عراقی بچّے کا سایہ اور امریکی فوجی


گندے اور نا زیبا کپڑوں میں ملبوس پچیس سالہ انٹونی پاگلوں کی طرح بھاگ رہا تھا۔ ’یہ تو وہی ہے، اس نے یہاں پر بھی میرا پیچھا نہیں چھوڑا۔‘ پھر اس کو ایسا لگا کہ اچانک ایک سایہ اس کے سامنے آ گیا دھندلا سا مگر اس کے نقش و نگار جانے پہچانے۔ انٹونی چیخ مار کر رینا کے ساتھ چمٹ گیا۔ ’رانی رانی، کس طرح اس سے جان چھڑاؤں! یہ ہر جگہ میرے ساتھ ہے مجھے یہ ایک بار مار کیوں نہیں دیتا تاکہ میں اس اذیت ناک زندگی سے نجات پا لوں۔‘

میک اپ سے عاری سادہ طبیعت کی حامل تیس سالہ رینا نے انٹونی کو الگ کرتے ہوئے کہا۔ ’انٹونی میں تمہاری پوری مدد کروں گی، تمہیں اس سے فائدہ پہنچے گا مجھے خود پہ اور تم پہ پورا اعتماد ہے۔‘

رینا کے دفتر میں جا کر انٹونی کرسی پہ ڈھیر ہو گیا۔ ’لیکن رانی تم کیا کر سکتی ہو مجھے پتا ہے کہ یہ سایہ کس کا ہے۔‘
’یہ ہمارا تیسرا سیشن ہے اور ابھی تک تم نے مجھے کچھ بھی نہیں بتایا ہے۔‘

انٹونی کچھ دیر فرش کو گھورتا رہا۔ اس کا سراپا پسینے سے گیلا ہو رہا تھا۔ ’میں نے کسی کو نہیں بتایا کہ میں نے عراق میں کیا کیا نہیں کیا۔‘
رینا نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ’تم مجھے سب کچھ بتا سکتے ہو میں تمہاری کونسلر اور رازدار ہوں، کسی کو کچھ نہیں بتاؤ گی۔ میں کچھ نہیں لکھ رہی۔‘

’ہاں مجھے ذرا پانی دو۔‘ انٹونی نے سفید تولیے سے پسینہ پونچھتے ہوئے آہستہ سے کہا۔ ’میری ڈیوٹی موصل عراق میں ایک چیک پوائنٹ پر تھی۔ ہر وقت اپنی جان کا ڈر لگا رہتا تھا کئی باغی گروپ بن گئے تھے اور ہم پر حملے کر رہے تھے۔ تھوڑے سے شک پہ بھی ہماری انگلی لبلبی پر جاتی کہ شاید کوئی خود کش حملہ آور ہے اور ہم فائر کر کے اس کار کو کو تباہ کر دیتے، ہمیں کسی کو مرتے دیکھ کر کوئی افسوس نہیں ہوتا اور اگر ہوتا بھی تو ایک آدھ گھنٹے کے لئے۔ تم کیا سوچو گی میں ایک انسان ہوں یا درندہ!‘

رینا کھڑکی کے باہر دیکھنے لگی۔ یاسیت کے سانپ نے اس کی مسکراہٹ کو نگل لیا تھا۔ ’انٹونی، بولتے رہو۔‘
انٹونی خاموش رہا۔
’یہ تمہارے بولنے کا وقت ہے۔ بولتے رہو۔‘

ماضی کا وزن ندامت کی زبان سے کہیں زیادہ تھا۔ وہ کرسی سے اٹھ کر ٹہلنے لگا اور پھر دوبارہ بیٹھ گیا۔ ’نہیں، میں اور کچھ نہیں کہنا چاہتا۔‘

’انٹونی بولو کہ تم نے شک کی بنیاد پر کئی گھر اجاڑ دیے، کتنی عورتوں کو بیوہ کر دیا، کتنے بچوں کو یتیم کر دیا۔‘

’ہاں رانی ہاں۔ عراق بھیجنے سے پہلے ہمارے ذہنوں میں یہ بٹھا دیا گیا تھا کہ ہم عراقی دشمنوں سے لڑنے کے لئے جا رہے ہیں۔‘ انٹونی نے چہرہ کو آگے کیا اور رازداری سے کہا۔

’ایک دن میں نے ایک کار پر شک کی وجہ سے فائر کئے وہ میرے بہت نزدیک آ گئی تھی۔ مجھے اس میں ایک جوان مرد اور ایک جوان عورت نظر آئے تھے۔ میں نے دونوں کو بھون کے رکھ دیا۔‘ پھر انٹونی نے رک کر ادھر ادھر دیکھا۔ جب میں کار کے بالکل قریب پہنچا تو ایک چھوٹا بچہ سیٹ پہ لیٹا ہوا تھا، اس کی قمیض پہ کئی جگہ خون لگا ہوا تھا، مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ زندہ تھا یا مردہ۔ جب میں نے کار کا دروازہ توڑا تو اس بچے نے چیخ مارتے ہوئے میری طرف دیکھا۔

اس کی نظروں سے، اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔ میں نے بچے کو باہر نکالا لیکن اس کی نظروں کی تاب نہ لا سکا، بھاگ گیا پھر میں اس کو چھوڑ کر۔ ’انٹونی کے ماتھے سے پسینہ بہنا شروع ہو گیا۔‘ رانی رانی، وہ زخمی بچہ اب تک میرا پیچھا کر رہا ہے خون سے بھری ہوئی چھوٹی سی قمیض پہنے ہوئے۔ کاش وہ مجھے مار ہی دے۔ رانی رانی، مجھے معاف کر دو میرے لیے وہ انسان نہیں تھے صرف دشمن تھے دشمن۔ میرا کیا قصور تھا اس میں! ’اب انٹونی سسکیاں لے لے کر رو رہا تھا۔

’میں تمہاری پریشانی دور کرنے میں پوری مدد کروں گی، اس بچے کے بارے میں پتا کروں گی۔ تم مجھے اس دن کی تاریخ اور اپنی چیک پوسٹ کا نمبر بتاو۔ میں ڈیفنس ڈپارٹمنٹ سے اس کی ویڈیو منگوا کراس کار کی پلیٹ نمبر کے ذریعے اس کے بارے میں پتہ کروا لوں گی۔‘

۔ پانچ ہفتے بعد ۔

’رانی آج پھر تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو پہلے سے بھی زیادہ، مجھے قتل کر دیا ہے تمہاری آنکھوں نے۔‘ آج انٹونی کی حالت سنوری ہوئی تھی۔

’اس طرح کی باتوں سے پرہیز کرنا چاہیے، یہاں پر میرا کام تمہاری مدد کرنا ہے نہ کہ رومانس کرنا۔‘ رینا نے اپنے بیگ میں کچھ تلاش کرتے ہوئے کہا۔

’لیکن میں بے بس ہوں۔‘

’تمہارے پاس بہت فالتو وقت ہے ان سب باتوں کے بارے میں سوچنے کے لئے۔ اچھا ایک خوشخبری لے کر آئی ہوں، میرے اسسٹنٹ نے دن رات ایک کر کے اس بچے کے بارے میں پتا کروایا ہے۔‘

انٹونی نے رینا کی بات کاٹی۔ ’کیا وہ بچہ ٹھیک ہے؟‘ اس کا سانس پھولنے لگ گیا۔

’وہ بچہ بالکل ٹھیک ہے اور اپنے چچا کے ساتھ نارمل زندگی گزار رہا ہے۔‘ رینا نے خوب اطمینان سے جواب دیا۔

’سچ مچ! سچ مچ! وہ بچہ ٹھیک ہے، اس کا مطلب ہے وہ میرا پیچھا کرنا چھوڑ دے گا۔‘ انٹونی دوڑ کر کرسی پہ بیٹھی ہوئی رینا سے بغلگیر ہو گیا تھا۔

رینا کے چہرے پہ ایک عجب سی مسکراہٹ تھی جس میں نجانے کتنے سچ اور کتنے جھوٹ چھپے ہوئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments