتگو کر رہا تھا، کوئی مناظر میں الجھا ہوا تھا، سب کسی نہ کسی طرح باتیں کر رہے تھے، یہ خاموشی تو بس چہرے پر ہوتی ہے، چپ تو بس ہونٹ ہوتے ہیں، انسان تو ہر وقت کچھ نہ کچھ بولتا رہتا ہے، مناظر میں آب ایک پہاڑی سلسلے کا آغاز ہو رہا تھا، جسے ٹرین عزت و احترام سے چیرتے ہوئے گزرنے والی ٹرین خود کو چنگیز خان کا لشکر سمجھ رہی تھی، ایک دم موسم کے تیور اور ہوا کا مزاج بدل گیا تھا، شاید آگے آنے والا ریلوے اسٹیشن اور بھی زیادہ حسین ہو، ہو سکتا ہے وہ پہاڑوں کی گود میں لیٹا ہوا ہو، یہ سوچتے سوچتے میں منظروں میں بھٹک گیا، اور مسافروں کے لئے بھٹکنا کوئی عجیب بات نہیں۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments