جرمن عورت اور بچے کی ٹرین اور اسلام آباد کا گلاب چرتا بکرا



شاید پڑھنے والے سمجھتے ہیں کہ منفی بات ہی کیوں کی جاتی ہے۔

اب اردگرد اتنی منفی باتیں پھیلی ہوں تو تھوڑا سا بھی حساس آدمی آخر کیا کرے؟ حالانکہ ایسی باتیں درحقیقت مثبت ہوتی ہیں اگر ان کی وجہ سے اجتماعی شعور میں ذرا سی بھی بہتری آ جائے۔

جرمنی کا ایک آنکھوں دیکھا واقعہ اکثر یاد آ جاتا ہے کہ چھٹی ساتویں کلاس کے ایک جرمن بچے نے ٹرین کی سیٹ پر جوتوں سمیت پاؤں رکھ دیے۔ قریب ہی ایک ادھیڑ عمر جرمن خاتون اسے دیکھ رہی تھی۔ خاتون اپنی سیٹ سے اٹھ کر اس کے پاس آئی اور بچے کو غصے اور پیار کے ملے جلے الفاظ سے سمجھایا جس کا اپنے الفاظ میں خلاصہ یہ تھا کہ ”یہ ٹرین آپ کے والد صاحب کی ذاتی نہیں ہے بلکہ ہر جرمن کے ٹیکس کے پیسوں سے خریدی گئی ہے۔ اس کی میں بھی مالک ہوں اور تم بھی۔ اس لئے اپنی ہی چیز کو گندا یا خراب کرنے کا نہ تمہیں حق ہے نہ میں مجرمانہ خاموشی کا ارتکاب کروں گی۔“ اس لڑکے نے معافی مانگی اور اپنی ٹانگیں نیچے کر لیں۔

یہ واقعہ دیکھے شاید تین دہائیاں ہونے کو ہیں لیکن زندگی کے مختلف موڑ یہ واقعہ تازہ کر دیتے ہیں۔ خصوصاً پاکستان کے روز و شب جہاں کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی رنگ میں ملکی یا اجتماعی املاک یا قانون کو روند رہا ہوتا ہے اور دیکھنے والے خاموشی سے دوسری طرف منہ پھیر لیتے ہیں۔ اس میں کچھ تو ہمارے شعور کا معاملہ ہوگا اور کچھ خواہ مخواہ کی لڑائی گلے پڑوانے سے بچنے کا۔

کیونکہ اگر آپ کسی بچے کو سمجھانے کی ہمت کر ہی بیٹھیں تو ہو سکتا ہے اس کے والدین آپ سے لڑنے کے لئے آجائیں۔ اگر کسی بڑے کو سمجھانے کی جرات دکھائیں تو ممکن ہے وہ آگے سے کہہ دے ”آیا بڑا سمجھ دار، تیرا زیادہ ملک ہے۔“ اور سمجھانے والے کو یہ بات کہ ”جس چیز کو آپ خراب کر رہے ہو یہ آپ کے والد صاحب کی ہے“ کہنے کی بجائے الٹی سننی پڑ سکتی ہے۔

سی ڈی اے (اسلام آباد) نے حال ہی میں پارکوں اور سڑکوں پر کروڑوں روپیہ خرچ کیا ہے۔ نئے پودے لگائے، گھاس لگائی، واکنگ ٹریک سیدھے کیے ، جنگلے اور بنچ لگائے، رنگ و روغن کیا، بچوں کے جھولے اور دوسری کھیلنے والی چیزیں نئی لگائی یا مرمت کی ہے۔ ان پر پیسہ ہر اس پاکستانی شہری کا لگا ہے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ ٹیکس دیتا ہے۔ پس ان کی ملکیت بھی ہر شہری کی ہے، اس علاقے کے لوگوں کا حق ہے جو ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن باپ کا مال سمجھ کے اسے ضائع کرنا وہیں کے مقیم اپنا فرض سمجھے ہوئے ہیں۔

ایسے ہی ایک پارک میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں گلابوں کی کیاریاں بنائی گئی تھیں، نئے پودے لگائے گئے تھے، بنچ مرمت کیے گئے تھے۔ عجیب بدبو پھیلی ہوئی، گلاب کی کیاریاں ٹنڈ منڈ ہوئی اور بنچوں کے ساتھ بیل اور بکرے بندھے پائے۔ دو بکرے اس وقت بھی گلاب کے رہے سہے پتوں کو اجاڑ رہے تھے۔ پاس جا کر دیکھا تو ایک مرد اور ایک عورت معہ اپنے بچوں کے ان بکروں کو گلاب چرا رہے تھے۔ جتنے بکرے لطف اندوز ہو رہے تھے اتنے ہی سارے اہل خانہ بھی مسرور تھے۔

اب آپ سوج رہے ہوں گے کہ راقم نے انہیں منع کیا؟ تو جواب ہے جی ہاں۔ پھر وہ باز آئے؟ انہوں نے ایسے ہنس کے دیکھا جیسے کسی انوکھی بات پر تمسخرانہ انداز میں دیکھتے ہیں۔ یہ بھی شکر ہے انہوں نے کچھ کہا نہیں وگرنہ وہ یہ کہہ سکتے تھے کہ یہ پارک آپ کا ذاتی ہے یا وراثت میں ملا ہے؟ پھر میں کیا بگاڑ لیتا۔

خیر سے ابھی تین دن اسی پارک میں بکروں اور بیلوں کی قربانی بھی کی جائے گی۔ پھر تین ہفتے خون کا سرخ رنگ گلابوں کی لالی اور ان کی آلائشیں باد نسیم کو شرمندہ کریں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments