ڈی جی خان حادثہ: لالچ، نا اہلی، بے حسی کی داستان


پاکستان میں بدقسمتی سے ہر تہوار پر کوئی نہ کوئی ایسا حادثہ ہوجاتا ہے جو فضاء کو سوگوار کر جاتا ہے ۔ ایسا ہی ڈیرہ غازی خان واقعہ ہے جس میں سیالکوٹ سے عید منانے کے لئے واپس جانے والے مزدور لقمہ اجل بنے۔ اگر دیکھا جائے تو اس دفعہ حکومت کی جانب سے عیدالاضحی پر تین بے ڈھنگی ناقابل فہم چھٹیاں دی گئیں۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب ذرائع مواصلات پر کوئی کام نہیں کیا گیا، ریلوے تباہ حال ہے، سڑکوں کی حالت خستہ حال ہے اور 70 فیصد آبادی کی نقل و حرکت کے لئے استعمال ہونے والی بسوں کی نہ چیکنگ کی جاتی ہے اور نہ ہی ڈرائیورز کی ٹریننگ تو ایسے میں اس قسم کی چھٹیوں میں حادثات ناگزیر ہو جاتے ہیں۔

غریب ملک ہونے اور چھوٹے شہروں میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر آبادی بڑے شہروں کا رخ کرتی ہے اور یہی لوگ تہواروں کے موقع پر جب گھروں کا رخ کرتے ہیں تو نہ صرف بس مافیا کے ہاتھوں لٹتے ہیں بلکہ کم کرائے اور کم چھٹیوں کی وجہ سے بعض اوقات تو بسوں کی ڈگیوں، چھتوں اور بسوں کے اندر کھڑے ہو کر پر بھی سفر کر کے گھر پہنچتے ہیں۔ میں بذات خود عید یا تہواروں ہر گھر کا سفر کرتا رہتا ہوں تو کچھ ایسے عوامل ہیں جو میرا ذاتی مشاہدہ ہیں ان کا ذکر کرنا چاہتوں جو کہ ان حادثات کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہیں۔ یاد رہے کہ یہ تحریر بھی میں لاہور سے اپنے آبائی گھر جام پور سفر کے دوران لکھی ہے۔

سب سے پہلی اور بنیادی وجہ ہے ٹرانسپورٹرز کی جانب سے زیادہ سے زیادہ منافع کے حصول کے لئے بسوں کو بغیر کسی مینٹینینس کے متواتر لمبے روٹس پر چلانا ہے۔

محمد تنویر (فرضی نام) جو کہ لاہور سے راجن پور کے روٹ ہر نجی بس کمپنی کی جانب سے ڈرائیونگ کی ملازمت کر رہے ہیں کہتے ہیں نارمل دنوں میں لمبے روٹس پر چلنے والی بسوں اور عملے کو متوازن ارام دیا جاتا ہے مگر چھٹیوں اور عید کے موقع پر بڑے روٹس پر صرف ایک سائیڈ کی بہت زیادہ سواری ہونے کہ وجہ سے اکثر اوقات پہنچنے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے۔ محمد تنویر کے مطابق عموماً بڑے روٹس پر روڈز کی خستہ حالت، کم شرح منافع کی وجہ سے ہمیشہ منافع بخش روٹس سے فارغ شدہ بسوں کو ہی بڑے روٹس پر استعمال کیا جاتا ہے۔

اس کا میں خود بھی عینی شاہد ہوں کہ ایک بڑی بس کمپنی کہ ملتان اور ڈیرہ غازی خان کے لئے چلنے والی بس اور لاہور سے راجن پور کے لئے چلنے والی بس میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ میں جس بس میں عازم سفر ہوں اس کا بھی یہ حال ہے کہ سیٹیں ہل رہی ہیں اور ہر دھکے ہر پتہ چل رہا ہے کہ گویا بس نہیں ٹینک میں بیٹھ کر سفر کر رہا ہوں۔

محمد تنویر کے مطابق پہلے سے ہی کم کارکردگی کی بسیں لمبے روٹ، خستہ سڑکوں اور اور رننگ کہ وجہ سے نہ صرف گاڑی بلکہ ڈرائیور اور عملہ بھی تکان کا شکار ہوجاتا ہے جس سے دوران ڈرائیونگ نیند کا آنا، بسوں کی بریکوں کا کام نہ کرنا یا تیز رفتاری میں گاڑی بے قابو ہوجاتی ہے۔

میری بس کی روانگی کا ٹائم تو 8 بج کر 30 منٹ تھا مگر اڈے سے رش میں نکلتے نکلتے بند روڈ سے موٹروے تک ساڑھے نو بج گئے۔ محمد تنویر کے مطابق رش میں پھنسنے اور اڈے پر ہونے والی تاخیر کو کور کرنے لئے سپیڈ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ لاہور سے ملتان موٹروے پر سفر کے دوران اکثر ڈرائیورز اور سپیڈنگ کرتے ہیں تاکہ آگے خستہ سڑک پر ہونے والی تاخیر کو کور کیا جاسکے یا پھر موٹروے پر پیٹرولنگ اور چیک اپ ہونے کہ وجہ سے پھر خستہ حال روڈز پر ہی اوور سپیڈنگ کی جاتی ہے۔ جس میں تھکاوٹ اور نیند سے بھرپور ڈرائیور بعض اوقات گاڑی پر قابو پانے میں ناکام ہوجاتا ہے۔

میرا خود کا مشاہدہ ہے کہ کورونا لاک ڈاؤن کے دوران گنجائش سے زیادہ سواریوں کے باوجود ہر ناکے سے بس وہاں پر موجود موٹروے پولیس کے اہلکاروں کو پانی اور اور دیگر مشروبات دے کر بغیر کسی چیکنگ کے آسانی سے گزرتی ہیں۔ ترجمان موٹروے پولیس نے اہلکاروں کو پانی اور دیگر مشروبات کی بوتلیں دیے جانے اور بغیر چیکنگ کے جانے کے سوال پر اس کو انفرادی واقعہ قرار دیتے ہوئے ایسے کسی بھی واقعہ کو موٹروے حکام کو رپورٹ کرنے ضرورت پر زور دیا، ان کے بقول اعلی تربیت یافتہ فورس موٹروے کی جانب سے کسی بھی ڈرائیور یا بس سروس سے ایسی کسی فراہمی کا مطالبہ نہیں کیا جاتا ہے۔

محمد نوید جو کہ سرگودھا کی تحصیل چھوٹا ساہیوال سے لاہور کے لئے سفر کرتے رہتے ہیں کے بقول ہر دفعہ چھٹیوں کے بعد وہ جس بس میں آتے ہیں اس کی سیٹیوں کے ساتھ ساتھ اتنی ہی تعداد میں مسافر نہ صرف بس میں کھڑے ہوتے ہیں بلکہ اکثر اوقات ڈگیوں میں سامان کے ساتھ آتے ہیں۔ اب چونکہ سواریوں نے آفس پہنچنا ہوتا ہے تو جگہ جگہ ہر سٹاپ کرنے اور حد سے زیادہ مسافر ہونے کہ باوجود بھی ڈرائیور ٹائم اوور سپیڈنگ کر کے ٹائم ہر پہنچاتا ہے تو مسافر اس خواری کو بھول کر اسی با کو ترجیح دیتے ہیں۔ محمد نوید کے مطابق اکثر اوقات موٹروے ہر بھی اوور لوڈنگ ہر چار چار چالان بھی ہونے کے باوجود یہ بس بذریعہ موٹروے ہی لاہور پہنچنے میں کامیاب ہوجاتی ہے اور ایسا ہر دفعہ ہوتا ہے۔

ڈرائیور سے چالان کا پوچھیں تو وہ کہہ دیتا کہ جتنا ایک چکر پر منافع نکل آتا ہے اس میں چالان نہیں دکھتا ہے۔ ترجمان موٹروے سے جب قانون کے ایسے مذاق اڑائے جانے پر کارروائی نہ ہونے کا سوال گیا تو ان کا کہنا تھا کہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہوتا کہ بار بار چالان کے باوجود ایک گاڑی مسلسل چلے، ان کے مطابق ایسی گاڑی یا کمپنی کا روٹ پرمٹ منسوخ کر دیا جاتا ہے ہا پھر موٹروے پر داخلے پر پابندی عائد کردی جاتی ہے۔

موٹروے اور جی ٹی روڈ پر تو پنجاب ہائی اینڈ پیٹرولنگ پولیس کے گشت اور پیٹرولنگ کی وجہ سے بہت کم اوور ٹیکنگ کے واقعات پیش آتے ہیں مگر ملتان سے ڈیرہ غازی خان اور راجن پور انڈس ہائی وے پر پیٹرولنگ نہ ہونے انڈس ہائی وے تنگ، خستہ ہونے اور دو رویہ نہ ہونے کی وجہ سے بھی اکثر گاڑیاں الٹ جاتی ہیں یا پھر خوفناک حادثے رونما ہوتے ہیں۔

دوسری جانب ایک ہی روٹ پر مسلسل چلنے والی گاڑیوں کی میٹینیننس چیک اپ کا بھی نظام تو موجود ہے ادارے بھی ہیں مگر 12 سال سے میں نے کسی بھی گاڑی کو روک کر مینٹینینس سرٹفکیٹ یا گاڑی کی حالت کو چیک کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔ اس حوالے سے محکمہ ٹرانسپورٹ کے ترجمان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر بوجہ عید تعطیلات رابطہ ممکن نہیں ہو پایا

جبکہ آل پاکستان ٹرانسپورٹ اتحاد کے ایک سینئر عہدیدار نے مینٹینینس نہ ہونے کو الزام قرار دیتے ہوئے سختی سے تردید کی کہ نہ صرف وقتاً فوقتاً مینٹینینس کی جاتی ہے بلکہ ڈرائیور اور گاڑی کو باقاعدہ ریسٹ کے بعد روٹ پر بھیجا جاتا ہے

آخری وجہ چھوٹے علاقوں میں روڈ سائنز نہ ہونے ٹریفک قوانین کی آگاہی نہ ہونے کہ وجہ سے بے ہنگم چلنے والی چھوٹی اور بڑی ٹریفک میں ایسے واقعات کو روکنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ یہاں یہ حال ہے کہ ڈی جی خان سے روجھان تک ہیوی ٹریفک، دو رویہ سڑک نہ ہونے، اشارے نہ ہونے کہ وجہ سے اتنے حادثات ہوچکے کہ اسے قاتل روڈ کا نام دے دیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments