پچاس لاکھ گھر اور پاکستان کی ہاؤسنگ سوسائٹیز


جمال احسانی کہتے ہیں۔ کیسے وہ آباد کریں گے بستیاں جن سے درو دیوار کی حفاظت نہیں کی جاتی۔ مارچ 2016 میں نواز شریف حکومت کی معمول کی چھوٹی موٹی غلطیاں، پورے میڈیا پر اس ترتیب سے نشریات کا حصہ بنائی جا رہی تھیں۔ جن کو سن کر کانوں کو یقین نہیں آ رہا ہوتا تھا اور بار بار کانوں میں انگلی پھیر کر یہ یقین کرنا پڑ رہا ہوتا تھا کہ محب وطن میڈیا جھوٹ تو نہیں بول سکتا۔ مگر اگلی خبر پھر ایسی ہوتی جس پر یقین کرنا مشکل لگتا مگر پھر تبصرے کرنے والے ایسے ایسے صاحب بصیرت لوگوں پر شک کا گمان خود اپنی بے بصیرتی شرمندہ کر دیتی۔

اور یکے بعد دیگرے۔ مختلف چینلز پر عمران خان کی تقاریر اس ترتیب سے نشریات کا حصہ بنائی جا رہی ہوتیں تھیں جن سے صاف معلوم ہو رہا ہوتا تھا کہ سارا میڈیا کسی ایک ہی اعلیٰ ظرف نہایت پڑھے لکھے باوفا ذہن کی کمانڈ میں کام کر رہا ہے۔ آج پانچ سال پانچ ماہ بعد وہ سارے اصحاب با کمال ایک طرف اور انیس کروڑ پچاس لاکھ عوام دوسری طرف دکھائی دیتے ہیں۔ مگر کمانڈ چونکہ آج بھی اسی اعلیٰ ظرف کے پاس ہے اور اسی لئے ساڑھے انیس کروڑ پچاس لاکھ نفوس بے وزن اور صرف دس لاکھ اشرافیہ اور چالیس لاکھ طفیلئے با وزن معلوم ہوتے ہیں۔

اس وقت عمران خان سے جو تقاریر کروائی جاتی تھیں ان میں پچاس لاکھ گھروں کی فراہمی بھی ایک احسن عمل لگتا تھا، اب چونکہ خان صاحب کی حکومت کا چوتھا سال شروع ہو گیا ہے مگر ایک بھی گھر ملک کے کسی بھی حصے میں مکمل ہو کر کسی بھی عام ووٹر کو نہیں دیا جا سکا۔ اور اس کے مقابلہ میں صرف راولپنڈی و اسلام آباد میں 46 جعلی ہاؤسنگ سوسائٹیز کام کر رہی ہیں اور غریب یا مڈل کلاس عوام سے لوٹ مار کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔

اس کے ساتھ سونے پہ سہاگہ یہ ایک ہاؤسنگ سوسائٹی جس کے پاس کوئی زمین نہیں ہے اس کا نام الجنت گارڈن ہے اس کا دفتر مری روڈ پر ہے یہ 2014 سے سارے پاکستان میں اپنے پروجیکٹ کے پلاٹ فروخت کر رہی ہے مگر اس کے پاس ایک انچ ہموار جگہ نہیں۔ اور اس سوسائٹی نے ایک اور کام دوسری ہاؤسنگ سوسائٹیز سے الگ یہ کیا ہے اس نے عوام کے ساتھ ساتھ خواص کو بھی متاثر کیا ہے۔ اس نے اپنے پروجیکٹ میں آرمی بلاک بھی شو کیا ہوا ہے۔

اب یہ نہیں معلوم اس سوسائٹی کو کسی ذمہ دار ریاستی اہل کار کی شاید سپورٹ حاصل ہو ظاہراً تو یہ ناممکن نظر آتا ہے مگر بکنگ فارم پر آرمی بلاک لکھنا کسی خفیہ مدد کے بغیر ہو نہیں سکتا۔ مجھے چونکہ عام آدمی اپنے مسائل کے متعلق بتاتا رہتا ہے۔ ان سوسائٹیز میں چونکہ عام لوگوں کا اربوں روپیہ ڈوبا ہوا ہے۔ اور ملنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی کیونکہ سوسائٹی تو جعلی ہیں اور مافیاز چلا رہے ہیں اور عوام کا کوئی فورم نہیں ہوتا اس لیے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان سوسائٹیز کو راولپنڈی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کی کسی نہ کسی طرح سپورٹ حاصل تھی اور ہو گی سے درخواست کی جاتی ہے۔ ان تمام سوسائٹیز کو عوام کو حسب وعدہ و معاہدہ پلاٹ دینے کا پابند بنایا جائے بصورت دیگر ان کے پیسے واپس کرنے کا پابند بنایا جائے۔ ورنہ پھر وزیر اعظم صاحب سے درخواست کی جائے گی۔

کس قدر افسوس کی بات ہے پاکستان کی عوام اپنا حق حلال کا ایک ایک روپیہ جمع کر کے وہ اپنا اور اپنے بچوں کا سر چھپانے کے لئے زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا نہ جانے کتنے سال قسطیں ادا کر کے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن بالآخر پتہ چلتا ہے یہ ہاؤسنگ سوسائٹی تو غیر قانونی ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں وہ دن کب آئے گا۔ جب ہر پاکستانی کو انصاف ملے گا کاش ان غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز کو چلانے والوں اور ان کی سرپرستی کرنے والوں کو اور متاثرین کو ان کا حق دیا جاتا تو پھر عوام کے ساتھ اس طرح کے دھوکے نہ ہوتے۔

لیکن ہمارے ملک کا المیہ ہے اگر ایک شخص نے عوام سے ایک ارب لوٹا ہے تو وہ عدالت میں دس کروڑ جرمانہ ادا کر کے باعزت بری ہو جاتا ہے۔ یہی ہمارے ملک کا انصاف ہے ہونا تو یہ چاہیے اگر ایک شخص نے عوام کا ایک ارب لوٹا ہے تو اس پر دو ارب کا جرمانہ ہونا چاہیے اس کی تمام جائیداد ضبط ہونی چاہیے پھر باقی نوسر بازوں کو نصیحت ہوگی اور وہ ایسا قدم اٹھانے سے پہلے سو بار سوچنے پر مجبور ہوں گے۔ لیکن ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہی ہماری بدبختی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments