کوویڈ۔ 19 اور آن لائن ایجوکیشن


عالمی وبا کوویڈ۔ 19 سال 2019 کے آخری مہینوں میں دنیا بھر میں پھیلنا شروع ہوئی۔ اس وبا نے زندگی کے ہر شعبے کو شدید متاثر کیا۔ سب سے بڑا بحران صحت کے حوالے سے پیدا ہوا، جس کے لیے فوری اور سریع اقدامات اٹھانا پڑے۔ اس ضمن میں مختلف پہلوؤں سے پابندیاں لگائی گئیں، لاک ڈاؤن کے فیصلے کیے گئے اور ہر طرح کے عوامی اجتماعات روک دیے گئے۔ اس وبا نے شعبہ تعلیم اور اس سے متعلق تمام تر سرگرمیوں کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ تمام طرح کے عوامی اجتماعات پر پابندی کی وجہ سے تعلیمی سرگرمیاں بھی جاری نہیں رکھی جا سکتی تھیں اس لیے کہ اس حوالے سے وبا کے پھیلاؤ کے امکانات بہت زیادہ تھے۔

تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے روایتی طریقہ تعلیم کے متبادل کے طور پر آن لائن تدریس شروع کی گئی اور روایتی کلاس رومز کی جگہ آن لائن کلاس رومز نے لے لی۔ تعلیم و تدریس کو جاری رکھنے کے لیے اسے ایک متبادل کے طور پر اختیار کیا گیا، لیکن اساتذہ اور طلبہ دونوں ہی اس سے نامانوس تھے۔ ان پیش آمدہ نئے حالات اور ان کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے تمام تعلیمی اداروں نے اپنے آپ کو جدید تکنیکی ماحول کے مطابق ڈھال لیا۔ اور اب آن لائن تدریس ایک معمول کی بات بن گئی ہے۔

کوویڈ۔ 19 کے دوران شروع کی گئی آن لائن تعلیم و تدریس کے ہر دو مثبت اور منفی پہلو ہیں۔ آن لائن ایجوکیشن کے مثبت پہلوؤں کے حوالے سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کے ذریعے طلبہ تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف رہے، بلا تعطل تعلیمی عمل جاری رہا اور یوں ان کی زندگی کے قیمتی سال ضائع ہونے سے بچ گئے۔ چونکہ طلبہ گھروں میں بیٹھ کر کلاسز لیتے رہے اور کسی بھی دوسرے فرد کے ساتھ ان کی ملاقات کا کوئی امکان نہ تھا لہذا ایک طرف تو تعلیمی سفر جاری رہا اور دوسری طرف ان کی صحت بھی محفوظ رہی۔ کوویڈ۔ 19 کے حوالے سے ڈبلیو ایچ او کی حفاظتی تدابیر کے دو اہم نکات درج ذیل ہیں۔

1) اجتماعات سے حق المقدور گریز
2) اور، زیادہ سے زیادہ گھروں میں قیام۔

یوں اس فاصلاتی طریقہ تعلیم سے ایک طرف تو ڈبلیو ایچ او کی ہدایات پر بھرپور عمل ہوا اور دوسری طرف تعلیمی سرگرمیاں تسلسل کے ساتھ جاری و ساری رہیں۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ ہمارے طلباء کو تحصیل علم کے حوالے سے جدید طریقوں اور نئے تعلیمی ماحول سے شناسائی حاصل ہوئی۔

اگرچہ آن لائن طریقہ تعلیم کا روایتی طریقہ تعلیم سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا اس لئے کہ روایتی طریقہ تعلیم میں معلم اور متعلم دونوں آمنے سامنے ہوتے ہیں اور مکالمہ کی صورت میں تحصیل کا عمل زیادہ موثر اور بھرپور ہوتا ہے۔ تا ہم آن لائن تعلیم و تدریس کی ایک اپنی اہمیت ہے۔ اس سے گھروں میں بیٹھے طلباء کو مفید اور مثبت علمی ماحول میسر آیا جس سے ایک طرف تو اساتذہ و طلباء وبا کے دورانیے میں فعال اور متحرک رہے اور دوسری طرف انہیں غیر معمولی حالات میں وبا کے خلاف لڑنے اور اسے شکست دینے کی جرات اور حوصلہ ملا۔

تا ہم آن لائن طریقہ تعلیم میں بعض نقائص اور مشکلات بھی ہیں۔ مثلاً آن لائن ایجوکیشن کے لیے مکمل سگنلز کے ساتھ ایک پائیدار انٹرنیٹ سروس کا ہونا پہلی اور بنیادی شرط ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے تمام طلباء کو انٹرنیٹ کی مناسب سہولت مہیا نہیں ہے اور جن طلباء کو یہ سہولت میسر ہے، وہ یا تو محدود پیمانے پر ہے اور یا نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے کہ کم سگنلز کے ساتھ پڑھنا، سننا اور سمجھنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔

مثال کے طور پر ہم یہاں پنجاب یونیورسٹی کے ایک طالب علم مرید عباس کا ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں جو اٹک کے ایک دور دراز دیہات کا رہائشی ہے۔ اس کو گاؤں میں انٹرنیٹ کے سگنلز کا مسئلہ تھا لہذا اسے آن لائن کلاس پڑھنے کے لئے تقریباً 20 منٹ سفر کر کے اپنے گاؤں سے دور ایک ایسے علاقے میں جانا پڑھتا تھا جہاں انٹرنیٹ کے سگنلز مہیا تھے اور اپنی کلاسز کو جاری رکھنے کے لیے اسے مسلسل تین سمیسٹرز ہر روز یہ سفر کرنا پڑا۔ یہاں ہم نے صرف ایک طالب علم کا ذکر کیا ہے، پاکستان کے مختلف علاقوں میں ایسے ان گنت طالب علم ہیں جو ایسے مسائل سے دوچار رہے ہیں۔

آن لائن کلاسز میں انٹرنیٹ کا بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ ایک طالب علم کو ہر روز تین یا چار آن لائن لیکچرز لینے ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ ہفتے میں پانچ دن پر محیط ہوتا ہے لہذا ایک ہفتے میں اچھا خاصا ڈیٹا استعمال ہوتا ہے جس کے لیے ایک طالب علم کو اچھی خاصی رقم خرچ کرنا پڑتی ہے۔ جبکہ کوویڈ۔ 19 کے دوران لوگوں کی مالی حالت خاصی متاثر ہوئی ہے۔ IPSOS کے ایک جائزے کے مطابق پاکستان میں ہر دس میں سے چھ افراد کی آمدن میں واضح کمی ہوئی ہے لہذا آن لائن تعلیم میں علاوہ دیگر مسائل کے مالی مشکلات بھی پیش آتی ہیں۔ اس حوالے سے ایک مشکل یہ بھی ہے کہ انٹرنیٹ کے استعمال کے لیے ایک اچھے موبائل یا کمپیوٹر کی ضرورت ہوتی ہے لیکن کمزور مالی حالات کی وجہ سے بہت سے طالب علموں کو اس حوالے سے بھی مسائل کا سامنا ہے۔

مزید برآں اس ضمن میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ روایتی کلاس روم اور آن لائن کلاس روم کے ماحول میں بہت فرق ہے۔ روایتی کلاس روم میں ایک طالب علم کو یہ موقع میسر ہوتا ہے کہ وہ استاد اور دیگر طلباء سے بلا واسطہ رابطہ کر سکے۔ اس طرح تدریس کا عمل زیادہ ثمر آور ہوتا ہے۔ کلاس روم میں ایک استاد تعلیم کے ساتھ اپنے طلباء کی تربیت بھی کرتا ہے اور یوں ایک طالب علم معاشرے کے ایک ذمہ دار فرد کے طور پر نشوونما پاتا ہے گویا کلاس روم میں تعلیم کے ساتھ ساتھ ایک طالب علم کی اخلاقی، معاشرتی اور تہذیبی پہلو سے بھی شخصیت پروان چڑھتی ہے۔

تعلیم کے ساتھ تربیت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اللہ نے قرآن مجید کی سورہ مبارکہ جمعہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی بعثت کے مقاصد میں تعلیم اور تربیت دونوں کا ذکر کیا ہے ( 62 : 2 ) ۔ اسی طرح حضرت علی کرم اللہ وجہ نے نہج البلاغہ میں تعلیم کے ساتھ تربیت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ”ایسی تعلیم بیکار ہے جس کے ساتھ تربیت نہ ہو“ (کلمات القصار: 338 ) ۔

تعلیم کے ساتھ تربیت کے لئے اساتذہ اور طلبہ کا کلاس روم میں ایک دوسرے کے سامنے ہونا ازحد ضروری ہے جہاں طالب علم استاد کے ایک ایک عمل سے سیکھتا ہے اور استاد طالب علم کی ہر ہر بات پر نظر رکھتے ہوئے اس کی تربیت اور اصلاح کا فریضہ انجام دیتا ہے اور یہ سب کچھ روایتی طریقہ تدریس اور روایتی کلاس روم میں ہی ممکن ہے جب کہ آن لائن طریقہ تعلیم میں استاد اور طالب علم ایک دوسرے کے سامنے نہیں ہوتے اور استاد کی توجہ لیکچر دینے پر ہوتی ہے لہذا اس طریقہ تدریس میں تربیت کا فقدان پایا جاتا ہے۔

مزید یہ کہ بعض طلبا کا رویہ غیر سنجیدہ ہوتا ہے چونکہ آن لائن کلاسز میں وہ مکمل طور پر استاد کی نظروں میں نہیں ہوتے لہذا بعض اوقات وہ خود توجہ سے نہیں پڑھتے اور گاہے دیگر طلباء کے لئے مشکلات کا باعث بنتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ کلاس کے ماحول کو بھی خراب کرتے ہیں۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ آن لائن کلاس روم میں کلاس کا نظم و ضبط قائم رکھنے اور تمام طلباء کو متوجہ رکھنے میں درج ذیل تین وجوہات کی بنا پر ایک استاد کو مشکلات پیش آتی ہیں :

1) استاد اور طلباء کا آمنے سامنے نہ ہونا
2) بعض طلباء کے انٹرنیٹ کنکشن میں بار بار تعطل کا پیدا ہونا
3) بعض طلباء کا غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ دارانہ رویہ

علاوہ ازیں شعبہ تعلیم میں جانچ پڑتال یعنی امتحانی نظام کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ ایک مثبت اور قابل عمل نظام تعلیم کے لئے مناسب اور معیاری امتحانات کے نظام کا ہونا از حد ضروری ہے۔ روایتی نظام تعلیم میں طلبہ کی تعلیمی قابلیت کو جانچنے کے لئے ایک موزوں، منظم اور مربوط نظام موجود ہے جبکہ کہ آن لائن ذریعہ تعلیم میں اس طرح کے کسی نظام امتحان کا فقدان ہے۔ اگرچہ آن لائن کلاسز مکمل ہونے پر امتحانات لئے گئے ہیں اور انہیں معیاری بنانے کے لیے حتی المقدور کوششیں بھی کی گئی ہیں تاہم اس طریقہ امتحان کا روایتی نظام امتحانات کے ساتھ تقابل نہیں کیا جا سکتا۔

مذکورہ بالا تمام باتوں کے باوجود کہا جا سکتا ہے کہ ہم نے تمام دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ اپنے محدود وسائل کے باوجود پاکستان نے کوویڈ۔ 19 میں اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو بلا تعطل جاری رکھا ہے اور اپنے ملک کے لوگوں کو کسی بھی نہ مانوس اور غیر متوقع صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے جرآت اور اعتماد بخشا ہے۔ اب ویکسینیشن اور بہتر احتیاطی تدابیر کی وجہ سے صورتحال روز بروز بہتری کی طرف گامزن ہے اور مریضوں کی تعداد میں واضح کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ تعلیمی ادارے کھلنا شروع ہو گئے ہیں۔ لیکن ہمیں آن لائن ذریعہ تعلیم کو یکسر ترک نہیں کر دینا چاہیے اس لئے کہ یہ روایتی طریقہ تدریس کا ایک قابل قدر متبادل اور ایک موثر ذریعہ تعلیم ہے۔

حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس پر خصوصی توجہ دے۔ اس حوالے سے ضروری ہے کہ اس طریقہ تعلیم کا وسیع پیمانے پر ناقدانہ جائزہ لیا جائے ، اس میں موجود خامیوں کی نشاندہی کر کے انھیں دور کیا جائے اور حکومتی سطح پر اسے روایتی نظام تعلیم کا موثر متبادل قرار دے کر اپنایا جائے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ بسا اوقات ناگہانی اور غیر متوقع صورتحال میں روایتی انداز سے تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنی مشکل ہوجاتی ہیں

اس حوالے سے حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر درج ذیل اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے
1) ملک بھر کے کہ تمام دور دراز شہروں اور دیہاتوں تک انٹرنیٹ کی رسائی کو ممکن بنایا جائے
2) اس سے منسلک انفراسٹرکچر کو بہتر کیا جائے

3) اداروں میں اساتذہ اور طلبہ کی تربیت کے لیے مستقل بنیادوں پر پروگرام دیے جائیں تاکہ وہ جدید ذریعہ ہائے علم سے ہم آہنگ اور آگاہ رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments