انڈیا کے سابق وزیر اعظم نرسمہا راؤ کا تاریخی فیصلہ جس نے ملک کو ایک معاشی قوت میں بدل دیا

زبیر احمد - بی بی سی نیوز


نرسمہا راؤ اور ڈاکٹر من موہن سنگھ

Prashant Panjiar/The The India Today Group via Ge

چوبیس جولائی 1991، اسے انڈیا کی معاشی آزادی کا دن کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔ تیس برس قبل 24 جولائی کو پیش کیے جانے والے بجٹ کے ساتھ انڈیا میں ’اوپن اکانومی‘ یعنی آزاد معیشت کی بیناد رکھی گئی۔

انڈیا کی بند معیشت میں حکومت ہی سب کچھ طے کرتی تھی۔ حکومت یہ طے کرتی تھی کہ کتنے سامان کی پیداوار ہو گی، اسے بنانے میں کتنے لوگ کام کریں گے اور اس کی قیمت کیا ہو گی۔ اس نظام کو ’لائسنس پرمٹ راج‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔

اس کے برعکس آزاد معیشت میں نجی کمپنیوں کی آزادی، نجی کاروباری اداروں کی حوصلہ افزائی، حکومتی سرمایہ کاری کو کم کرنے اور اوپن یا آزاد مارکیٹ کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ تیس برس قبل انڈیا نے آزاد معیشت کے راستے پر چلنے کے لیے متعدد معاشی اصلاحات کے منصوبوں کا اعلان کیا جو 24 جولائی 1991 کے بجٹ کا ایک اہم حصہ تھے۔

بجٹ کے خاص پہلو

  • گھریلو مارکیٹ میں کمپنیوں کے درمیان مقابلہ بڑھانے کا اعلان
  • لائسنسنگ راج کا خاتمہ، کمپنیاں متعدد پابندیوں سے آزاد
  • بجٹ میں برآمداگی و درآمدگی سے متعلق پالیسی میں تبدیلیاں لائی گئیں جس کا مقصد درآمدگی کے لائسنسنگ کو آسان کرنا اور برآمدات کو فروغ دینا تھا۔
  • بجٹ میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا خیرمقدم کیا گیا اور کہا گیا کہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
  • بجٹ میں سافٹ ویئر کی برآمد کے لیے انکم ٹیکس ایکٹ کے سیکشن 80HHC کے تحت ٹیکس میں رعایت دینے کا اعلان کیا گیا۔

اس بجٹ کو جدید انڈیا کی تاریخ کا ایک بڑا واقعہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کا سہرا اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہا راؤ اور ان کے وزیر خزانہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی جوڑی کو دیا گیا۔

ڈاکٹر سنگھ نے اس بجٹ کو پیش کرتے ہوئے پارلیمان میں فرانسیسی مفکر وکٹر ہیوگو کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا تھا، ’زمین پر کوئی طاقت اس خیال کو نہیں روک سکتی جس کا وقت آ گیا ہے۔‘

پی وی نرسمہا راؤ

Robert Nickelsberg/Getty Images
پی وی نرسمہا راؤ انڈیا کے سابق وزیر اعظم تھے

ڈاکٹر سنگھ کا مطلب یہ تھا کہ انڈیا کا ایک بڑی عالمی طاقت کے طور پر ابھرنا اور معاشی طاقت بننا ایک ایسا خیال تھا جس کا وقت آ گیا تھا اور کوئی اسے روک نہیں سکتا تھا۔ منموہن سنگھ کے پر اعتماد الفاظ ایک بات تھی، لیکن معاشی اصلاحات لانے سے متعلق فیصلہ انڈیا کی مجبوری تھی۔

انڈیا اس وقت تاریخ کے سب سے بڑے معاشی بحران سے گزر رہا تھا۔ انڈیا کے سب سے بڑے حکومت نشریاتی ادارے پرسار بھارتی کے سابق چئیرمین سوریہ پرکاش اس وقت اخبار انڈین ایکسپریس میں سینئیر صحافی تھے۔

سوریہ پرکاش بتاتے ہیں کہ ’میرے خیال میں یہ ایک مجبوری تھی لیکن جب کسی قوم کے سامنے کوئی مجبوری آتی ہے تو یہ ایک چیلنج ہوتا ہے۔ اگر ہم اس چیلنج کو قبول کرتے ہیں تو ہم تبدیلی کی طرف گامزن ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ 1991 کا بحران بھی اسی نوعیت کا بحران تھا۔

دوسری بات یہ کہ ملک کی خوش قسمتی یہ تھی کہ ہمیں اس وقت وزیر اعظم کی حیثیت سے نرسمہا راؤ جیسا سینئیر لیڈر ملا۔انھوں نے جو اقدامات انتہائی سوچ سمجھ کر اٹھائے اس سے ملک کی حالت اور سمت ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔‘

انڈیا یہاں تک پہنچا کیسے؟

آزادی کے بعد سے ہی انڈیا کو معاشی مشکلات کا سامنا تھا۔ معاشی اصلاحات کی ضرورت کو محسوس کیا گیا لیکن اس بارے میں سیاسی جماعتوں میں کبھی کوئی اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ اندرا گاندھی نے 1966 میں معاشی اصلاحات کی ناکام کوشش کی اور راجیو گاندھی کمپیوٹر اور رنگین ٹی وی لے کر آئے۔

لیکن پالیسی کی سطح پر معاشی اصلاحات کے راستے پر کبھی نہیں چل سکے۔ اس دوران انڈیا کی معاشی مشکلات بڑھتی گئیں۔ 1980 کی دہائی میں ان مشکلات میں مزید اضافہ ہوا اور 1990 تک ان مسائل نے سنگین معاشی بحران کی شکل اختیار کر لی۔ اس وقت انڈیا کے وزیر خزانہ یشونت سنہا تھے اور وزیر اعظم چندر شیکھر تھے۔

بی بی سی ہندی کے ساتھ ایک خصوصی گفتگو میں یشونت سنہا نے اس دور کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’میں آپ کو یہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ معروف اقتصادی ماہر آئی جی پٹیل نے 1991 میں بنگلورو میں ایک لیکچر میں کہا تھا کہ 80 کی دہائی کے آخری پانچ برسوں میں حکومت نے اس طرح سرکاری خزانہ خرچ کیا جیسے اسے کوئی پرواہ ہی نہیں ہے۔‘

نرسمہا راؤ

نرسمہا راؤ نے ہمیشہ منموہن سنگھ کا ساتھ دیا۔

سینئیر صحافی شنکر آئیر کے مطابق ’1988 میں وزیر اعظم راجیو گاندھی کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے کہا تھا کہ انڈیا تیزی سے معاشی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے چنانچہ آپ اس سے بچنے کے لیے قرض لیں۔ راجیو گاندھی اس مشورے سے متفق تھے لیکن عام انتخابات قریب ہونے کی وجہ سے انھوں نے اس پر توجہ نہیں دی اس وقت ان کی پارٹی کے سینئیر رہنما بھی اس کے لیے تیار نہیں تھے۔‘

1989 کے عام انتخابات میں وشوناتھ پرتاپ سنگھ کی حکومت بنی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دو بیساکھیوں پر مبنی حکومت تھی یعنی ان کی حکومت کانگریس اور بی جے پی کی حمایت سے چل رہی تھی۔ وی پی سنگھ نے وزیر اعظم کا عہدے سنبھالتے ہی کہا تھا کہ سرکاری خزانہ بالکل خالی ہے۔

تب تک ملک کا معاشی بحران اور سنگین ہو چکا تھا۔ اس دور کو یاد کرتے ہوئے ڈاکٹر منموہن سنگھ نے برسوں بعد سینئیر صحافی شیکھر گپتا کو دیے ایک انٹرویو میں کہا تھا ’انڈیا شدید معاشی بحران کا شکار تھا۔ چندر شیکھر وزیر اعظم بنے اور انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں معاشی معاملات میں انھیں صلاح دوں۔ میں نے سوچنا شروع کر دیا کہ کیا کیا جائے؟‘

سیاسی اور معاشی غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار اس ماحول میں نئے وزیر خزانہ یشونت سنہا کے چیلینجز میں مزید اضافہ ہو گیا۔

انھوں نے بی بی سی ہندی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب میں دسمبر 1990 میں وزیر خزانہ بنا تو اس وقت انڈیا میں زرمبادلہ کا ذخیرہ کم ہو کر صرف دو ارب ڈالر رہ گیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عام حالات میں انڈیا کے پاس زرمبادلہ کے اتنا ہی ذخائر موجود تھے جتنا صرف ہم دو ہفتوں تک اپنے اشیا درآمد کر کے پیدا کر سکتے ہیں۔‘

سونے کو گروی رکھنے کا معاملہ

اس وقت انڈیا ایک بڑا مقروض ملک تھا لیکن اسے مزید قرضوں کی ضرورت تھی۔ انڈیا پر بہت سارے ممالک سے قلیل مدتی قرضوں کا بوجھ تھا جس کی قسطیں پانچ ارب ڈالر کے قریب تھیں۔ قرض پر سود ادا کرنے کے لیے بھی پیسے نہیں تھے۔

یشونت سنہا کا کہنا ہے کہ ’میرے وزیر خزانہ کا عہدہ سنبھالنے سے قبل پانچ بلین ڈالر کا قلیل مدتی قرض لیا گیا تھا۔ یہ 30 دن سے 90 دن تک کی مدت کا کا قرض تھا۔ یہ مدت ختم ہونے کے بعد آپ کو اسے ادا کرنا پڑے گا۔ ہمارے پاس زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے برابر تھے تو ہمیں لگا کہ ہم دیوالیہ نہ بن جائیں۔‘

سابق وزیر خزانہ یشونت سنہا

سابق وزیر خزانہ یشونت سنہا

ان کے مطابق معاشی بحران کی شروعات بیلنس آف پیمنٹ میں عدم توازن کے ساتھ ہوئیں تھی اور بعد میں کرنٹ اکاؤنٹ میں عدم توازن نے اسے مزید سنگین کر دیا۔ اس دوران حکومت نے سمگلنگ سے ضبط کیے ہوئے سونے کو سوئیزر لینڈ کے ایک بینک میں گروی رکھ دیا۔ یہ سب چھپ چھپا کر کیا لیکن اس متنازعہ قدم سے بھی ملک کی معاشی حالت بہتر نہیں ہوئی۔

کچھ مہینوں بعد نرسمہا راؤ کی حکومت نے آر بی آئی یعنی رزرو بینک آف انڈیا میں رکھے ہوئے سرکاری سونے کے ذخائر کو دو غیر ملکی بینکوں کے پاس گروی رکھ دیا۔ سونے کی منتقلی کو خفیہ رکھا گیا لیکن ’انڈین ایکسپریس‘ اخبار کے ایک تفتیشی صحافی نے اس کا پردہ فاش کیا۔

جس طرح بدنام زمانہ ہرشد مہتا بدعنوانی کیس کی تفتیش کے لیے سینئر صحافی سچیتا دلال کا نام یاد کیا جاتا ہے اسی طرح صحافی شنکر آئیر کا نام 1990-91 کے سنگین معاشی بحران کی حقیقت کو سامنے لانے کے لیے لیا جاتا ہے۔ انھوں نے انڈین حکومت کے اس متنازعہ اقدام پر سے پردہ ہٹانے کا کام کیا تھا۔

شنکر آئیر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’جب کسی خاندان میں ایک بہت بڑا مالی بحران ہوتا ہے تو ان کے پاس ایک آخری متبادل یہ ہوتا کہ وہ خاندان اپنی خواتین کے زیورات گروی رکھتا ہے۔ میری رپورٹ کا اثر یہ ہوا کہ لوگوں کو پہلی بار احساس ہوا کہ ملک کا معاشی بحران ہ کتنا سنگین ہے۔‘

ملک کا سونا صرف 40 کروڑ ڈالر کے لیے گروی رکھا گیا تھا۔ جدید دور کے بڑے کارباریوں کے لیے یہ ایک معمولی سے رقم ہے۔ اس وقت حزب اختلاف اور میڈیا نے یوشونت سنہا کو کھری کھری سنائی۔

ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے یشونت سنہا کہتے ہیں کہ ’مجھے اب بھی یاد ہے۔ میں پٹنہ میں تھا۔ انتخابات لڑنے گیا تھا۔ وزارت خزانہ کا ایک اہلکار میرے دستخط لینے آیا تھا۔ سونے کو گروی رکھنے کا فیصلہ حکومت کا تھا اور راجیو گاندھی حکومت کے باہر ہو کر بھی اس فیصلے سے متفق تھے لحاظہ میں نے دستخط کر دیے۔‘

لیکن اس وقت ان کی بہت بدنامی ہوئی تھی جس کا وہ خود اعتراف کرتے ہیں۔ یشونت سنہا بتاتے ہیں،’ہمارے مخالفین نے اپنی انتخابی تقاریر میں اس کا بہت زیادہ تذکرہ کیا. یہ وہی شخص تھا جس نے ملک کے سونے کو گروی رکھنے کا کام کیا تھا۔‘

یہ بھی پڑھیے

نرسمہا راؤ کے وہ اقدامات جنھوں نے انڈیا کے معاشی مستقبل کا رخ طے کیا

کیا کانگریس اور گاندھی خاندان لازم و ملزوم ہیں؟

نریندر مودی کے سات سالہ دور حکومت میں انڈین معیشت نے اپنی چمک دمک کیسے کھوئی

کیا 2024 تک انڈیا پانچ کھرب کی معیشت والا ملک بن سکے گا؟

خلیجی جنگ

خلیج کی جنگ اور تیل کا بحران

سونے کو گروی رکھ کر بھی انڈین حکومت کو زیادہ فائدہ نہیں ہوا۔ معاشی بحران بڑھتا ہی گیا۔ اسی دوران خلیج جنگ شروع ہو گئی۔ جس کے دو نتائج انڈیا پر مرتب ہوئے۔ پہلا سفارتی سطح پر انڈیا کو فیصلہ کرنا تھا کہ وہ اپنے قریبی دوست عراق کا ساتھ دے یا امریکہ کی حمایت کرے۔

اور دوسرا یہ کہ انڈیا جنگ کی وجہ سے خام تیل کی بڑھتی قیمتوں سے کیسے نمٹے۔ جنگ سے پہلے انڈیا تیل کی درآمد پر ہر ماہ 500 کروڑ ارب روپے خرچ کرتا تھا لیکن جنگ شروع ہونے کے بعد ہر مہینے اسے 1200 کروڑ روپے خرچ کرنے پڑے۔

اقتصادی بحران سے نمٹنے کے لیے چندر شیکھر حکومت کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے رجوع کرنا پڑا۔ اس بارے میں صحافی شنکر آئیر کہتے ہیں کہ’پارلیمان میں اکثریت حاصل نہ ہونے کے باوجود انھوں (چندر شیکھر) نے ایک جرات مندانہ فیصلہ کیا۔ آئی ایم ایف میں ہمیں امریکہ سے حمایت نہیں مل رہی تھی۔ جب سبرامنیم سوامی وزیر تجارت تھے تو چندر شیکھر نے ان سے کہا کہ آپ کو امریکی محکمہ خارجہ سے بات کرنی چاہیے اور ان کا تعاون حاصل کرنا چاہیے۔

امریکہ کو خلیج کی جنگ میں لڑاکا طیاروں میں دوبارہ ایندھن بھرنے کے لیے انڈیا کے ہوائی اڈوں کے استعمال کی اجازت کی ضرورت تھی۔ سوامی اس کے لیے تیار ہو گئے۔ شنکر ایئر بتاتے ہیں ’جس دن معاہدہ ہوا اور پہلا طیارہ انڈیا میں اترا، اس کے چار یا پانچ دن بعد آئی ایم ایف نے انڈیا کے بیل آؤٹ معاہدے پر دستخط کر دیے۔‘

یہ چندر شھیکر اور سبرامنیم سوامی کی سمجھداری کا نتیجہ کم اور انڈیا کی مجبوری کا معاملہ زیادہ تھا۔ آئی ایم ایف کے لیے اسے کوئی قرض دینے کو تیار نہیں تھا۔

ڈاکٹر منموہن سنگھ کا کردار

آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے کی کل 25 شرائط تھیں جن میں انڈیا کی معیشت کو کھولنا اور سرکاری کمپنیوں میں نجی سرمایہ کاری کرنے کا عمل شروع کرنا شامل تھا۔

منموہن سنگھ

T.C. Malhotra/Getty Images
انڈیا کے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ ایک نامور اکانومسٹ بھی ہیں

مئی 1991 کے عام انتخابات میں نرسمہا راؤ، جن کو راجیو گاندھی نے انتخابات لڑنے کے لیے ٹکٹ نہیں دیا تھا، وہ سیاست سے تقریبا ریٹائر ہو چکے تھے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ انتخابی مہم کے دوران راجیو گاندھی کا قتل کر دیا گیا۔ نرسمہا راؤ کانگریس کے لیڈر منتخب ہوئے۔ انھوں نے اکثریت حاصل کرنے کے لیے کم پڑ رہے رکن پارلیمنٹ کا انتظام کیا اور حکومت بنائی۔

وزیر خزانہ کے عہدے کے لیے ان کی پہلی پسند ماہر اقتصادیات آئی جی پٹیل تھے لیکن جب انھوں نے نرسمہا راؤ کی پیش کش کو مسترد کر دیا تو ان کی نظر منموہن سنگھ پر پڑی جو کچھ عرصہ قبل ہی وزیر اعظم چندر شیکھر کے اقتصادی مشیر تھے اور بعدازاں وہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) کے چئیرمین بن گئے تھے۔

صحافی شنکر آئیر کے مطابق، ڈاکٹر منہوہن سنگھ ایک نامور اکانومسٹ تھے اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں میں ان ساکھ بہت اچھی تھی۔ نرسمہا راؤ کا انھیں وزیر خزانہ بنانے کے پیچھے مقصد یہ تھا کہ انڈیا کو بین الاقوامی بینکوں سے آسانی سے قرض مل جائے گا۔‘

ایک بار جب ڈاکٹر سنگھ وزیر خزانہ بن گئے تو نرسمہا راؤ نے ہمیشہ ان کا ساتھ دیا، ہر فیصلے میں ان کی حمایت کی۔ سوریہ پرکاش بتاتے ہیں، ’ہر ہفتے بائیں بازو کے اراکین معیشت کو کھولنے کے فیصلے پر ڈاکٹر سنگھ کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے لیکن نرسمہا راؤ ان کے پیچھے کھڑے ہوتے تھے، انھوں نے کہا، آپ اپنا کام جاری رکھیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔‘

بہت برسوں بعد نرسمہا راؤ نے صحافی شیکھر گپتا کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران بتایا تھا کہ ’ڈاکٹر منموہن سنگھ نے معاشی اصلاحات کرنے کی پوری کوشش کی اور میں ان کے پیچھے چٹان کی طرح کھڑا رہا۔‘

24جولائی 1991، ایک تاریخی دن

نرسمہا راؤ نے جون 1991 میں اقتدار سنبھالا اور ایک مہنیے بعد ہی وہ مشہور بجٹ پیش کیا گیا جس نے ملک کی تقدیر بدل دی۔ یہ 24 جولائی کا دن تھا اور سال 1991۔

عام طور پر بجٹ تیار کرنے میں تین ماہ لگتے ہیں لیکن منموہن سنگھ کے پاس صرف ایک مہینہ تھا۔ وہ بجٹ پیش کیا جس نے لائسنس پرمٹ راج کا دور ختم کر دیا۔ معیشت کو آزاد معیشت میں تبدیل کیا گیا، نجی کمپنیاں سرمایہ کاری کرنے کے لیے سامنے آئیں اور غیر ملکی کمپنیوں کی بھی سرمایہ کاری کا بھی عمل شروع ہوا۔

انڈسٹری کی وزارت نرسمہا راؤ نے اپنے پاس رکھی۔ اس وزارت میں اصلاحات کی سب سے زیادہ ضرورت تھی، نرسمہا راؤ نے اپنے ساتھیوں کی مخالفت کے باوجود اس میں ایک سے زیادہ اصلاحات کیں۔

جلد ہی اس کے فوائد واضح ہونا شروع ہو گئے۔ پیسے سے پیسہ کمایا جانے لگا، سرکاری کمپنیوں میں ’ڈاؤن انوسٹمنٹ’ ہونے لگی، غیر ملکی سرمایہ کاری بھی ہوئی۔ یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ غیر ملکی کمپنیوں کی آمد سے انڈین کمپنیاں ناکام ہو جائیں گی یا وہ غیر ملکی کمپنیوں کی مقامی سپلائرز بن کر رہ جائیں گی لیکن اس کے برعکس انڈین کمپنیاں پھلنے پھولنے لگیں۔ مارکیٹ میں لاکھوں نئی ​​ملازمتیں آئیں اور کروڑوں افراد پہلی بار غربت کی لکیر سے اوپر کی زندگی گزارنے لگے۔

مناسب شخص، غیر مناسب وقت

اس وقت کے میڈیا نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کو ہیرو قرار دیا، حالانکہ سوریا پرکاش اور شنکر آئیر کہتے ہیں کہ معاشی اصلاحات کے کا اصل ہیرو پی وی نرسمہا راؤ تھے۔ لیکن اگر 1991 میں چندر شیکھر کی حکومت نہیں گرتی تو معاشی اصلاحات کے اصل ہیرو چندر شیکھر اور یشونت سنہا ہوتے۔

یشونت سنہا نے 1991 کا بجٹ تیار کیا تھا اور معاشی اصلاحات کے بہت سے فیصلوں کو اس میں شامل کیا گیا تھا۔ بجٹ 28 فروری کو پیش کیا جانا تھا لیکن حکومت نے کانگریس کی حمایت کھو دی۔ ایسی صورتحال میں یشونت سنہا سے صرف ایک عبوری بجٹ پیش کرنے کو کہا گیا۔

یشونت سنہا اس لمحے کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں’ہم لوگوں کا منصوبہ یہ تھا کہ ہم 28 فروری کو بجٹ پیش کریں گے اور معاشی اصلاحات کے اقدامات کو مضبوطی سے آگے بڑھائیں گے۔ اس کے بعد آئی ایم ایف کے پاس جا کر پانچ سے چھ بلین ڈالر کے قرض کا مطالبہ کریں گے۔ لیکن ایسا ہو نہیں سکا کیونکہ کانگریس نے کہا تھا کہ آپ صرف تین ماہ کا عبوری بجٹ پیش کریں۔ اس کے بعد بحران مزید سنگین ہو گیا۔‘

یشونت سنہا اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔ وہ مزید کہتے ہیں’جب مجھ سے عبوری بجٹ پیش کرنے کو کہا گیا تو میں نے اس کی سخت مخالفت کی۔ میں گھر واپس آیا اور میں نے اپنے ہاتھ سے چندر شیکھر جی کو اپنا استعفیٰ لکھ کر بھیجا۔ میں استعفیٰ دے کر گھر بیٹھ گیا، سرکاری گاڑی واپس کر دی اور دفتر جانا چھوڑ دیا۔‘

لیکن چندر شیکھر نے انھیں راضی کر لیا اور انھوں نے اپنا استعفیٰ واپس لے لیا، آخر کار یشونت سنہا نے عبوری بجٹ پیش کیا۔اکثریت کھونے کی وجہ سے چند ہفتوں کے بعد حکومت کو استعفی دینا پڑا۔

یشونت سنہا بتاتے ہیں ’بجٹ تقریر کے علاوہ سب کچھ تیار تھا۔ بجٹ تقریر نہیں ہوئی بلکہ عبوری بجٹ تقریر ہوئی۔ اس عبوری بجٹ تقریر کو دیکھیں اور منموہن سنگھ کی جولائی میں پیش کردہ بجٹ تقریر کو دیکھیں۔ آپ دونوں پر غور کریں تقریر کی زبان ایک جیسی ہے۔ اس تقریر میں بہت سارے پیراگراف ہیں جن میں بالکل وہی باتیں کی گئی ہیں جو ہم نے اپنے عبوری بجٹ میں کہی تھیں۔‘

شنکر ایئر اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ’بجٹ پیش کرنے والے دونوں وزراء کی ٹیمیں بھی تقریباً ایک جیسی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کانگریس پارٹی، جو باہر سے چندر شیکھر کی حکومت کی حمایت کر رہی تھی، کو خیال آیا تھا کہ یشونت سنہا اصلاحات سے متعلق قدامات کا اعلان کرنے والے ہیں اور کانگریس نہیں چاہتی تھی کہ چندر شیکھر کی حکومت کو اس کا کریڈٹ ملے تو انھوں نے حکومت گرا دی۔‘

شنکر ائیر مزید بتاتے ہیں کہ ’میں یشونت سنہا کی بات سے متفق ہوں۔ اگر وہ بجٹ پیش کرتے تو لوگ ان کی تعریف کرتے۔ یشونت سنہا کے بارے میں، میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ وہ غلط وقت پر صحیح شخص تھے۔ یعنی ان کے لیے وقت کبھی صحیح نہیں رہا۔ یہ بات خود یشونت سنہا بھی قبول کرتے ہیں۔‘

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ کہ اصلاحات کی سست رفتار کو تیز کیا جانا چاہیے جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ معاشی اصلاحات کی وجہ سے معاشرے میں غیر برابری پیدا ہوئی ہے جس کو کم کرنے پر زور دیا جانا چاہئے لیکن کوئی بھی اس سے انکار نہیں کرتا ہے کہ 30 سال قبل جس اقتصادی تاریخ کو رقم کیا گیا تھا اس نے ملک کو ایک بہت بڑی معیشت بنا دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp