یکے بعد دیگرے متشدد واقعات، باعث تشویش صورتحال


میڈیا کے ذریعے تشدد کے واقعات سامنے آنا معمول بن گیا ہے۔ رپورٹ ہونے والے بیشتر واقعات کے مطابق معاشرے کے بے وسیلہ اور کمزور طبقات کے لوگوں کو ہراسانی، تشدد اور فرعونیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اسلام آباد میں نوجوان لڑکے اور لڑکی پر تشدد اور ان کی تضحیک کا واقعہ ابھی پرانا نہیں ہوا کہ اسی طرح کا ایک دلخراش واقعہ حالیہ دنوں ضلع ہری پور کی تحصیل خان پور میں رونما ہوا ہے۔ حسب معمول سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے اور شدید عوامی ردعمل کے نتیجے میں واقعہ کے تقریباً 15 روز بعد مقدمہ درج کیا گیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق جبین اختر نامی خاتون نے تھانہ خان پور میں ایف آئی آر کے اندراج کے لیے درخواست دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اس کا چودہ سالہ بیٹا محبوب اپنے ایک 13 سالہ دوست رقیب کے ہمراہ خان پور کا مشہور پھل لیچی خریدنے گیا۔ دونوں دوست موٹر سائیکل پر سوار تھے راستے میں کھڑے ملزم شکیل گجر نے انھیں روکا اور زبردستی لچی کے باغ میں وحید نامی شخص کے پاس لے گیا۔ جہاں دیگر چند ملزمان بھی موجود تھے۔ وحید نامی شخص نے دونوں نو عمر بچوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور دیگر ملزمان ویڈیو بناتے رہے۔ چھ گھنٹوں تک حبس بے جا میں رکھا اور بعد ازاں چوری کا الزام لگا کر دونوں لڑکوں کو تھانہ خان پور میں بند کروا دیا۔ خاتون نے تھانہ میں تعینات پولیس پر طرف داری کا الزام بھی عائد کیا اور کہا کہ مقامی سیاسی شخصیات نے راضی نامہ کر کے کیس کو رفع دفع کرنے کے لیے بھی دباؤ ڈالا ہے۔

دریں اثنا مرکزی ملزم کے دیگر ساتھیوں کی جانب سے بنائی گئی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل کردی گئی۔ ویڈیو وائرل ہوتے ہی سوشل میڈیا صارفین نے سخت ردعمل ظاہر کیا اور ملزمان کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ بالآخر قانون حرکت میں آ ہی گیا اور واقعہ کی ابتدائی رپورٹ درج کرتے ہوئے نامزد ملزمان پر 342 / 337 FI/ 53 CPA کی دفعات لگائیں۔ تاہم ملزمان روپوش ہیں۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی درندہ کسی ناتواں پر ٹوٹ پڑا ہے۔ نویں جماعت کے طالب علم دوستوں کو نیم برہنہ کر کے اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ ان کی آہ و بکا سن کر پتھر دل بھی موم ہو جائے لیکن ہاتھ میں چھڑی اٹھائے اس جلاد کو تھوڑا سا بھی رحم نہیں آتا دونوں لڑکوں کو مرغا بنا کر کبھی ایک کی پیٹھ پر بیٹھ کر دوسرے پر ڈنڈے برساتا ہے اور کبھی دوسرے پر سوار ہو کر پہلے پر لاٹھی چارج کرتا ہے۔

ایف آئی آر کے اندراج کے لیے درخواست دیتے ہوئے جو موقف متاثرہ بچے کی والدہ نے اپنایا اس کے سچا ہونے کی ہمارے پاس کوئی گواہی نہیں۔ درندہ صفت ملزمان نے باغ میں چوری سے لیچی توڑنے کا جو الزام بچوں پر لگایا اگر اسی کو درست مان لیا جائے تو کیا ایک مہذب معاشرے میں اس طرح خود ہی عدالت لگا کر سزا دینے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ جب تیرہ اور چودہ سال کی عمروں کے دو چوروں کو پولیس کے حوالے کیا گیا تو قانون اتنا اندھا کیوں تھا کہ درد سے کراہتے لڑکوں کے جسموں پر تشدد کے نشانات بھی نہ دیکھ سکا؟ وہ مقامی سیاستدان جو متاثرہ بچوں کے والدین پر راضی نامہ کے لیے دباؤ ڈالتے رہے کیا انھوں نے ووٹ صرف با اثر شخصیات یا جاگیر داروں سے ہی لینا ہے؟ اور وہ کس منہ سے خود کو عوامی نمائندے کہتے ہیں؟

خان پور کے رقیب اور محبوب ہی ایسے دو بے وسیلہ پاکستانی نہیں بلکہ وطن عزیر کے کئی بچے اور نوجوان اس طرح کے واقعات کا سامنا کر رہے ہیں۔ درد دل رکھنے والے شہری دکھ اور افسوس کا اظہار اور چند روز سوشل میڈیا کے ذریعے حکومت، انتظامیہ اور قانون پر نکتہ چینی کر کے خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ ہمارے حکمران اور متعلقہ ادارے عوامی حقوق کے تحفظ اور معیار زندگی کی بہتری کے لیے محض بلند و بانگ دعوے ہی کرتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے تاحال عملی اقدامات کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔

انصاف کی عدم فراہمی اور سزا و جزا کے کمزور نظام کی بدولت ہی درندہ صفت و شدت پسند عناصر اس قدر بے فکر ہیں کہ متشدد واقعات کی ویڈیوز بنا کر خود وائرل بھی کرتے ہیں جس سے یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس جنگل میں کوئی ہمارا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ بہت سارے ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں متاثرین کو ویڈیوز وائرل سے بلیک میل کیا گیا لیکن ملزمان بچ نکلے۔ ملزمان کی جانب سے کسی متشدد واقعہ کی ویڈیو وائرل ہونا اور ملزمان کا بچ نکلنا ریاست اور حکومت کی ناکامی کی دلیل ہے۔

جب تک اس طرح کے واقعات کے مرکزی کرداروں کو سرے عام قرار واقعی سزائیں دے کر عبرت کا نشان نہیں بنایا جاتا اس وقت تک ایسے جرائم کا خاتمہ اور معاشرتی سدھار پیدا ہونے کی سوچ رکھنا حماقت سے کم نہیں۔ درندے ایک دوسرے کی نقالی کرنے میں بہت جلدی کرتے ہیں اگر ایک متشدد واقعہ کے مجرمان کو سزا نہ دی گئی تو اس کی نقل کرتے ہوئے فوراً ملتا جلتا کوئی دوسرا واقعہ رونما ہو جائے گا۔ اسلام آباد میں لڑکی اور لڑکے پر تشدد کے بعد ملحقہ علاقے خان پور میں دلخراش واقعہ رونما ہونا اس کی مثال ہے۔

قوانین پر عملدرآمد یقینی ممکن نہیں تو آئے روز نئے نئے بل پیش کرنا اور قانون سازی فضول ہے۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ عدلیہ اور پولیس سمیت متعلقہ محکموں میں اصلاحات پر توجہ دی جائے تاکہ معاشرے کے پسے ہوئے طبقات اور مظلومین کو فوری اور سستے انصاف کی فراہمی یقینی بنا کر جرائم کی بیخ کنی کی جا سکے بصورت دیگر صورتحال مزید سنگین ہوتی جائے گی اور کمزور طبقات درندوں کے رحم و کرم پر ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments